Khair Andesh
Chief Minister (5k+ posts)
کئی مہینے پہلے جب پہلا روسی بم شامی مسلمانوں پر گرا تھا، اسی دن سے میرا موقف تھا کہ:۔
روس امریکا کی آشیرباد، بلکہ اس کی اجازت و درخواست پر شامی میدان میں کودا ہے۔
نام اگرچہ داعش کا استعمال کیا ہے، لیکن روس کا اصل نشانہ بشار مخالف دوسرے گروہ ہیں(داعش پر تو امریکا خود جتنی چاہے بمباری کر سکتا ہے، لیکن اگر اس نے بشار مخالف گروہوں کو خود نشانہ بنایا تو اس کا ایران دشمنی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا، اگرچہ اس میں اب کوئی راز یا چھپانے والی بات نہیں رہی، اور ساری دنیا میں امریشیعی اتحاد کی باتیں زبان زد عام ہیں)۔
روس بمباری جاری رکھے گا، اور امریکا(اور ظاہر ہے کہ اس کی لونڈی اقوام متحدہ وغیرہ)سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کریں گے۔ تشویش کا اظہار ہو گا، زبانی مذمت ہو گی، کچھ(زبانی )وارننگ بھی دی جائیں گی، مگر عملی کام صفر ہو گا، اور شامی عوام کو روس اور ایران کے ہاتھوں زبح ہونے کا تماشا دیکھا جائے گا۔
چنانچہ جو باتیں کئی مہینے پہلے کہی گئی تھی، (اور جن کا اظہار وقتا فوقتا کیا گیا)، بعد میں ہونے والے واقعات نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
چنانچہ روسی ایرانی ، شامی و امریکی فوجیں مل کر اور کھل کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں۔
حلب کا بڑا حصہ بشار الاسد کی حامی فوج کے قبضے میں
شام کے سرکاری دستوں نے ملک کے مشرقی شہر حلب میں باغیوں کے زیرِ قصبہ علاقے کے ایک تہائی حصے کو بازیاب کرا لیا ہے۔
شدید فضائی بمباری کی مدد سے سرکاری فوج کی پیش قدمی کو مبصرین صدر بشار الاسد کے مخالف مسلح باغیوں کے لیے ایک بڑی شکست قرار دے رہے ہیں۔
شامی فوج کی حلب میں پیش قدمی
سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ سرکاری فوج بارودی سرنگیں اور دھماکہ خیز مواد کو صاف کر کے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ اختتام ہفتے کو شدید لڑائی کے بعد ہزاروں شہری محصور علاقوں سے نکل گئے ہیں۔ ہزاروں خاندان اسی علاقے میں بے گھر ہو گئے ہیں۔
شہر کے قبضے کے لیے ایک عرصے سے لڑائی جاری ہے
تازہ ترین پیش رفت
باغی جنگجوؤں کو حلب کے ان علاقوں سے جن پر ان کا ایک طویل عرصے سے قبضہ تھا پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور سرکاری فوج کی مسلسل پیش قدمی جاری ہے۔
سرکاری ٹی وی اور برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری گروپ کا کہنا ہے کہ ضلع الصاخور پر بھی سرکاری فوج کا قبضہ ہو گیا ہے۔
سرکاری فوج کی الصاخور میں پیش قدمی سے باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔
حلب کی گلی کوچوں اور محلوں میں ہونے والی لڑائی کی صحیح صورت حال کے بارے میں معلوم کرانا انتہائی مشکل ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں کی لڑائی میں باغیوں کے ہاتھوں سے بڑا علاقہ نکل گیا ہے اور ماضی میں جس علاقے پر وہ قابض تھے اس میں سے صرف دو تہائی حصہ ان کے ہاتھوں میں رہ گیا ہے۔
روسی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ شامی فوج نے شہر کے بارہ اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے اور باغیوں کے ہاتھوں سے چالیس فیصہ حصہ نکل گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پیر کو بھی باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر شدید فضائی بمباری کا سلسلہ جاری رہا۔
شامی فوج اور اس کے اتحادیوں نے اس سال ستمبر میں حلب شہر کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
حلب میں بسنے والے شہریوں کا کیا ہوا؟
حلب شہر پر جب سے حملے شروع ہوئے ہیں شہریوں کی بڑی تعداد گھر بار چھوڑ کر ان علاقوں کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں جو یا تو سرکاری فوج کے قبضے میں ہیں یا ان پر کرد گروپوں کا قبضہ ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم سیرئن ابزرویٹری کا کہنا ہے کہ دس ہزار کے قریب لوگ یا تو سرکاری فوج کے زیر قصبہ علاقوں میں چلے گئے ہیں یا کرد کے زیر اثر شمالی ضلع میں منتقل ہو گئے ہیں۔
