پی ٹی آئی کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا نقصان ن لیگ کو پہنچ رہا ہے:شہزاداقبال

shahai1h112.jpg


سینئر صحافی وتجزیہ کار شہزاد اقبال نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات سے بظاہر شکوہ شکایت پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو ہے لیکن اصل شکایت مسلم لیگ کو ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے پاس نہ تو بیانیہ ہے نہ ہی وکٹم کارڈ تاہم تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے اس کے پاس بیانیہ بھی ہے اور وکٹم کارڈ بھی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو کچھ آج ہوا ہے وہ اس کی مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے لیکن انتخابات کے موقع پر یہ سب کچھ کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں جائے گا، اس لیے ن لیگ کو فکرمند ہونا چاہیے۔ کبھی کسی کے کاغذات نامزدگی چھین لیے جاتے ہیں، کوئی آر او کسی کو اپنے دفتر میں گھسنے نہیں دیتا جسے تحریک انصاف سوشل میڈیا پر اپنی طاقت کے ذریعے اسے اپنا بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1740041394318888987
پی ٹی آئی کو وکٹم کارڈ دے کر ان کو سیاسی فائدہ دیا جا رہا ہے، تحریک انصاف بلے کا نشان واپس مل گیا، سائفر کیس اڑا دیا گیا۔ لوگ 2017ء کی بات سننے کے بجائے 2023ء کی بات سنیں گے اس لیے تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ن لیگ کو نقصان ہو رہا ہےاس لیے انہیں فکرمند ہونا چاہیے۔

سینئر تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حالات دیکھ کر دل دہل رہا ہے، شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ چیزیں جان بوجھ کر کرائی جا رہی ہیں، یا تو اس دہشت پھیلانا چاہتے ہیں یا کچھ ایسا ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آرہا۔ بلاول بھٹو سے اچھا منشور عمران خان نے دیا تھا جس میں 50 کروڑ نوکریاں اور پتا نہیں کیا کیا شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کے منشور کا کیا بنا؟ ق لیگ اور پرویز الٰہی کی حکومت نے کوئی وعدہ نہیں کیا لیکن ان کا دور حکومت بہت اچھا تھا لیکن 2008ء میں ق لیگ کہیں نظر آئی؟ میری پاکستانی سیاست پر ایک ہی رائے ہے کہ یہاں ایک ہی نعرہ چلتا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1740039442843439333
حال ہی میں نوازشریف اور عمران خان نے اینٹی سٹیبلشمنٹ بیانیہ دیا تو ان کی شہرت ساتویں آسمان پر پہنچ گئی جبکہ پرویز الٰہی پرو سٹیبلشمنٹ تھے اس لیے سیاست سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں نے بہت مدبرانہ سیاست کی۔ 2013ء میں نوازشریف عمران خان کی قیادت کرنے شوکت خانم ہسپتال گئے، مارچ 2018ء میں بنی گالہ گئے۔

انہوں نے کہا کہ 2014ء میں سٹیبلشمنٹ کے کہنے پر سیاست نہیں ریاست بچائو کے نام پر عمران خان نے سیاست سے کھلواڑ کیا۔ 2018ء میں عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا ، نوازشریف نے 20 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا میرا جھگڑا عمران خان سے نہیں، جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تب ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم باجوہ کا نام لے رہے ہو، تمہاری جرات کیسے ہوئی۔ عمران خان سٹیبلشمنٹ کو گالم گلوچ نکالنے کے ساتھ ساتھ مفاہمت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے مابین تصادم کی ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے جو آج بھی سیاسی جماعتوں کے بجائے سٹیبلشمنٹ سے معاملہ فہمی کرنا چاہتے ہیں۔
 

Back
Top