syed01
MPA (400+ posts)
اپنے طرز کے ایک نئے حملے میں پہلے مرحلے پر ہی چیف جسٹس ا پنے خلاف سازش کرنے والوں کو چت کرچکے ہیں
مگر اب کچھ لوگ چیف جسٹس کے خلاف سازش آگے بڑھانےکے لئے غیر ملکی اور متنازع میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اہم ترین سیاسی شخصیت کی قریبی دوست، برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب سرگرم ہے اور اس اتوار کو وہ اس حوالے سے ایک گرما گرم اسٹوری شائع کرے گی۔
اگرچہ پیپلزپارٹی اپنے آپ کو چیف جسٹس کے بیٹے کے اسکینڈل سے دور رکھنا چاہتی ہے مگر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ارسلان افتخار کے ملک ریاض کے ساتھ 400 ملین روپے کے معاملات کی اسٹوری آئندہ اتوار کو برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز میں شائع ہو گی، واضح رہے کہ سنڈے ٹائمز بھڑک دار قسم کی کہانیاں شائع کرنےکی شہرت رکھتا ہے اور اسے سنجیدہ اخبارات میں شمار نہیں کیا جاتا۔ اس حوالے سے پی پی رہنما فواد چوہدری نے اپنے ٹیوٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ اس اسکینڈل پر کرسیٹنالیمب کی اسٹوری ممکنہ طور پر اسی ہفتہ سنڈے ٹائمز میں شائع ہونے جا رہی ہے اور چیف جسٹس بے نقاب ہوجائیںگے اور انہیںگھر جانا ہی پڑے گا، نہ صرف یہ بلکہ پی پی کے اس رہنما نے بدھ کو یہ بھی ٹوئٹر پر لکھا کہ ”قابل احترام چیف جسٹس ! ذمہ داری قبول کریں اورمستعفی ہو جائیں، چیف جسٹس کے چمچو! ہم پر ہیروز مسلط کرنا بند کرو۔
س حوالے سے پی پی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ برطانوی میڈیا میں چیف جسٹس کے خلاف اسٹوری شائع ہونے کے بعد چیف جسٹس چاہے کچھ بھی کرلیں، یہ اسٹوری زندگی بھر ان کا پیچھا کرتی رہے گی اور وہ اسے اپنےدامن سے دھو نہیں سکیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیامیں سے کوئی بھی یہ اسٹوری شائع کرنےپرتیار نہ تھا اس لئے اسے برطانوی دوسرے درجے کےاخبار میں شائع کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو چیف جسٹس نے اپنے ہی بیٹے کے خلاف ایکشن لے کر پاکستان میں ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس کی نظیر پہلے ہی ملتی حتی کہ موجودہ حکومت کےسربراہ، وزیر اعظم نے بھی اپنے بیٹوں کے خلاف ہولناک مقدمات میں انہیں بچانے کی پوری کوشش کی۔
اس سلسلے میں موجودہ حکومت میںمالیاتی بدعنوانی میں مبینہ طور پر ملوث چار بیٹوں کے والدوں کا ردعمل قطعی متضاد رہا، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور سینئر وفاقی وزیر پرویز الٰہی کی مبینہ بدعنوانیوں کے معاملے میں دونوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لئے اپنی پوری کوششیں کیں مگر چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری اپنے صاحبزادے کو الزامات لگنے کے فوراً بعد انصاف کے کٹہرے میں لے آئے۔ وزیراعظم اور سینئر وفاقی وزیر نے اپنے بیٹوں کے خلاف تحقیقاتی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی حتیٰ کہ استغاثہ کے لئے ایک کمزور مقدمہ بنانے کے لئے تحقیقاتی افسر کو بدلتے رہے جبکہ چیف جسٹس نے بدھ کو بھری عدالت میں واضح کردیا کہ اگر ان کا بیٹا ارسلان بدعنوانی کے اسکینڈل میں ملوث ثابت ہوا تو اس کو عبرت کی مثال بنادیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ارسلان افتخار پر عدلیہ کے نام پر بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض سے 300/ ملین روپے وصول کرنے کا الزام ہے۔ چیف جسٹس نے اس میڈیا رپورٹ کا از خود نوٹس لیا اور بدھ کو کیس کی سماعت کی اور واضح کیا کہ عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کرنے والے کو چھوڑا نہیں جائے گا چاہے وہ ججوں کا قریبی ہی کیوں نہ ہو۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم کے دو بیٹوں عبدالقادر گیلانی اور موسیٰ گیلانی کا نام حج اسکینڈل اور ایفیڈرین اسکینڈل میں نام آیا دونوں مواقعوں پر پہلے تو تحقیقاتی افسروں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی بعد ازاں مراعات یافتہ بیٹوں کو بچانے کے لئے تحقیقاتی افسروں کو تبدیل کردیا گیا۔