سرکاری ٹی وی پر مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہرے رنگ کی بسوں میں محفوظ علاقوں میں منتقل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔
حلب شہر کے شیخ مقصود کا علاقہ جس پر کرد گروپوں کا قبضہ ہے اور انھوں نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں سے نکلنے والے شہریوں کی تصاویر جاری کی ہیں۔
شامی کرد وں کی جماعت پی وائے ڈی نے روائٹرز نیوز ایجنسی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ چھ سے دس ہزار لوگ اس علاقے سے نکل گئے ہیں۔ مہاجرین کے بارے میں اقوام متحدہ کے ہائی کشمنر کے ترجمان سکاٹ کریگ نے بی بی سی کو بتایا کہ مشرقی حلب میں ڈھائی لاکھ افراد کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔ ان ڈھائی لاکھ افراد میں ایک لاکھ کے قریب بچے بھی شاممل ہیں۔
سکاٹ کریگ کا کہنا ہے کہ 'مشرقی حلب میں جو صورت حال ہے وہ ان لوگوں کے وہم و گماں سے باہر ہے جو وہاں موجود نہیں ہیں۔'
حلب شہر کے مشرقی حصے میں موجود سات سالہ بانا الباد جن کی ٹویٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں ہزاروں لوگ ان کی ٹویٹ کو دیکھنے والوں میں شامل ہو گئے ہے انھوں نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ شہر کے مشرقی حصے میں واقع ان کے گھر پر بھی بم گرے ہیں۔
انھوں نے لکھا 'شدید بمباری جاری ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان ہیں، برائے مہربانی ہمارے لیے دعا کریں۔'
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ سٹیفن او برائن نے کہا کہ چھ دن قبل حلب پر شروع ہونے والی بمباری میں ہزاروں شہری ہلاک اور زخمی ہو گئے ہیں۔
تمام مسلمان ,ساری دنیا کے مسلمانوں اور خصوصا برما اور شامی مسلمانوں کے حق میں دعا کریں (جیسا کہ خود بربریت کا شکار لوگوں کی بھی خواہش ہے )کہ خدا ان کی مدد کرے، انہیں کفار کے ظلم و ستم سے نجات دے، اور کفریہ طاقتوں اور ان کے حواریوں کو عبرت کا نشان بنا دے۔
روس امریکا کی آشیرباد، بلکہ اس کی اجازت و درخواست پر شامی میدان میں کودا ہے۔
نام اگرچہ داعش کا استعمال کیا ہے، لیکن روس کا اصل نشانہ بشار مخالف دوسرے گروہ ہیں(داعش پر تو امریکا خود جتنی چاہے بمباری کر سکتا ہے، لیکن اگر اس نے بشار مخالف گروہوں کو خود نشانہ بنایا تو اس کا ایران دشمنی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا، اگرچہ اس میں اب کوئی راز یا چھپانے والی بات نہیں رہی، اور ساری دنیا میں امریشیعی اتحاد کی باتیں زبان زد عام ہیں)۔
روس بمباری جاری رکھے گا، اور امریکا(اور ظاہر ہے کہ اس کی لونڈی اقوام متحدہ وغیرہ)سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کریں گے۔ تشویش کا اظہار ہو گا، زبانی مذمت ہو گی، کچھ(زبانی )وارننگ بھی دی جائیں گی، مگر عملی کام صفر ہو گا، اور شامی عوام کو روس اور ایران کے ہاتھوں زبح ہونے کا تماشا دیکھا جائے گا۔
چنانچہ جو باتیں کئی مہینے پہلے کہی گئی تھی، (اور جن کا اظہار وقتا فوقتا کیا گیا)، بعد میں ہونے والے واقعات نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
چنانچہ روسی ایرانی ، شامی و امریکی فوجیں مل کر اور کھل کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں۔
حلب کا بڑا حصہ بشار الاسد کی حامی فوج کے قبضے میں
شام کے سرکاری دستوں نے ملک کے مشرقی شہر حلب میں باغیوں کے زیرِ قصبہ علاقے کے ایک تہائی حصے کو بازیاب کرا لیا ہے۔
شدید فضائی بمباری کی مدد سے سرکاری فوج کی پیش قدمی کو مبصرین صدر بشار الاسد کے مخالف مسلح باغیوں کے لیے ایک بڑی شکست قرار دے رہے ہیں۔
شامی فوج کی حلب میں پیش قدمی
سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ سرکاری فوج بارودی سرنگیں اور دھماکہ خیز مواد کو صاف کر کے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ اختتام ہفتے کو شدید لڑائی کے بعد ہزاروں شہری محصور علاقوں سے نکل گئے ہیں۔ ہزاروں خاندان اسی علاقے میں بے گھر ہو گئے ہیں۔
