ریاض ملک کے ذریعے چیف جسٹس پر کئے گئے خود کش حملے میں ناکامی اور وزیر اعظم کی قربانی کے بعد حکمران اتحاد نے چیف جسٹس کے خلاف حتمی کارروائی اور آئندہ کے لئے ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے ایک انتہائی اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جو آئین میں بنیادی تبدیلی لا کر چیف جسٹس کے خلاف حتمی کارروائی کا اختیار پارلیمنٹ کو دینے اور پورے ملک کی ایک سپریم کورٹ کے تصور کو ہی ختم کرنے پرمبنی ہے۔ اس عجیب و غریب فیصلے کو عدلیہ سے متعلق قانون سازی میں اصلاحات کا نام دیا جا رہا ہےاور اس کی مکمل دستاویز پی پی کے ایک رہنما نے تیار کرلی ہیں اور اب اتحادیوں سے اس پر تعاون حاصل کیا جا رہا ہے۔ اسے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت سے منظور کرانے کے بعد آئین کا باآسانی حصہ بنا دیا جائے گا اور پھر آئندہ کوئی سپریم کورٹ کسی وزیر اعظم یا صدر کو چیلنج نہیں کرپائے گی۔ اسی دستاویز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ملک کی سپریم کورٹ کو ہی ختم کردیا جائے اورہر صوبے کی اپنی سپریم کورٹ بنائی جائے گی تاکہ آئیندہ کوئی نا پسندیدہ صورتحال پیدا ہی نہ ہو۔ اس قسم کی سفارشات تیار کرنے کا کام، پاکستان پیپلز پارٹی کی منشور کمیٹی کررہی ہے جس نے دستاویز تیار کرلی ہے اور اس پر نواز شریف کی حمایت بھی حاصل کی جار ہی ہے تاکہ اسے منظور کرا کر آئین کاحصہ بنا دیا جائے۔ ن لیگ کو راضی کرنے کے لئے اس میں بار بار میثاق جمہوریت کا نام لیا گیا ہے۔ ملنے والی تفصیلات کے مطابق پاکستان پيپلز پارٹي نے موجودہ سپريم کورٹ کي جگہ ملک کے تمام صوبوں ميں سپريم کورٹس کي تشکيل کے منصوبے پر کام شروع کر دياہے جس کے مطابق ہر صوبے کي اپني سپريم کورٹ ہو گي، جو حتمي اور آخري اپيلنٹ کورٹ ہو گي دوسري جانب ميثاق جمہوريت ميں طے شدہ فارمولے کے تحت وفاقي آئيني کورٹ تشکيل دي جائے گي جس ميں تمام صوبوں کي مساوي نمائندگي ہو گي پاکستان پيپلز پارٹي کي منشور کميٹي کيلئے تيار کي گئي 21 نکات پر مشتمل دستاويز ميں کہا گيا ہے کہ ججوں کے تقرر کے طريقہ کار ميں ان گائيڈ لائنز پر عمل کيا جائے گا جو پاکستان پيپلز پارٹي اور پاکستان مسلم ليگ (ن) کے مابين ہونے والے ميثاق جمہوريت ميں وضع کي گئي ہيں منشور کميٹي کي سفارشات ميں مزيد کہا گيا ہے کہ اعلي عدليہ کے ججوں کي اساميوں کو خالي نہيں رکھا جائے گا اس ضمن ميں دستاويز کے 21 ويں نکتہ ميں کہا گيا ہے کہ اعلي عدليہ کے ہر جج کي ريٹائرمنٹ سے پہلے نئے جج کي تقرري کے تمام مراحل کو پورا کرنا لازمي ہو گا اس طرح ريٹائر جج کي جگہ فوري طور پر نيا جج سنبھال لے گا ”عدالتي ڈھانچے کي تشکيل نو“ کے عنوان سے تيار کي گئي تين صفحات کي دستاويز ميں کہا گيا ہے کہ سول سروسز آف پاکستان کي طرز پر جوڈيشل سروسز آف پاکستان کے نام سے ايک نيا ڈھانچہ وجود ميں لايا جائے گا جوڈيشل سروسز ميں شموليت کيلئے امتحانات اور انٹرويوز کي بنياد پر ميرٹ کا طريقہ کار اختيار کيا جائے گا اور ایک سرکاری بورڈ یہ طے کرے گا کہ کس کو جج بنانا ہے پھر قانون کي ڈگري حاصل کرنے والے اميدوار جوڈيشل اکيڈمي ميں تربيت کے بعد بنيادي سطح پر جج کے منصب پر تقرري کے اہل ہوں گے دستاويز کے چھٹے نکتہ ميں بتايا گيا ہے کہ پرائمري سطح پر 13 قسم کي عدالتوں کي تشکيل عمل ميں آئے گي جن ميں ليبر کورٹس، ہاري کورٹس، فيملي کورٹس، حقوق انساني کورٹس، بينکنگ کورٹس، تحفظ صارفين کورٹس، کرائے کے معاملات کي کورٹس، ڈرگ کورٹس، اينٹي