ابابیل
Senator (1k+ posts)
ڈارون کا نظریہ ارتقاء اور ملحدین
ڈاکٹر محی الدین وسیم
لوگ کتنا ہی کہہ لیں کہ سائنس کا کوئی مذہب نہیں مگر ڈارون کے نظریہ ارتقاء (۱۸۵۴) کے بعد ملحدین نے جس طرح سائنس کو اپنے گھر کی لونڈی بنانے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ نظریہ جب تک ثابت نا ہو جائے وہ نظریہ ہی رہتا ہے، دھوکادہی تو یہ ہے کہ اس کو سچ کے طور پر پیش کیا جائے۔ اسی لیے آئینسٹائن کہتا تھا کہ ایماندار محقق صرف وہ ہے جو اپنے نظریےکی خامیوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کرتا ہو اور ان کو یہ بتاتا ہو کہ کس طرح اس کے نظریہ کی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں۔ ڈارون کے چاہنے والے تو آپ کو بتائیں گے نہیں مگر جدید تحقیق اور فوسل کے ریکارڈ نے ثابت کیا ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بھی ھر نوع حیات کا جینیاتی مادہ بغیر تغیر کے محفوظ ہی رھا ہے اور یہ ایک مفروضہ ہی تھا کہ جینیاتی مادے کا تغیر دنیا میں موجود ہر قسم کی حیات بشمول انسان اور حیوان کی زندگی کا منبہ تھا۔ بندر سے انسان کے درمیانی مدارج (ہوموایرکٹس اور ہوموسیپین) نہ تو کسی نے دیکھے اور نا ہی فوسل ریکارڈ سے ثابت ہو سکے۔ علم الانسان یا بشریات کے ماہر یعنی اینتھروپولوجسٹ (Anthropologists) اپنی تما م تر کوشش کے بعد بھی انسان اور بندر کے درمیان کوئی جوڑ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آج تک دنیا بھر میں زمین کی کھدائی سے کوئی ایک بھی ہڈی ایسی نہیں ملی جو ان کے درمیان کے دور کو ثابت کرتی ہو۔ یہ تغیر بار بار کیوں نہیں ہوتا تاکہ ہم سب بھی دیکھ سکیں اس کا بھی کوئی جواب نہیں۔ چنانچہ میرے لیے تو قرآن کی سورہ التین کی یہ آیت ہی کافی ھے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ"بیشک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا"۔
ڈارون کے بندر کو ملحدین اپنا باپ بناتے رہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محی الدین وسیم

لوگ کتنا ہی کہہ لیں کہ سائنس کا کوئی مذہب نہیں مگر ڈارون کے نظریہ ارتقاء (۱۸۵۴) کے بعد ملحدین نے جس طرح سائنس کو اپنے گھر کی لونڈی بنانے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ نظریہ جب تک ثابت نا ہو جائے وہ نظریہ ہی رہتا ہے، دھوکادہی تو یہ ہے کہ اس کو سچ کے طور پر پیش کیا جائے۔ اسی لیے آئینسٹائن کہتا تھا کہ ایماندار محقق صرف وہ ہے جو اپنے نظریےکی خامیوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کرتا ہو اور ان کو یہ بتاتا ہو کہ کس طرح اس کے نظریہ کی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں۔ ڈارون کے چاہنے والے تو آپ کو بتائیں گے نہیں مگر جدید تحقیق اور فوسل کے ریکارڈ نے ثابت کیا ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بھی ھر نوع حیات کا جینیاتی مادہ بغیر تغیر کے محفوظ ہی رھا ہے اور یہ ایک مفروضہ ہی تھا کہ جینیاتی مادے کا تغیر دنیا میں موجود ہر قسم کی حیات بشمول انسان اور حیوان کی زندگی کا منبہ تھا۔ بندر سے انسان کے درمیانی مدارج (ہوموایرکٹس اور ہوموسیپین) نہ تو کسی نے دیکھے اور نا ہی فوسل ریکارڈ سے ثابت ہو سکے۔ علم الانسان یا بشریات کے ماہر یعنی اینتھروپولوجسٹ (Anthropologists) اپنی تما م تر کوشش کے بعد بھی انسان اور بندر کے درمیان کوئی جوڑ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آج تک دنیا بھر میں زمین کی کھدائی سے کوئی ایک بھی ہڈی ایسی نہیں ملی جو ان کے درمیان کے دور کو ثابت کرتی ہو۔ یہ تغیر بار بار کیوں نہیں ہوتا تاکہ ہم سب بھی دیکھ سکیں اس کا بھی کوئی جواب نہیں۔ چنانچہ میرے لیے تو قرآن کی سورہ التین کی یہ آیت ہی کافی ھے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ"بیشک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا"۔
ڈارون کے بندر کو ملحدین اپنا باپ بناتے رہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
Last edited by a moderator: