maksyed
Siasat.pk - Blogger
چیف جسٹس زمین کے خداﺅں سے اُلجھ بیٹھے ہیں
عمران خان خوازہ خیل
عمران خان خوازہ خیل
ابراہیم بن ادھم بلخ کے بادشاہ تھے ۔ بہت ہی عابد،زاہد اور نیک دل انسان تھے ۔ایک رات وہ محواستراحت تھے کہ محل کی چھت پہ کسی کے چلنے کی آہٹ سے بیدار ہوتے ہی چھت پر تشریف لے گئے وہاں ایک شخص کو ٹہلتے دیکھا تو پوچھا کہ تم کون ہو اور کیا ماجرا ہے ۔اس بندے نے کہا کہ میں اپناگمشدہ اونٹ تلاش کررہا ہوں تو بادشاہ حیران ہوا اور کہا کہ محل کی چھت پر اونٹوں کا کیا کام تو اس شخص نے کہا کہ محل میں پرآسائش زندگی گزارنے والا کہاں حقیقت کو پاسکتا ہے ۔ابراہیم ذہین تھے فوراَ اشارہ بھانپ گئے کہ حکم آچکا ہے اس وقت انہوں نے اپنی بادشاہت چھوڑنے کا اعلان کیا ۔ان کے درباری ،امراءاور قریبی لوگ ان کو سمجھانے لگے یہاں تک کہ ان کے گھر والوں نے بھی اصرار کیا لیکن ابراہیم کی دل کی دنیا بدل چکی تھی انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب میرا بیٹا بڑا ہوجائے تو اس کو یہ انگوٹھی دینا ۔ میں اس کو اس سے پہچان جاﺅں گا اس کے بعد وہ اپنی سلطنت چھوڑ کر جنگلوں بیابانوں کا رخ کرگئے ۔عبادت گزاری ،تذکیہ نفس اور تعلیم وتربیت میں مشغول ہوگئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکی پہچان اور تعریف اللہ کے ایک نیک بندے کی حیثیت سے ہونے لگی ۔ان کا بسیرا کسی ایک جگہ نہیں تھا بلکہ مسلسل سفر میں رہتے اور مختلف شہروں کو اپنا مسکن بناتے ۔اس کا مقصد تبلیغی امور سرانجام دینا بھی تھا وقت گزرتا گیا اور دوسری جانب ان کا بیٹا بھی بڑاہوتا گیا اور آخر کار وہ دن آگیا جب اس نے اپنی ماں سے انگوٹھی لی اور اپنے والد کی تلاش میں نکل پڑا اور مسافتیں طے کرتا مختلف شہروں میں ان کو ڈھونڈتا رہا اور آخر کار ایک مقام پر ان کو پالیا جب بیٹے نے ابراہیم بن ادھم کو وہ انگوٹھی دکھائی تو شفقت پد ر ی امڈ آئی اور فوراَ بیٹے کو سینے سے لگالیا ۔ بیٹے کو سینے سے لگانے کی دیر تھی کہ منادی نے آوازی دی اے ابراہیم محبت کا دعویٰ خالق سے اور سینے سے بیٹے کو لگارکھا ہے تو ابراہیم نے فوراَ اپنے بیٹے کو سینے سے دور کیا اور دعا کی اے اللہ تعالیٰ میری تیرے ساتھ جو محبت ہے اس میں حائل پردے ہٹادے ۔ قبولیت کا وقت تھا دعا قبول ہوگئی اسی وقت ان کا بیٹا دار فا نی سے کوچ کرگیا ۔ابراہیم بن ادھم امتحان میں کامیاب ٹھہرے کیونکہ خالق کائنات کے فرمان کا مفہوم ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو ان کی جان مال اور اولاد کے ذریعے آزمائے گا ۔
ایسی ہی ایک آزمائش میں چیف جسٹس آف پاکستان مبتلا ہیں ۔ان کا خود کا بیٹا آج ان کی ہی عدالت کے کٹہرے میں بحیثیت ملزم کھڑا ہے ۔اس کی وجہ شیطان کے گماشتے جو زمین پر خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں کا انتہائی گھٹیا اور غلیظ قسم کا جال تھا جس میں وہ دانستہ یا غیردانستہ طورپر پھنس چکے ہیں اور ساتھ ہی اپنے والد کیلئے بدنامی کا سبب بھی بنا ۔ لیکن اس مشکل اور کٹھن مرحلے میں کیا مجال جو چیف جسٹس کے قدم لڑکھڑائے ہوں اور کامیابی کے ساتھ ساری صورتحال کا سامنا کررہے ہیں اور مخالفوں کو چت کرتے چلے جارہے ہیں ۔