کپتان چھوڑ دے یار سیاست کو ، سیاست تیرے بس کا کام نہیں ہے
پاکستان کی سیاست میں منافق اور بد دیانت ہونا ضروری ہے
لالے تیرے جیسے ایماندار اور سچے انسان کا کام نہیں ہے
کپتان یہ قوم تیرے قابل نہیں ہے یہ تجھے کبھی سمجھ نہیں سکے
یہ قوم ایسے ہی روئے گی جیسا محمد علی جناح کو روتی ہے
اگر تو دنیا کے کسی اور ملک میں ہوتا تو لوگ تیری سہی معائنوں میں قدر کرتے۔
لیکن کیا کریں یار تیری بدقسمتی کہ تو ان میں ہے جو اپنے محسنوں کی کردار کشی کرتی ہے
کپتان تو ان میں ہے جہاں پہلے اپنے ہاتھوں سے مارتے ہیں گالیاں دیتے ہیں اور بعد میں یہ لوگ کہتے ہیں تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
کپتان اس قوم نے کبھی تیرے نظریہ کو سمجھا ہی نہیں
اور تو اور وہ جو تیرے سپورٹر ہیں وہ بھی تیرے نظریہ پر نہیں ہیں
ان میں بہت سے ایسے ہیں جو نواز اور زرداری کی مخالفت میں تیرا ساتھ دے رہے ہیں
کاش کہ یہ لوگ تیرے نظریہ کو سمجھ لیں اور اس پر عمل کر لیں
کپتان یہ قوم تیرے جیسے بندے کی متحمل نہیں ہو سکتی
یہ قوم ایسے سیاست دانوں کو اپنے اوپر مسلط کرنے کی عادی ہو چکی ہے جو اس کو لوٹتے ہیں کھسوٹتے ہیں اور بعد میں لندن و جدہ بھاگ جاتے ہیں
کپتان یہ لوگ ایسے حکمرانوں کو پسند کرتے ہیں جن کی دولت کے انبار منی لانڈرنگ کے ذریعہ دنیا کے بیشتر ممالک میں جمع ہیں
کپتان یار یہ قوم تیرے لائق ہی نہیں ہے
جا اور اپنی زندگی جی بچوں میں رہ اور خوش رہ نہ تجھے کوئی گالی دے اور نہ برا بھلا کہے اور نہ ہم ہی تیرے پیچھے لوگوں کی گالیاں سنیں
کپتان یار تو جا کر کسی ٹی وی چینل پر کمینٹری کر اور کروڑوں پاونڈ کما
کسی سپورٹس میگیزین میں آرٹیکل لکھ اور مزے سے آرام سے بیٹھ کر عیاشی کر
وہ دیکھ تیرے شاگرد وسیم رمیز وغیرہ دیکھ کتنا کما رہے ہیں
تجھے پیسے کا لالچ کیوں نہیں ہے یار ؟
کس مٹی کا بنا ہے تو ؟
آخر کیوں لوگوں کی گالیاں سنتا ہے کبھی تجھے طالبان خان کہا جاتا ہے کبھی تجھے یہودی ایجنٹ کہا جاتا ہے کبھی تجھے یو ٹرن کہا جاتا ہے اور کبھی تجھے کچھ کہا جاتا ھےاور کبھی کچھ۔
جا کپتان چلا جا یہاں سے ہم اور تجھے بے عزت ہوتا نہیں دیکھ سکتے
کیوں کہ ہم تیری قدر جانتے ہم جانتے ہیں کہ تو کیا چیز ہے
کپتان چھوڑ دے سیاست کو یار یہ سیاست تیرے بس کی بات نہیں
جا اور ہمیں بھی آرام کرنے دے
یہ قوم کبھی نہیں سدھر سکتی کیوں کہ یہ قوم سو جوتے اور سو پیاز کھانے کی عادی ہو چکی ہے
اور یہ قوم اپنی اس عادت کو کبھی نہیں بدل سکتی
چلا جا کپتان اور اس ملک میں دوبارہ نہ آنا۔