شہر کے قبضے کے لیے ایک عرصے سے لڑائی جاری ہے
تازہ ترین پیش رفت
باغی جنگجوؤں کو حلب کے ان علاقوں سے جن پر ان کا ایک طویل عرصے سے قبضہ تھا پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور سرکاری فوج کی مسلسل پیش قدمی جاری ہے۔
سرکاری ٹی وی اور برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری گروپ کا کہنا ہے کہ ضلع الصاخور پر بھی سرکاری فوج کا قبضہ ہو گیا ہے۔
سرکاری فوج کی الصاخور میں پیش قدمی سے باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔
حلب کی گلی کوچوں اور محلوں میں ہونے والی لڑائی کی صحیح صورت حال کے بارے میں معلوم کرانا انتہائی مشکل ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں کی لڑائی میں باغیوں کے ہاتھوں سے بڑا علاقہ نکل گیا ہے اور ماضی میں جس علاقے پر وہ قابض تھے اس میں سے صرف دو تہائی حصہ ان کے ہاتھوں میں رہ گیا ہے۔
روسی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ شامی فوج نے شہر کے بارہ اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے اور باغیوں کے ہاتھوں سے چالیس فیصہ حصہ نکل گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پیر کو بھی باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر شدید فضائی بمباری کا سلسلہ جاری رہا۔
شامی فوج اور اس کے اتحادیوں نے اس سال ستمبر میں حلب شہر کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
حلب میں بسنے والے شہریوں کا کیا ہوا؟
حلب شہر پر جب سے حملے شروع ہوئے ہیں شہریوں کی بڑی تعداد گھر بار چھوڑ کر ان علاقوں کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں جو یا تو سرکاری فوج کے قبضے میں ہیں یا ان پر کرد گروپوں کا قبضہ ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم سیرئن ابزرویٹری کا کہنا ہے کہ دس ہزار کے قریب لوگ یا تو سرکاری فوج کے زیر قصبہ علاقوں میں چلے گئے ہیں یا کرد کے زیر اثر شمالی ضلع میں منتقل ہو گئے ہیں۔
سرکاری ٹی وی پر مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہرے رنگ کی بسوں میں محفوظ علاقوں میں منتقل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔
حلب شہر کے شیخ مقصود کا علاقہ جس پر کرد گروپوں کا قبضہ ہے اور انھوں نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں سے نکلنے والے شہریوں کی تصاویر جاری کی ہیں۔
شامی کرد وں کی جماعت پی وائے ڈی نے روائٹرز نیوز ایجنسی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ چھ سے دس ہزار لوگ اس علاقے سے نکل گئے ہیں۔ مہاجرین کے بارے میں اقوام متحدہ کے ہائی کشمنر کے ترجمان سکاٹ کریگ نے بی بی سی کو بتایا کہ مشرقی حلب میں ڈھائی لاکھ افراد کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔ ان ڈھائی لاکھ افراد میں ایک لاکھ کے قریب بچے بھی شاممل ہیں۔
سکاٹ کریگ کا کہنا ہے کہ 'مشرقی حلب میں جو صورت حال ہے وہ ان لوگوں کے وہم و گماں سے باہر ہے جو وہاں موجود نہیں ہیں۔'
حلب شہر کے مشرقی حصے میں موجود سات سالہ بانا الباد جن کی ٹویٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں ہزاروں لوگ ان کی ٹویٹ کو دیکھنے والوں میں شامل ہو گئے ہے انھوں نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ شہر کے مشرقی حصے میں واقع ان کے گھر پر بھی بم گرے ہیں۔
انھوں نے لکھا 'شدید بمباری جاری ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان ہیں، برائے مہربانی ہمارے لیے دعا کریں۔'
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ سٹیفن او برائن نے کہا کہ چھ دن قبل حلب پر شروع ہونے والی بمباری میں ہزاروں شہری ہلاک اور زخمی ہو گئے ہیں۔
تمام مسلمان ,ساری دنیا کے مسلمانوں اور خصوصا برما اور شامی مسلمانوں کے حق میں دعا کریں (جیسا کہ خود بربریت کا شکار لوگوں کی بھی خواہش ہے )کہ خدا ان کی مدد کرے، انہیں کفار کے ظلم و ستم سے نجات دے، اور کفریہ طاقتوں اور ان کے حواریوں کو عبرت کا نشان بنا دے۔