یہ خون آشام قیام پاکستان کے بعد سے ہی مختلف شکلوں میں عوام کا خون چوستے چلے آرہے ہیں لیکن ان کو شائد اس بات کا اندازہ نہیں کہ ہر اندھیری رات کے بعد صبح ہے اور ہر فرعون کیلئے موسیٰ ہی قانون فطرت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آخر کار اس قوم کی بھی سن لی ہے اور چیف جسٹس صاحب کی شکل میں اپنا احسان کیا ہے اور یہی چیف جسٹس صاحب ایک ایسے معیار قائم کررہے ہیں کہ مستقبل میں کوئی بھی زمین پر خدابننے کی کوشش نہیں کریگا ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب مشرف کے دو ر حکومت میں پاک آرمی کے جرنیلوں اور خفیہ ایجنسیوں کے تعاون کے باوجود مشرف چیف جسٹس صاحب کو اپنے ارادے تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکا اور چیف جسٹس صاحب سرخرو ہوئے تھے لیکن اب کی بار شیطان کی دُریت اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آ چکی ہے اور یہ آ زمائش انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہو گی ۔ کیونکہ مشرف کیخلاف چیف صاحب کے حق میں تمام سیاسی جماعتیں تقریباََ میڈیا ،وکلاءاور عوام ان کی پشت پر تھے لیکن اب کی بار سیاسی جماعتیں ،میڈیا اور وکلاءتقسیم ہوچکے ہیں اور خاص طورپر چیف صاحب کے قریبی ساتھی بھی اپنے ضمیروں کا سودا کرچکے ہیں لیکن عوام آج بھی چیف صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں اور عوام ہی سیاسی جماعتوں ،میڈیا اور کسی بھی تحریک کی جان ہوا کرتے ہیں بغیر عوام کی سپورٹ کے ان حلقوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔اس بات کا اندازہ چیف صاحب کے مخالفین کو بھی ہے اسی لئے انہوں نے عوام کو گمراہ کرنے کا مشن شروع کردیا ہے اور غیر منطقی دلیلوں سے ان کے خیالات بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سب سے اہم نکتہ یہ کہ بیٹے کے گناہوں کا ذمہ دار چیف جسٹس کو قرار دیکر ان کی ساخت کو مجروح کیا جائیگا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ باپ بیٹے کے گناہوں کا ذمہ دار کیونکر ہوسکتا ہے ۔
کیا اقابیل جس نے قتل کیا کی ذمہ داری حضرت آدمؑ پر ڈالی جاکستی ہے ؟ کیا حضرت نوحؑ اپنے بیٹے پر کفر پر قائم رہنے کے ذم دار ہیں ؟ کیا حضرت یوسفؑ کو جب ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈالا تو کیا اس کی ذمہ داری حضرت یعقوبؑ پر ڈالی جاسکتی ہے ؟ یقینا نہیں عدالت کے پیش نظر مثالوں پر اکتفا کروں گا ۔ یہاں خدانخواستہ میں چیف جسٹس کو انبیاءیا اولیاءکے درجے یا مقابل نہیں لارہا بلکہ اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کی زندگیوں سے رہنمائی حاصل کرنا مقصود ہے اسی لئے عوام کو ہویشیار رہنا ہوگا ۔الفاظوں کے ہیرپھیر میں آنے کی بجائے حق کا ساتھ دینا ہوگا ۔اپنی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر ملک کی بقاءکا سوچنا ہوگا کیونکہ چیف جسٹس ملک کے کروڑوں لوگوں کیلئے ایک امید اور ایک آس ہیں اور ہم نے اسی امید کو قائم رکھنا اور دوام بخشنا ہے اور اگر اس آخری جنگ کو جیتنے میں کامیاب ہوگئے تو آئندہ کسی کو ہمت نہیں ہوگی کہ عوام کے خیر خواہوں کے خلاف سازش یا غلیظ اور ناپاک قسم کی منصوبہ بندی کرسکے۔
خالق کائنات کافرمان ہے کہ وہ کسی انسان پر اسکی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور اگر اللہ تعالیٰ نے چیف صاحب کو ہی اسی امتحان کیلئے چنا ہے تو انشاءاللہ کامیابی بھی عطاءفرمائے گا ۔