تحریر: سیالکوٹین
پاکستان کی سیاست میں منافق اور بد دیانت ہونا ضروری ہے
لالے تیرے جیسے ایماندار اور سچے انسان کا کام نہیں ہے
کپتان یہ قوم تیرے قابل نہیں ہے یہ تجھے کبھی سمجھ نہیں سکے
یہ قوم ایسے ہی روئے گی جیسا محمد علی جناح کو روتی ہے
اگر تو دنیا کے کسی اور ملک میں ہوتا تو لوگ تیری سہی معائنوں میں قدر کرتے۔
لیکن کیا کریں یار تیری بدقسمتی کہ تو ان میں ہے جو اپنے محسنوں کی کردار کشی کرتی ہے
کپتان تو ان میں ہے جہاں پہلے اپنے ہاتھوں سے مارتے ہیں گالیاں دیتے ہیں اور بعد میں یہ لوگ کہتے ہیں تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
کپتان اس قوم نے کبھی تیرے نظریہ کو سمجھا ہی نہیں
اور تو اور وہ جو تیرے سپورٹر ہیں وہ بھی تیرے نظریہ پر نہیں ہیں
ان میں بہت سے ایسے ہیں جو نواز اور زرداری کی مخالفت میں تیرا ساتھ دے رہے ہیں
کاش کہ یہ لوگ تیرے نظریہ کو سمجھ لیں اور اس پر عمل کر لیں
کپتان یہ قوم تیرے جیسے بندے کی متحمل نہیں ہو سکتی
یہ قوم ایسے سیاست دانوں کو اپنے اوپر مسلط کرنے کی عادی ہو چکی ہے جو اس کو لوٹتے ہیں کھسوٹتے ہیں اور بعد میں لندن و جدہ بھاگ جاتے ہیں
کپتان یہ لوگ ایسے حکمرانوں کو پسند کرتے ہیں جن کی دولت کے انبار منی لانڈرنگ کے ذریعہ دنیا کے بیشتر ممالک میں جمع ہیں
کپتان یار یہ قوم تیرے لائق ہی نہیں ہے
جا اور اپنی زندگی جی بچوں میں رہ اور خوش رہ نہ تجھے کوئی گالی دے اور نہ برا بھلا کہے اور نہ ہم ہی تیرے پیچھے لوگوں کی گالیاں سنیں
کپتان یار تو جا کر کسی ٹی وی چینل پر کمینٹری کر اور کروڑوں پاونڈ کما
کسی سپورٹس میگیزین میں آرٹیکل لکھ اور مزے سے آرام سے بیٹھ کر عیاشی کر
وہ دیکھ تیرے شاگرد وسیم رمیز وغیرہ دیکھ کتنا کما رہے ہیں
تجھے پیسے کا لالچ کیوں نہیں ہے یار ؟
کس مٹی کا بنا ہے تو ؟
آخر کیوں لوگوں کی گالیاں سنتا ہے کبھی تجھے طالبان خان کہا جاتا ہے کبھی تجھے یہودی ایجنٹ کہا جاتا ہے کبھی تجھے یو ٹرن کہا جاتا ہے اور کبھی تجھے کچھ کہا جاتا ھےاور کبھی کچھ۔
جا کپتان چلا جا یہاں سے ہم اور تجھے بے عزت ہوتا نہیں دیکھ سکتے
کیوں کہ ہم تیری قدر جانتے ہم جانتے ہیں کہ تو کیا چیز ہے
کپتان چھوڑ دے سیاست کو یار یہ سیاست تیرے بس کی بات نہیں
جا اور ہمیں بھی آرام کرنے دے
یہ قوم کبھی نہیں سدھر سکتی کیوں کہ یہ قوم سو جوتے اور سو پیاز کھانے کی عادی ہو چکی ہے
اور یہ قوم اپنی اس عادت کو کبھی نہیں بدل سکتی
چلا جا کپتان اور اس ملک میں دوبارہ نہ آنا۔
تحریر: سیالکوٹین