کرپشن کورٹس، فوجداري کورٹس، ديواني کورٹس، مصالحتي کورٹس اور انسداد دہشت گردي کي کورٹس شامل ہوں گي دستاويز کي شق 3 ميں کہا گيا ہے کہ ہائيکورٹ کي سطح پر ميثاق جمہوريت ميں طے کردہ طريقہ کار کے مطابق نامور وکلا کا براہ راست بطور جج تقرر کيا جا سکے گا دستاويز کي شق 4 کے مطابق ہائيکورٹ کے جج صاحبان کي ريٹائرمنٹ کي عمر کي حد سپريم کورٹ کے جج صاحبان کي ريٹارمنٹ کي عمر کے برابر کر دي جائے گي اور دونوں سطح پر جج صاحبان کي ريٹائرمنٹ کي عمر 67 سال ہو گي اس دستاويز کي شق 5 ميں کہا گيا ہے کہ جو جج صاحبان ريٹائرمنٹ کے بعد اپني پنشن اور مراعات حاصل کر رہے ہوں گے انہيں کوئي دوسري سرکاري ذمہ داري نہيں سونپي جائے گي دستاويز کي حيثيت محض ڈاک خانے کي نہيں ہو گي بلکہ يہ منصب طے کرے گا کہ کون سے مقدمات اس قابل ہيں کہ انہيں عدالت ميں پيش کيا جائے يا نہ پيش کيا جائے دستاويز کي شق 12 پراسيکيوٹر جنرل کے تقرر سے متعلق ہے جبکہ اس دستاويز کا 12 واں نقطہ تفتيشي برانچ سے متعلق ہے تفتيش کے ضمن ميں يہ لازمي قرار ديا جائے گا کہ تفتيشي افسر کے تقرر کے وقت اس امر کو پيش نظر رکھا جائے کہ اميدوار لازمي طور پر قانون ميں گريجويشن کي ڈگري کا حامل ہو دستاويز کے 14 ويں نکتہ ميں فورنسک شہادت کي اہميت پر زور ديا گيا ہے، جس کے تحت ہر ضلع ميں فورنسک ليبارٹري کا قيام لازمي قرار ديا جائے گا اسي طرح جھوٹ پکڑنے والي مشينوں کي ضرورت پر بھي زور ديا گيا ہے دستاويز ميں گواہوں کے تحفظ کے سلسلے ميں ضروري قانون سازي کرنے پر زور ديا گيا ہے۔ ایک طرف پاکستان کی سپریم کورٹ کو ہی ختم کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف موجودہ چیف جسٹس کے خلاف حتمی کارروائی کے لئے بھی پکا کام کیا جا رہا ہے۔ پاکستان پيپلز پارٹي ملک کے چيف جسٹس کے مواخذے کيلئے آئين ميں ترميم لانے کي تيارياں کر رہي ہے اور اس کا تفصیلی ذکر بھی پی پی کی منشور کمیٹی نے اپنی دستاویز میں کردیا ہے۔ اس ضمن ميں چار پيراگراف اور چار نکات پر مشتمل ايک نئي آئيني ترميم کي تجويز پر مشتمل دستاويز تيار کي گئي ہے جس کي شق 3 اور 4 چيف جسٹس کے مواخذے سے متعلق ہے شق 3 ميں کہا گيا ہے کہ ملک کي سينيٹ اپني دو تہائي اکثريت سے چيف جسٹس کا مواخذہ کر سکے گي پيپلز پارٹي کي تجويز ميں کہا گيا ہے کہ سينيٹ کو يہ اختيار ہو گا کہ وہ اپني دو تہائي اکثريت سے چيف جسٹس کا مواخذہ کر سکے اس تجويز کي شق نمبر 4 ميں کہا گيا ہے کہ سينيٹ ميں مواخذے کي کارروائي ايک قرارداد کے ذريعے شروع ہو گي اور اس قرارداد پر سينيٹ کے نصف ارکان کے دستخط لازمي ہوں گے تجويز ميں کہا گيا ہے کہ مواخذے کے بعد چيف جسٹس کو ان کے منصب سے سبکدوش کيا جا سکے گا۔ یہ ایک انتہائی خوفناک بات ہے کہ اگر اسے آئین کا حصہ بنا دیا جاتا ہے تو پھر چیف جسٹس کرپٹ اراکین پارلیمنٹ کے رحم و کرم پر ہوں گے اور وہ جب چاہیں گے انہیں ذلیل کر کے نکال سکیں گے۔ پيپلز پارٹي کي اس تجويز کي شق 1 اور شق 2 سپريم جوڈيشل کونسل کي تشکيل سے متعلق ہيں شق 1 ميں کہا گيا ہے کہ سپريم جوڈيشل کونسل ميں سپريم کورٹ کے چيف جسٹس کے علاوہ سپريم کورٹ کے صرف ايک سينئر جج کو شامل کيا جائے جبکہ شق نمبر 2 ميں کہا گيا ہے کہ سپريم جوڈيشل کونسل ميں ملک کي چاروں ہائي کورٹوں کے چيف جسٹس صاحبان بطور ممبر شامل ہوں گے چيف جسٹس کے مواخذے اور سپريم جوڈيشل کونسل کي تشکيل نو کے ضمن ميں مجوزہ آئيني تراميم پاکستان پيپلز پارٹي کے رہنما، منشو رکميٹي کے رکن تاج حيدر نے تيار کي ہيں