کئی بڑے تنازعات کا شکار چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی مدت ملازمت آج یعنی 26 جنوری کو ختم ہو گئی ہے۔
سکندر سلطان راجہ کا چار سالہ دور گذشتہ چیف الیکشن کمشنرز کے مقابلے میں زیادہ تر تنازعات کے گرد گھومتا رہا۔ ایک جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اس وقت کی حکومت نے ان کی تعیناتی کی حمایت کی اور پھر وہی ان کی سب سے بڑی مخالف بن گئی۔
چیف الیکشن کمشنر سے تحریک انصاف کا تنازعہ ڈسکہ الیکشن پر شروع ہوا تھا جہاں تحریک انصاف کے جیتے ہوئے امیدوار علی اسجد ملہی کو الیکشن کمیشن نے تسلیم کرنے سےا نکا رکردیا اور دوبارہ الیکشن کا حکم دیا۔
اسکے بعد چیف الیکشن کمشنر کا تنازعہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور ممنوعہ فنڈنگ کیس پر ہوا ۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کی زیرقیادت ممبران نے تحریک انصاف کو بلے کے نشان سے محروم کردیا۔
چیف الیکشن کمشنر اور بعدازاں قاضی فائز عیسیٰ کے اس فیصلے کی وجہ سے تحریک انصاف کو بینگن، مولی، چارپائی، فاختہ، کلاک، بطخ جیسے نشانات پر الیکشن لڑنا پڑا۔
آٹھ فروری الیکشن میں تحریک انصاف کی واضح برتری کو ختم کرنے کاالزام بھی چیف الیکشن کمشنر کے سر آتا ہے اور انکی اس رات خفیہ ملاقات کا بہت چرچا ہے جس کے بعد الیکشن کے نتائج تبدیل ہوتے رہے۔
اس رات نتائج میں غیرمعمولی تاخیر ہوئی اور اس رات ان کا الیکشن کمیشن سے اچانک چند گھنٹوں کے لیے غائب ہو جانا بھی آج تک واضح نہیں۔
علاوہ ازیں الیکشن کے بعد بھی تحریک انصاف سے نشستیں چھیننے کا سلسلہ جاری رہا اور کئی ایم این ایز دوبارہ گنتی کے نام پر سیٹوں سے محروم کردئیے گئے۔
چیف الیکشن کمشنر کی مدت ملازمت اگرچہ ختم ہوگئی ہے مگر اسکے باوجود وہ کام جاری رکھیں گے۔ وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر آئین کے مطابق ہوگا اور آئین اجازت دیتا ہے جب تک نئی تعیناتی نہیں ہوتی یہ کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
اس پر صحافی فہیم اختر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ،ممبر سندھ نثار درانی اور ممبر بلوچستان شاہ محمد جتوئی کی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل ہوگئی اب عدت شروع ہے
https://twitter.com/x/status/1883401386001609196