ایسی ہی ایک آزمائش میں چیف جسٹس آف پاکستان مبتلا ہیں ۔ان کا خود کا بیٹا آج ان کی ہی عدالت کے کٹہرے میں بحیثیت ملزم کھڑا ہے ۔اس کی وجہ شیطان کے گماشتے جو زمین پر خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں کا انتہائی گھٹیا اور غلیظ قسم کا جال تھا جس میں وہ دانستہ یا غیردانستہ طورپر پھنس چکے ہیں اور ساتھ ہی اپنے والد کیلئے بدنامی کا سبب بھی بنا ۔ لیکن اس مشکل اور کٹھن مرحلے میں کیا مجال جو چیف جسٹس کے قدم لڑکھڑائے ہوں اور کامیابی کے ساتھ ساری صورتحال کا سامنا کررہے ہیں اور مخالفوں کو چت کرتے چلے جارہے ہیں ۔یہ خون آشام قیام پاکستان کے بعد سے ہی مختلف شکلوں میں عوام کا خون چوستے چلے آرہے ہیں لیکن ان کو شائد اس بات کا اندازہ نہیں کہ ہر اندھیری رات کے بعد صبح ہے اور ہر فرعون کیلئے موسیٰ ہی قانون فطرت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آخر کار اس قوم کی بھی سن لی ہے اور چیف جسٹس صاحب کی شکل میں اپنا احسان کیا ہے اور یہی چیف جسٹس صاحب ایک ایسے معیار قائم کررہے ہیں کہ مستقبل میں کوئی بھی زمین پر خدابننے کی کوشش نہیں کریگا ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب مشرف کے دو ر حکومت میں پاک آرمی کے جرنیلوں اور خفیہ ایجنسیوں کے تعاون کے باوجود مشرف چیف جسٹس صاحب کو اپنے ارادے تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکا اور چیف جسٹس صاحب سرخرو ہوئے تھے لیکن اب کی بار شیطان کی دُریت اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آ چکی ہے اور یہ آ زمائش انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہو گی ۔ کیونکہ مشرف کیخلاف چیف صاحب کے حق میں تمام سیاسی جماعتیں تقریباََ میڈیا ،وکلاءاور عوام ان کی پشت پر تھے لیکن اب کی بار سیاسی جماعتیں ،میڈیا اور وکلاءتقسیم ہوچکے ہیں اور خاص طورپر چیف صاحب کے قریبی ساتھی بھی اپنے ضمیروں کا سودا کرچکے ہیں لیکن عوام آج بھی چیف صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں اور عوام ہی سیاسی جماعتوں ،میڈیا اور کسی بھی تحریک کی جان ہوا کرتے ہیں بغیر عوام کی سپورٹ کے ان حلقوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔اس بات کا اندازہ چیف صاحب کے مخالفین کو بھی ہے اسی لئے انہوں نے عوام کو گمراہ کرنے کا مشن شروع کردیا ہے اور غیر منطقی دلیلوں سے ان کے خیالات بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سب سے اہم نکتہ یہ کہ بیٹے کے گناہوں کا ذمہ دار چیف جسٹس کو قرار دیکر ان کی ساخت کو مجروح کیا جائیگا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ باپ بیٹے کے گناہوں کا ذمہ دار کیونکر ہوسکتا ہے ۔
کیا اقابیل جس نے قتل کیا کی ذمہ داری حضرت آدمؑ پر ڈالی جاکستی ہے ؟ کیا حضرت نوحؑ اپنے بیٹے پر کفر پر قائم رہنے کے ذم دار ہیں ؟ کیا حضرت یوسفؑ کو جب ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈالا تو کیا اس کی ذمہ داری حضرت یعقوبؑ پر ڈالی جاسکتی ہے ؟ یقینا نہیں عدالت کے پیش نظر مثالوں پر اکتفا کروں گا ۔ یہاں خدانخواستہ میں چیف جسٹس کو انبیاءیا اولیاءکے درجے یا مقابل نہیں لارہا بلکہ اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کی زندگیوں سے رہنمائی حاصل کرنا مقصود ہے اسی لئے عوام کو ہویشیار رہنا ہوگا ۔الفاظوں کے ہیرپھیر میں آنے کی بجائے حق کا ساتھ دینا ہوگا ۔اپنی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر ملک کی بقاءکا سوچنا ہوگا کیونکہ چیف جسٹس ملک کے کروڑوں لوگوں کیلئے ایک امید اور ایک آس ہیں اور ہم نے اسی امید کو قائم رکھنا اور دوام بخشنا ہے اور اگر اس آخری جنگ کو جیتنے میں کامیاب ہوگئے تو آئندہ کسی کو ہمت نہیں ہوگی کہ عوام کے خیر خواہوں کے خلاف سازش یا غلیظ اور ناپاک قسم کی منصوبہ بندی کرسکے۔
خالق کائنات کافرمان ہے کہ وہ کسی انسان پر اسکی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور اگر اللہ تعالیٰ نے چیف صاحب کو ہی اسی امتحان کیلئے چنا ہے تو انشاءاللہ کامیابی بھی عطاءفرمائے گا ۔