اسی طرح این آئی سی ایل اسکینڈل میں چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کے معاملے میں وزیراعظم نے نہ صرف سپریم کورٹ سے تنازع پیدا کیا، دیانت دار تحقیقاتی افسر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ظفر قریشی و دیگر افسران کے بار بار تبادلے کئے بلکہ دو اسٹیبلشمنٹ سیکریٹرز رؤف چوہدری اور سہیل احمد کے بھی تبادلے کئے بعد ازاں ظفر قریشی کی ریٹائرمنٹ پر ایف آئی اے کی پوری تحقیقاتی ٹیم کو ہائی جیک کرکے مراعات یافتہ بیٹے کو سزا سے بچالیا گیا حتیٰ کہ مونس الٰہی کو بری کرنے والے جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ استغاثہ نے نیم دلی سے کیس کی پیروی کی۔
دوسری جانب، چیف جسٹس کے بیٹے کے خلاف اسکینڈل کا انکشاف کرنے والے ایک سنیئر پاکستانی صحافی نے از خود نوٹس کے کیس میں بیان حلفی جمع کرایا ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے ٹیلی فون پر مجھ سے پوچھا کہ چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار کے بارے میں کچھ خبریں گردش کر رہی ہیں کیا مجھے اس سلسلے میں کچھ پتہ ہے ؟ میں نے عاصمہ جہانگیر کو بتایا کہ میں نے بھی یہ باتیں صحافتی حلقوں میں سنی ہیں لیکن کسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے ۔عاصمہ جہانگیر نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اس ٹیلی فون کال کے بعد وہ بیرون ملک روانہ ہو گئیں۔-
2 بعد ازاں میں نے جسٹس (ر) طارق محمود کو فون کیا اور افواہوں کے متعلق دریافت کیا انہوں نے بتایا کہ انکی اطلاع کے مطابق دی نیوز کے ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی کے پاس کافی انفارمیشن ہے میں نے اسی شام مورخہ 30مئی 2012کو انصار عباسی صاحب کو اپنے ٹی وی پروگرام میں مدعو کیا اور ان سے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے خلاف کیا سازش ہو رہی ہے ؟ انصار عباسی نے اس سلسلے میں کوئی تفصیل بیان نہیں کی کیونکہ ان کے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا ۔-
3 اگلے دن 31مئی2012کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کیپٹل ٹاک میں مدعو تھے میں نے ان سے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے خلاف کیا سازش ہو رہی ہے ؟عمران خان نے جواب دیا کہ انہیں سازش کا علم ہے اور چیف جسٹس اس سازش میں سے بھی سرخرو ہو کر نکلیں گے۔-4 31مئی کی شام ہی میں نے ملک ریاض صاحب کو فون کیا اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا رات ساڑھے نو بجے کے قریب میں انہیں اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ملا جہاں ان کا بیٹا علی بھی موجود تھا میں نے ملک ریاض صاحب کو بتایا کہ ارسلان افتخار کے بارے مں کچھ افواہیں گردش کر رہی ہیں ان افواہوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟
ملک ریاض صاحب نے ایک فائل منگوا لی جس میں کچھ دستاویزات شامل کی گئی تھیں تمام دستاویزات فوٹو کاپیاں تھیں ۔اور ملک ریاض صاحب کے بقول ارسلان افتخار نے ان کے بیٹے اور داماد سے کافی رقم لی ملک ریاض صاحب نے کہا کہ کچھ ویڈیوز بھی موجود ہیں لیکن انہوں مجھے کوئی ویڈیو نہیں دکھائی میں نے ملک ریاض صاحب سے کہا کہ کیا یہ وفاقی حکومت کی طرف سے چیف جسٹس کو کوئی پیغام دیا جا رہا ہے تو ملک صاحب نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں صدر آصف علی زرداری کو اس معاملے کا پتہ چلا تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ اس معاملے کو منظر عام پر نہ لائیں کیونکہ الزام ہم پر آئے گا یہ سن کرمیں نے پوچھا کہ اس سارے معاملے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے چیف جسٹس صاحب ان دنوں لاپتہ افراد اور بلوچستان بد امنی کیس جیسے اہم مقدمات سن رہے ہیں اور خفیہ ادارے کافی دباؤ میں ہیں کہیں اس سارے معاملے کے پیچھے وہ ادارے تو نہیں ؟
