
پولیس ہر روز ایسی زیادتیاں کرتی ہے لیکن آواز بلند کرنے کے باوجود پولیس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی: سوشل میڈیا صارف
ضلع چکوال میں تھانہ ڈھڈیال کے علاقے میں کمسن طالبعلم کے ساتھ ایک پرائیویٹ سکول کے ہاسٹل میں زیادتی کے واقعے کا انکشاف ہوا ہے۔ پرائیویٹ سکول اسوہ کے ہاسٹل میں 8 ویں جماعت کے طالبعلم محمد عبدالرحمن سے ہاسٹل میں زیادتی کے بعد 2 روز تک حبس بے جا میں رکھا گیا جس پر بچے کی والدہ نے 3 ستمبر کو تھانہ ڈھڈیال میں پرچہ درج کروایا۔ پولیس نے ملزمان کو قانون کی گرفت میں لانے کے بجائے شخصی ضمانت پر چھوڑ کر ان کے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
کمسن طالبعلم کی والدہ کی مدعیت میں درج مقدمے کے متن کے مطابق میرا بیٹا اسوہ سکول میں کلاس ہشتم کا طابعلم ہے جو سکول کے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے۔ جب بچے کو ملنے ہسپتال گئے تو اس نے بتایا کہ 17 سالہ محب اور 17 سالہ فراز نے بدفعلی کی اور میرے شور مچانے پر اپنے کمروں میں بھاگ گئے۔
ہوسٹل کے مالک نے واقعہ کا پتہ چلنے کے بعد بچے اور مجھ پر پر خاموش رہنے کیلئے دبائو ڈالا اور بچے سے رابطہ نہ ہونے دیا۔ عبدالرحمن کا نہ ہی گھر جانے دیا اور نہ ہی مجھے سے رابطہ کرنے دیا جس کے بعد تھانے میں مقدمہ درج کروایا لیکن اب تک کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی نہ ہی بچے کا میڈیکل کروایا جا رہا ہے۔
سینئر صحافی وتجزیہ نگار اعزاز سید نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مقدمے کی کاپی شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: کمسن طالبعلم سے زیادتی کرنے والے ملزمان کسی رعایت کے بجائے کڑی سزا کے مستحق ہیں لیکن پولیس نے ملزمان کو شخصی ضمانت لے کر ہی رہا کر دیا ہے۔
واقعہ پر ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ: دنیا بدل چکی ہے لیکن ہمارے تھانہ کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی! پولیس ہر روز ایسی زیادتیاں کرتی ہے لیکن آواز بلند کرنے کے باوجود پولیس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
ایک صارف نے لکھا کہ: ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے قہر کو دعوت دے رہے ہیں!
ایک صارف نے لکھا کہ: ہمارا قانون صرف غریبوں کے لیے ہے!
ایک صارف نے لکھا کہ: ایسے مجرموں کے علاوہ ان کے سہولت کاروں کو بھی نشان عبرت بنا دینا چاہیے!
ایک صارف نے لکھا کہ: محسن نقوی کی پنجاب پولیس اور انتظامیہ کہاں ہے؟