عرب لیگ نے شام پر امریکی حملے کی مخالفت کر دی ہے۔ عرب لیگ شاید ہی کوئی بیان اسرائیل سے پوچھے بغیر دیتی ہوگی چنانچہ یہ بیان بھی پوچھ کر دیا ہوگا۔ امریکہ کی اپنی خواہش بھی حملہ نہ کرنے کی ہے لیکن حکمت عملی میں اس کا تقاضا موجود ہے۔ ایک مغربی اخبار نے اب تک کی حکمت عملی کا انکشاف یوں کیا تھا کہ امریکہ شام میں کسی بھی فریق کو فتح یاب نہیں ہونے دے گا۔ جو کمزور پڑے گا، اس کی مدد کرے گا لیکن غالب نہیں ہونے دے گا۔ بشار حکومت کا قائم رہنا اس کی بھی پہلی ترجیح تھی اور اسرائیل کی بھی لیکن جب جنگ نے یہ شکل اختیار کر لی کہ بشارجاتا ہوا دکھائی دیا تو کسی بھی فریق کو فتح یاب ہونے کی اجازت نہ دو کا فارمولا اپنایا۔
امریکہ حملہ کرتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ہونے میں کئی دن رہتے ہیں۔ امکان یہ ہے کہ حملہ ہوگا لیکن بشار حکومت ختم نہیں کی جائے گی۔ کچھ ہوائی اڈے، کچھ سڑکوں کے پل اور کچھ فوجی عمارتیں تباہ کر دی جائیں گی جن کے نتیجے میں باغی فوج کو کچھ آگے بڑھنے کا موقع ملے گا لیکن کچھ سے زیادہ آگے بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔ نیوورلڈ آرڈر کے تحت دنیا کی آبادی میں کمی سب سے اہم نکتہ ہے(کم از کم50کروڑ افراد مارنے کی سفارش ہے) اور آبادی میں کمی کے لئے جنگوں وباؤں اور جراثیمیبیماریوں کے پھیلاؤ کے لئے امریکہ کی خدمات بہت قابل قدر ہیں اور شام کی حکمت عملی بھی اسی نکتے کے ماتحت ہے۔ کوئی فریق (بالا تفاق شامی باغی) غالب آگیا تو امن ہو جائے گا، پھر آبادی کیسے کم ہوگی چنانچہ حملے کے بعد شام کے کئی ملک بن جائیں گے۔ امریکہ مظلوموں کی مدد کیلئے حملہ نہیں کر رہا، قتل عام رکنے نہ پائے، اس لئے کر رہا ہے۔
اور روس چین پر مت جائیے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے لئے وہ امریکہ کے اتحادی ہیں اس لئے کہ کنزیومرزم نیو ورلڈ آرڈر کا پرائم بھی ہے اور پرائمل بھی۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شام پر حملے کی قرار داد کو روس نے ویٹو نہیں کیا، بائیکاٹ پر گزارا کیا جس کا مطلب تھا جو کرنا ہے کر لو۔
حملہ تو جب ہوگا تب ہوگا، لیکن شام میں بھوک راج پہلے ہی ہو گیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء غائب ہیں اورملتی بھی ہیں تو سونے کے بھاؤ ۔اورلوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔ محاورۃً نہیں، سچ مچ اور اس فاقوں مرتی قوم کی ملکہ یعنی بشار کی بیوی کی خبریں دیکھ لی ہوں گی۔ موصوفہ بنکر سے آن لائن مغربی ملکوں سے کھانے منگواتی ہے، جو جہازوں پر آتے ہیں۔ شام کے کھانے ملکہ کو پسند نہیں، خبروں کے مطابق وہ رات دن آرڈر پہ آرڈر دیئے چلی جاتی ہے۔ صرف کھانے ہی نہیں، ایک سے ایک لباس اور مہنگی سے مہنگی جیولری آتی رہتی ہے۔ دمشق کے اکثر محلّے خالی اور ویران ہو چکے ہیں، ملکہ عالیہ کی حکومت انہی کھنڈروں پر ہے۔
اور عرب لیگ کی ایک بات تو بھول ہی گئی۔ کہا، شام پر حملہ عرب دنیا اور عالم اسلام پر حملہ ہوگا۔ جب عراق پر حملہ ہوا تھا تب عرب دنیا اور عالم اسلام عرب لیگ کو یاد نہیں آیا۔ اسرائیل نے یاد آنے کی اجازت ہی نہیں دی تھی۔
_________________________
وطن فروش اور غدّاراعظم پر مولانا عبدالرشید غازی اور ان کی90سالہ والدہ کے قتل کا مقدمہ آخر درج ہوگیا۔ تھانہ عدالتی حکم کو ہوا میں اڑاتا رہا جس پر عدالت نے اپنے سامنے مقدمہ درج کروایا۔ تھانیدار بے چارے کی کیا مجال کہ وہ عدالتی حکم کو ہوا میں اڑا دے، ضرور اسلام آباد کی ہوائی چیزوں نے اسے ڈرا دیا ہوگا ۔ یہ وہی ہوائی چیزیں ہیں جو غدّارِ اعظم کے خلاف ایک کیس میں ایک گواہ کو ماراور دوسرے کو ملک سے بھگا چکی ہیں۔
غدّار اعظم پر بے نظیر کے قتل کا مقدمہ بھی ہوگیا اور بگٹی کا بھی۔ اب مولانا غازی اور ان کی والدہ کے قتل کا بھی ہوگیا۔ خدا کو منظور ہوا تو لال مسجد میں زندہ جلائی جانے والی چار ہزار سے زیادہ بچیوں کے قتل کا مقدمہ بھی کسی دن ہو جائے گا۔ انصاف ملنا تو بہت مشکل ہے کہ ہوائی چیزیں حد سے زیادہ تگڑی ہیں لیکن اتنا تو ہوا کہ قاتل پر قتل کا پرچہ کٹا۔تاریخ کا ایک کھاتہ تو پر ہوا۔
جس روز غدّار اعظم پر مقدمہ ہوا، اسی شام یہ رپورٹ لیک ہوئی کہ غدّار اعظم کے دور میں افغانیوں کے قتل عام کے لئے پاکستانی سرزمین سے جو ہزارہا نیٹو پروازیں کی گئیں (بعض اطلاعات کے مطابق57 ہزار ) ان کا ریکارڈ خراب کر دیا گیا ہے اور پروازوں کی تعداد بہت کم دکھائی گئی ہے۔ یہ گھپلا کس لئے؟ اس لئے نہیں کہ غدّاری کا حجم کم کرکے دکھایا جائے۔ وطن فروشِ اعظم اور اس کے ساتھیوں کا ٹولہ ہر پرواز پر نیٹو سے فیس لیتا تھا جو قومی خزانے میں کم اور وطن فروش اعظم کے کھاتے میں زیادہ جمع کرائی جاتی تھی۔ یہی اربوں کھربوں ہضم کرنے کے لئے ریکارڈ کا خانہ خراب کیا۔
غدّار اعظم نے اربوں کھربوں تو جمع کر لئے۔ لیکن اتنا بڑا خزانہ اس کے کام آئے گا؟ غدّار اعظم 70 سال سے اوپر کا ہوگیا،کھڑوس کو اور کتنا جینے کی امید ہے۔ رہائی کے بعد وہ ہر روز کروڑوں خرچ کرے تو بھی یہ رقم ختم نہیں ہوگی۔اور پاکستان کی موجودہ کمزور ترین حکومت سے یہ توقع تو سخت حماقت ہوگی کہ وہ غدّار اعظم کا متعفّن پیٹ پھاڑ کے اس میں سے یہ اربوں کھربوں کی رقم نکلوا لے گی۔ خدانخواستہ!
_________________________
کراچی کے بارے میں اہم فیصلے ہو چکے ہیں ۔ اطلاع ہے کہ مہاجر ری پبلکن آرمی پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔ مہاجر ری پبلکن آرمی کے وجود کی تردید کی جا رہی ہے (کیوں کی جا رہی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں) لیکن اس کی ویب سائٹ انٹرنیٹ پر بدستور موجود ہے اور تنظیم کے موجود ہونے کا انکشاف دراصل سرکاری اعتراف ہے ورنہ لوگوں کو اس کے موجود اور سرگرم ہونے کا علم پہلے ہی تھا۔2012ء میں یعنی آج سے ڈیڑھ سال پہلے اس تنظیم نے دو سندھی ارکان اسمبلی کو کراچی سے نکل جانے کا حکم دیا تھا، یہ کہہ کر کہ کراچی میں سندھیوں کو رہنے کا حق نہیں ہے۔ یہ خبر سبھی اخبارات نے چھاپی تھی۔ اس لئے اس کے وجود کا انکشاف اب نہیں ہوا۔ ہاں شاید یہ بات سامنے نہیں آئی کہ یہ تنظیم کب بنی۔ یہ2010ء میں لندن کے ایک فلیٹ میں بنی تھی اور تنظیم سازی کا کام را نے کیا تھا۔
وہی را جو چاہتی ہے کہ پاکستانی فوج اندرون ملک جگہ جگہ الجھ کر رہ جائے اور سرحدوں پر بھارتی ایڈونچر آسان ہو جائے۔
_________________________
چنیوٹ میں کسی محمد یار نامی شخص نے اپنی بیوی کو اس جرم پر مار مار کر بے حال کر دیا اور استرے سے اس کے سارے بال بھی کاٹ دیئے کہ اس نے بلا اجازت اس کے موبائل فون کو ہاتھ لگایا تھا۔
اخبارات نے اسے مزے دار خبر سمجھا ہے یعنیTit bitsکی مد میں لیاہے، اسی لئے خبر کی سرخی یہ لگائی کہ بیوی کو گنجا کر دیا۔ اخبارات بھی معاشرے کا حصہ ہیں اور جو سوچ معاشرے کی ہے وہی ان کی بھی ہے کہ عورت احترام کے قابل نہیں۔ اس کے بال کاٹنا چھوٹی سی تفریحی حرکت ہے جس کی سرخی یہی بنتی ہے۔
کیا خیال ہے، اس محمد یار کو برا بھلا کہا جائے؟۔۔۔ نہیں، اس کی توتعریف کرنی چاہئے کہ اس نے صرف مارا پیٹا اور بال کاٹ دیئے، چاہتا تو اس کے چہرے پر تیزاب بھی ڈال سکتا تھا، پھندا دے کر مار سکتا تھا، اس کا سر تن سے جدا کر سکتا تھا، پٹرول چھڑک کر آگ لگا سکتا تھا لیکن اس نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ شاید معاشرتی تربیّت میں کمی رہ گئی۔
امریکہ حملہ کرتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ہونے میں کئی دن رہتے ہیں۔ امکان یہ ہے کہ حملہ ہوگا لیکن بشار حکومت ختم نہیں کی جائے گی۔ کچھ ہوائی اڈے، کچھ سڑکوں کے پل اور کچھ فوجی عمارتیں تباہ کر دی جائیں گی جن کے نتیجے میں باغی فوج کو کچھ آگے بڑھنے کا موقع ملے گا لیکن کچھ سے زیادہ آگے بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔ نیوورلڈ آرڈر کے تحت دنیا کی آبادی میں کمی سب سے اہم نکتہ ہے(کم از کم50کروڑ افراد مارنے کی سفارش ہے) اور آبادی میں کمی کے لئے جنگوں وباؤں اور جراثیمیبیماریوں کے پھیلاؤ کے لئے امریکہ کی خدمات بہت قابل قدر ہیں اور شام کی حکمت عملی بھی اسی نکتے کے ماتحت ہے۔ کوئی فریق (بالا تفاق شامی باغی) غالب آگیا تو امن ہو جائے گا، پھر آبادی کیسے کم ہوگی چنانچہ حملے کے بعد شام کے کئی ملک بن جائیں گے۔ امریکہ مظلوموں کی مدد کیلئے حملہ نہیں کر رہا، قتل عام رکنے نہ پائے، اس لئے کر رہا ہے۔
اور روس چین پر مت جائیے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے لئے وہ امریکہ کے اتحادی ہیں اس لئے کہ کنزیومرزم نیو ورلڈ آرڈر کا پرائم بھی ہے اور پرائمل بھی۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شام پر حملے کی قرار داد کو روس نے ویٹو نہیں کیا، بائیکاٹ پر گزارا کیا جس کا مطلب تھا جو کرنا ہے کر لو۔
حملہ تو جب ہوگا تب ہوگا، لیکن شام میں بھوک راج پہلے ہی ہو گیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء غائب ہیں اورملتی بھی ہیں تو سونے کے بھاؤ ۔اورلوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔ محاورۃً نہیں، سچ مچ اور اس فاقوں مرتی قوم کی ملکہ یعنی بشار کی بیوی کی خبریں دیکھ لی ہوں گی۔ موصوفہ بنکر سے آن لائن مغربی ملکوں سے کھانے منگواتی ہے، جو جہازوں پر آتے ہیں۔ شام کے کھانے ملکہ کو پسند نہیں، خبروں کے مطابق وہ رات دن آرڈر پہ آرڈر دیئے چلی جاتی ہے۔ صرف کھانے ہی نہیں، ایک سے ایک لباس اور مہنگی سے مہنگی جیولری آتی رہتی ہے۔ دمشق کے اکثر محلّے خالی اور ویران ہو چکے ہیں، ملکہ عالیہ کی حکومت انہی کھنڈروں پر ہے۔
اور عرب لیگ کی ایک بات تو بھول ہی گئی۔ کہا، شام پر حملہ عرب دنیا اور عالم اسلام پر حملہ ہوگا۔ جب عراق پر حملہ ہوا تھا تب عرب دنیا اور عالم اسلام عرب لیگ کو یاد نہیں آیا۔ اسرائیل نے یاد آنے کی اجازت ہی نہیں دی تھی۔
_________________________
وطن فروش اور غدّاراعظم پر مولانا عبدالرشید غازی اور ان کی90سالہ والدہ کے قتل کا مقدمہ آخر درج ہوگیا۔ تھانہ عدالتی حکم کو ہوا میں اڑاتا رہا جس پر عدالت نے اپنے سامنے مقدمہ درج کروایا۔ تھانیدار بے چارے کی کیا مجال کہ وہ عدالتی حکم کو ہوا میں اڑا دے، ضرور اسلام آباد کی ہوائی چیزوں نے اسے ڈرا دیا ہوگا ۔ یہ وہی ہوائی چیزیں ہیں جو غدّارِ اعظم کے خلاف ایک کیس میں ایک گواہ کو ماراور دوسرے کو ملک سے بھگا چکی ہیں۔
غدّار اعظم پر بے نظیر کے قتل کا مقدمہ بھی ہوگیا اور بگٹی کا بھی۔ اب مولانا غازی اور ان کی والدہ کے قتل کا بھی ہوگیا۔ خدا کو منظور ہوا تو لال مسجد میں زندہ جلائی جانے والی چار ہزار سے زیادہ بچیوں کے قتل کا مقدمہ بھی کسی دن ہو جائے گا۔ انصاف ملنا تو بہت مشکل ہے کہ ہوائی چیزیں حد سے زیادہ تگڑی ہیں لیکن اتنا تو ہوا کہ قاتل پر قتل کا پرچہ کٹا۔تاریخ کا ایک کھاتہ تو پر ہوا۔
جس روز غدّار اعظم پر مقدمہ ہوا، اسی شام یہ رپورٹ لیک ہوئی کہ غدّار اعظم کے دور میں افغانیوں کے قتل عام کے لئے پاکستانی سرزمین سے جو ہزارہا نیٹو پروازیں کی گئیں (بعض اطلاعات کے مطابق57 ہزار ) ان کا ریکارڈ خراب کر دیا گیا ہے اور پروازوں کی تعداد بہت کم دکھائی گئی ہے۔ یہ گھپلا کس لئے؟ اس لئے نہیں کہ غدّاری کا حجم کم کرکے دکھایا جائے۔ وطن فروشِ اعظم اور اس کے ساتھیوں کا ٹولہ ہر پرواز پر نیٹو سے فیس لیتا تھا جو قومی خزانے میں کم اور وطن فروش اعظم کے کھاتے میں زیادہ جمع کرائی جاتی تھی۔ یہی اربوں کھربوں ہضم کرنے کے لئے ریکارڈ کا خانہ خراب کیا۔
غدّار اعظم نے اربوں کھربوں تو جمع کر لئے۔ لیکن اتنا بڑا خزانہ اس کے کام آئے گا؟ غدّار اعظم 70 سال سے اوپر کا ہوگیا،کھڑوس کو اور کتنا جینے کی امید ہے۔ رہائی کے بعد وہ ہر روز کروڑوں خرچ کرے تو بھی یہ رقم ختم نہیں ہوگی۔اور پاکستان کی موجودہ کمزور ترین حکومت سے یہ توقع تو سخت حماقت ہوگی کہ وہ غدّار اعظم کا متعفّن پیٹ پھاڑ کے اس میں سے یہ اربوں کھربوں کی رقم نکلوا لے گی۔ خدانخواستہ!
_________________________
کراچی کے بارے میں اہم فیصلے ہو چکے ہیں ۔ اطلاع ہے کہ مہاجر ری پبلکن آرمی پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔ مہاجر ری پبلکن آرمی کے وجود کی تردید کی جا رہی ہے (کیوں کی جا رہی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں) لیکن اس کی ویب سائٹ انٹرنیٹ پر بدستور موجود ہے اور تنظیم کے موجود ہونے کا انکشاف دراصل سرکاری اعتراف ہے ورنہ لوگوں کو اس کے موجود اور سرگرم ہونے کا علم پہلے ہی تھا۔2012ء میں یعنی آج سے ڈیڑھ سال پہلے اس تنظیم نے دو سندھی ارکان اسمبلی کو کراچی سے نکل جانے کا حکم دیا تھا، یہ کہہ کر کہ کراچی میں سندھیوں کو رہنے کا حق نہیں ہے۔ یہ خبر سبھی اخبارات نے چھاپی تھی۔ اس لئے اس کے وجود کا انکشاف اب نہیں ہوا۔ ہاں شاید یہ بات سامنے نہیں آئی کہ یہ تنظیم کب بنی۔ یہ2010ء میں لندن کے ایک فلیٹ میں بنی تھی اور تنظیم سازی کا کام را نے کیا تھا۔
وہی را جو چاہتی ہے کہ پاکستانی فوج اندرون ملک جگہ جگہ الجھ کر رہ جائے اور سرحدوں پر بھارتی ایڈونچر آسان ہو جائے۔
_________________________
چنیوٹ میں کسی محمد یار نامی شخص نے اپنی بیوی کو اس جرم پر مار مار کر بے حال کر دیا اور استرے سے اس کے سارے بال بھی کاٹ دیئے کہ اس نے بلا اجازت اس کے موبائل فون کو ہاتھ لگایا تھا۔
اخبارات نے اسے مزے دار خبر سمجھا ہے یعنیTit bitsکی مد میں لیاہے، اسی لئے خبر کی سرخی یہ لگائی کہ بیوی کو گنجا کر دیا۔ اخبارات بھی معاشرے کا حصہ ہیں اور جو سوچ معاشرے کی ہے وہی ان کی بھی ہے کہ عورت احترام کے قابل نہیں۔ اس کے بال کاٹنا چھوٹی سی تفریحی حرکت ہے جس کی سرخی یہی بنتی ہے۔
کیا خیال ہے، اس محمد یار کو برا بھلا کہا جائے؟۔۔۔ نہیں، اس کی توتعریف کرنی چاہئے کہ اس نے صرف مارا پیٹا اور بال کاٹ دیئے، چاہتا تو اس کے چہرے پر تیزاب بھی ڈال سکتا تھا، پھندا دے کر مار سکتا تھا، اس کا سر تن سے جدا کر سکتا تھا، پٹرول چھڑک کر آگ لگا سکتا تھا لیکن اس نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ شاید معاشرتی تربیّت میں کمی رہ گئی۔