ملک ریاض صاحب نے اس کی تردید کی اور کہا کہ ان کے بیٹے علی کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس کا بیٹا ارسلان افتخار ہمیں بلیک میل کر رہا ہے اس لیے ہم نے یہ فائل تیار کی ہے انہوں نے کہا کہ بہت جلد ایک برطانوی اخبار میں یہ اسکینڈل شائع ہو جائے گا تاہم میں نے ان سے کہا کہ اس سارے معاملے میں چیف جسٹس صاحب کے خلاف کوئی براہ راست کوئی ثبوت نہیں ہے تمام الزامات ارسلان افتخار کے خلاف ہیں اور پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے بھی ارسلان افتخار پر بہت سے الزامات لگائے تھے ملک ریاض صاحب کا اصرار تھا کہ ارسلان افتخار نے جو کچھ بھی کیا اپنے والد چیف جسٹس کی مرضی سے کیا لیکن میں نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ آپکے تمام دعوؤں کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس شہادتوں کی ضرورت ہے جو کہ آپ کے پاس موجود نہیں ہیں۔
دریں اثنا چیف جسٹس کے خلاف اب تازہ اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا مقدمہ خود کیوں سن رہے ہیں۔اگرچہ دنیا کی تاریخ میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں جن میں حاضر سروس ججز کے بیٹوں کو یا تو ان کے والد کے سامنے طلب کیا گیا ہو یا پھر انھیں ان کے کسی جرم پر سزا دی گئی ہو۔تاہم ہمیں اسلامی فقہ سے ایسی نظیریں ملتی ہیں جن میں حکمرانوں نے اپنی اولاد کو تعزیر سے بچانے کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ موجودہ دور میں امریکا، برطانیہ اور نیوزی لینڈمیں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں قانون نے مسند انصاف پر بیٹھے افراد کے اہل خانہ کو سزائیں دیں ۔
حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار چوہدری اپنے اوپر عائد کرپشن کے الزامات کے ایک مقدمے میں اپنے والد کے روبرو عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔تحقیق کے مطابق دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر خطاب نے اپنی مدت خلافت میں شراب پینے پر اپنے صاحبزادے عبدالرحمن (ابو شحمہ)کو کوڑے مارے۔حضرت عمر خطاب کے دور خلافت میں اسلامی ریاست بے نظیر رفتار سے وسیع ہوئی اور انھوں نے فارس کی پوری سلطنت اور روم کی دو تہائی سے زیادہ سلطنت پر حکومت کی۔کئی اسلامی کتابوں میں اس واقعے کو نقل کیا گیا جن کے مطابق شراب پینے کے جر م میں حضرت عبدالرحمن پر حد جاری کی گئی اور انھیں خود ان کے والد محترم دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر خطاب نے اپنے ہاتھ سے کوڑے مارے ۔مدینے میں ایک معزز خاتون نے چوری کا اتکاب کیا۔
آپ کے چہیتے صحابی حضرت اسامہ نے حضور سے اس خاتون کو معاف کرنے سفارش کی تو آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ تم سے پہلے کی قومیں اس لیے گمراہ ہوئیں کہ اگر ان میں کوئی معزز فرد چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اسے سزا دیتے۔خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جاتا۔اکتوبر 1967 میں امریکا کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں شہر کے ٹریفک جج نے قانون شکنی پر خود اپنے 19سالہ بیٹے کو 10دن کے لیے قید کی سزا سنائی۔فروری 1941میں نیوزی لینڈ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کے بیٹے کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں بنچ کے دیگر ساتھیوں نے ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔
دسمبر 2011میں شمالی نیواڈا کے ایک جج کے 21سالہ بیٹے کو اپنے والد کی پستول چوری کرکے فروخت کرنے کے جرم میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔مئی 2010میں امریکا کی جیکسن کاوٴنٹی سرکٹ کورٹ کے جج کے بیٹے کو ڈکیتی کے جرم میں چار ماہ کے لیے جیل کی ہوا کھانا پڑی ۔برطانیہ میں جنوری 2005میں ایک جج کے بیٹے میتھیو کارول کو یورو کپ میں انگلینڈ کی شکست کے بعد ہونے والے فساد میں ملوث ہونے کے جرم میں 27ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔دسمبر 2007میں ایک امریکی جج کے بیٹے کو غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باعث سزا ہوئی۔
Last edited by a moderator: