News_Icon
Minister (2k+ posts)
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/Hz3hxYS/6.jpg
کتے
لگتا ہے لانگ مارچ کی طرح یہ ڈرامہ بھی چھ سات مہینے چلتا رہے گا
تب تو الیکشن ویسے بھی ہونے ہیں
کتے
پنجاب اور کے پی کے اسمبلی اسی مہینہ تحلیل ہونے جا رہی ہے
کیونکہ یہ پارلیمانی نظام۔ تمام پارلیمٹیرین کو اعتماد میں لیکر اعلان ہوگا۔ تجھ جیسے کھوتے نے شریف و زرداری کی جعلی جمہوریت دیکھی ہے۔ اب اصلی والی بھی دیکھ لےوگرنہ ایک مہینہ انتظار کیوں
کیونکہ یہ پارلیمانی نظام۔ تمام پارلیمٹیرین کو اعتماد میں لیکر اعلان ہوگا۔ تجھ جیسے کھوتے نے شریف و زرداری کی جعلی جمہوریت دیکھی ہے۔ اب اصلی والی بھی دیکھ لے
عمران خان پارٹی کا سربراہ ہے۔ حتمی فیصلہ اسی کو کرنا ہے۔ البتہ مختلف حلقوں سے جیت کر آئے پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی سے بھی رائے لینی ہوگی کہ اسمبلی توڑنے کا بہترین وقت کونسا ہونا چاہیے۔ ان سے مشاورت کیلئے ہی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلوایا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسمبلیاں جلد نہیں ٹوٹے گی بلکہ تمام پی ٹی آئی ممبران اسمبلی کے مشاورت سے ٹوٹے گی۔ کیونکہ ان سب کا پارلیمانی نظام میں اسٹیک ہے۔
اعلان تو کر دیا ہے
مطلب کسی کو اعتماد میں نہیں لیا تھا تو پھر اعلان کیوں کیا یہ کونسی جمہوریت ہے
عمران خان پارٹی کا سربراہ ہے۔ حتمی فیصلہ اسی کو کرنا ہے۔ البتہ مختلف حلقوں سے جیت کر آئے پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی سے بھی رائے لینی ہوگی کہ اسمبلی توڑنے کا بہترین وقت کونسا ہونا چاہیے۔ ان سے مشاورت کیلئے ہی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلوایا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسمبلیاں جلد نہیں ٹوٹے گی بلکہ تمام پی ٹی آئی ممبران اسمبلی کے مشاورت سے ٹوٹے گی۔ کیونکہ ان سب کا پارلیمانی نظام میں اسٹیک ہے۔
پارٹی سربراہ تمام پارلیمنٹیرن جو پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر اسمبلی پہنچے ہیں کا پارٹی لیڈر ہے پارلیمانی پارٹی لیڈر نہیں ہے۔ اس لئے وہ جو بھی فیصلہ کریگا اس پر چلنا یا نہ چلنا پارلیمانی پارٹی کا استحقاق ہے۔ اکیلا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کر سکتا۔ اسی لئے جب ق لیگ کے پارٹی ہیڈ چوہدری شجاعت نے فیصلہ دیا تھا کہ ان کی پارلیمانی پارٹی پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کے امیدوار حمزہ شہاز کیساتھ جائے گی۔ تو پارلیمانی پارٹی کی اکثریت نے اسے مسترد کرتے ہوئے ووٹ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ پرویز الہی کو ڈال دیا تھا۔ جس پر ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے ق لیگ کے دس ووٹ پارٹی ہیڈ کے فیصلے کے خلاف جانے پر مسترد کر کے وزیر اعلی حمزہ شہباز شریف کو بنا دیا تھا۔ مگر سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکا تھا کہ اکیلا پارٹی ہیڈ اپنے فیصلہ پارلیمانی پارٹی پر مسلط نہیں کر سکتا۔ یوں ڈپٹی سپیکر کا فیصلہ ریورس ہوا اور یوں دوبارہ انتخاب پر پرویز الہی وزیر اعلی پنجاب بن گیا۔
تو کیا اعلان کرنے سے پہلے ان کی رائے نہیں لینی چاہئے تھی
یا پھر ان کی کوئی حیثیت نہیں بس صرف ان کو بتانا مقصود ہے
کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لو
یہ بھی تب جب واقعی اسمبلیاں تحلیل کرنا مقصود ہو جو کہ میرے خیال میں نہیں ہے
صرف لانگ مارچ کی ناکامی سے توجہ ہٹانا مقصود تھا
پارٹی سربراہ تمام پارلیمنٹیرن جو پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر اسمبلی پہنچے ہیں کا پارٹی لیڈر ہے پارلیمانی پارٹی لیڈر نہیں ہے۔ اس لئے وہ جو بھی فیصلہ کریگا اس پر چلنا یا نہ چلنا پارلیمانی پارٹی کا استحقاق ہے۔ اکیلا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کر سکتا۔ اسی لئے جب ق لیگ کے پارٹی ہیڈ چوہدری شجاعت نے فیصلہ دیا تھا کہ ان کی پارلیمانی پارٹی پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کے امیدوار حمزہ شہاز کیساتھ جائے گی۔ تو پارلیمانی پارٹی کی اکثریت نے اسے مسترد کرتے ہوئے ووٹ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ پرویز الہی کو ڈال دیا تھا۔ جس پر ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے ق لیگ کے دس ووٹ پارٹی ہیڈ کے فیصلے کے خلاف جانے پر مسترد کر کے وزیر اعلی حمزہ شہباز شریف کو بنا دیا تھا۔ مگر سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکا تھا کہ اکیلا پارٹی ہیڈ اپنے فیصلہ پارلیمانی پارٹی پر مسلط نہیں کر سکتا۔ یوں ڈپٹی سپیکر کا فیصلہ ریورس ہوا اور یوں دوبارہ انتخاب پر پرویز الہی وزیر اعلی پنجاب بن گیا۔
اس فیصلہ کی روشنی میں اگر پنجاب اور کے پی کے اسمبلی کو تحلیل کروانا ہے تو دونوں صوبوں کی پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔ وگرنہ اگر اکثریت ق لیگ کی طرح پارٹی ہیڈ کے فیصلہ کے خلاف ہو گئی۔ تو اسمبلیاں تحلیل نہیں ہو سکیں گی
بالکل لینا چاہئے تھا۔ اسی لئے تو عمران خان نے اسمبلیوں کی تحلیل کی کوئی تاریخ نہیں دی۔ صرف اتنا اعلان کیا تھا کہ اس کی تاریخ صوبائی اسمبلیوں کی پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعد دوں گا۔ یوں اس وقت پارلیمانی پارٹی پر بھی دباؤ ہے کہ وہ پارٹی ہیڈ کے فیصلہ پر چلتی ہے یا اپنے انتخابی حلقوں یعنی مقامی ووٹرز کے مزاج کو دیکھتے ہوئے کوئی اور فیصلہ کرتی ہے۔ عمران خان نے سیاسی پتا پھینک دیا ہے۔ اب ہر طرف ہل چل ہے۔
تبھی تو کہ رہا ہوں
کہ کیا اعلان کرنے سے پہلے پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں نہیں لینا چاہئے تھا
بالکل لینا چاہئے تھا۔ اسی لئے تو عمران خان نے اسمبلیوں کی تحلیل کی کوئی تاریخ نہیں دی۔ صرف اتنا اعلان کیا تھا کہ اس کی تاریخ صوبائی اسمبلیوں کی پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعد دوں گا۔ یوں اس وقت پارلیمانی پارٹی پر بھی دباؤ ہے کہ وہ پارٹی ہیڈ کے فیصلہ پر چلتی ہے یا اپنے انتخابی حلقوں یعنی مقامی ووٹرز کے مزاج کو دیکھتے ہوئے کوئی اور فیصلہ کرتی ہے۔ عمران خان نے سیاسی پتا پھینک دیا ہے۔ اب ہر طرف ہل چل ہے۔
ہیں؟ یہ کیسے پتا چلا؟ مرضی کے الیکشن، مرضی کے نتائج؟ کیا ووٹرز کے دماغوں میں کوئی آن آف سوئچ لگا ہوا ہے جس کا کنٹرول وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ہے؟ کہ وہ جب چاہے بٹن دبا کر ووٹرز کو اپنی مرضی کے نتائج دینے کیلئے مجبور کر سکتی ہے؟ ?اب پتہ چلا کہ اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو پھر تو مرکزی حکومت اپنی مرضی کے انتخابات کرواکے اپنی مرضی کے نتائج نکال لے گی
پاکستانی آئین و قانون میں اسمبلیوں کی تحلیل کیلئے پارلیمان میں ووٹنگ نہیں کروائی جاتی۔اس نے تو اعلان کر دیا ہے کہ اسی مہینے اسمبلیاں تحلیل کرنی ہیں
حالانکہ ابھی تک پارلیمانی پارٹی سے بات تک نہیں کی
لوگوں کی زیادہ تعداد اپنے خلاف دیکھ کر حکومت الیکشن کو مزید التوی میں ڈالے گی یا کروانے میں جلدی کریگی؟ ظاہر ہے وہ التوی میں ڈالے گی اور اس نے وہی کیاان کا تو خیال یہ تھا کہ لانگ مارچ میں لاکھوں لوگ آئیں گے اور حکومت الیکشن کی تاریخ دینے پر مجبور ہو جائے گی
ہیں؟ یہ کیسے پتا چلا؟ مرضی کے الیکشن، مرضی کے نتائج؟ کیا ووٹرز کے دماغوں میں کوئی آن آف سوئچ لگا ہوا ہے جس کا کنٹرول وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ہے؟ کہ وہ جب چاہے بٹن دبا کر ووٹرز کو اپنی مرضی کے نتائج دینے کیلئے مجبور کر سکتی ہے؟ ?