Shahid Khan Baloch
Citizen
انتخابی عمل کے دو فیز (نگران حکومت کی تشکیل اور ٹکٹوں کی تقسیم) مکمل ہو چکے جبکہ تیسرا اور آخری فیز (الیکشن کمپین) شروع ہونے کو ہے۔ ان دونوں فیز میں کنفیوژن اور غلطیوں کے باوجود آخری تجزیے میں مجموعی طور پر پی ٹی آئی نے کافی بہتر فیصلے کئے۔
نگران حکومت کی تشکیل کوئی اچانک سے سرپر پڑنے والا مرحلہ نہیں تھا۔ فروری میں سینیٹ کے الیکشن کے اعلان کے بعد یہ کنفرم تھا کہ مئی میں حکومت کا خاتمہ ہو گا اور مئی کے آخری ہفتے میں نگران حکومت کی تشکیل ہوگی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی تمام ممکنہ امدواروں کے بیک گراونڈ، کردار اور سیاسی وابستگیوں کی تحقیق کر کے اپنے دو نام تجویز کرتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ عجلت میں بغیر کسی ہوم ورک کے لسٹیں بنائی گئیں اور پھر اعتراضات کے بعد انہیں بار بار بدلا گیا۔ خیر دیر آئید درست آئید کہ پی ٹی آئی آخری ہفتے میں موثر حکمت عملی سے ناصر کھوسہ کی بجائے ایک بہتر شخص کو وزیراعلی پنجاب بنوانے میں کامیاب رہی۔
پی ٹی آئی کی سیاسی زندگی کا یہ پہلا الیکشن ہے جب انہیں ہر حلقے سے ایک سے زائید موثر امیدواروں کی درخواستیں موصول ہوئیں۔ اگر تو حلقہ بندیاں تبدیل نہ ہوتیں تو پی ٹی ائی کے لئے فیصلہ بہت آسان ہوتا کہ پچھلے الیکشن میں زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کو ٹکٹ جاری کر دیا جاتا مگر 40-50 قومی اسمبلی کے حلقے ایسے تھے جہاں حلقہ بندیوں کی تبدیلی سے پچھلے الیکشن میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدواروں کے ووٹ کا بڑا حصہ دوسرے حلقوں میں تقسیم ہو گیا اور امیدوار کا چناو مشکل ہوتا چلا گیا۔ ان حلقوں میں آخری فیصلے کا اختیار تو عمران خان کے پاس تھا مگر عمران خان کو فیصلے تک پہنچنے کے لئے مشاورت اور سروے کی ضرورت تھی۔ پارٹی کے مختلف گروپس اور ایک ہی حلقے کے مختلف سروے مختلف امیدواروں کو مضبوط ظاہر کر رہے تھے۔ اس لئے مزید تحقیق کی ضرورت درپیش آئی۔ اس میں غلطی یہ ہوئی کہ ان حلقوں کے ٹکٹ پیشگی جاری کر دئے گئے جبکہ تحقیقی رپورٹس بعد میں وصول ہونے پر کچھ پارٹی ٹکٹس بدلنے پڑے جس سے پارٹی میں کنفیوژن اور مایوسیپیدا ہوئی۔ اگر ان متنازع حلقوں کے فیصلے 28 جون تک پینڈنگ کر لئے جاتے اور ایک ہی بار فائینل لسٹ جاری ہوتی تو زیادہ بہتر تاثر پھیلتا۔
بہر حال میں پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 نشستوں میں سے کم از کم 135 نشستوں پر بہترین آپشنز کو ٹکتس جاری کئے گئے۔ انسان کو کم از کم 4٪ تک غلطی کا مارجن تو دینا بنتا ہے۔ جن لوگوں کو ٹکٹ نہیں ملے انہوں نے تین ہفتے تک بھرپور احتجاج کیا اور یہی جمہوریت کا حسن ہے مگر الیکشن جیتنے کے لئے انہیں منا کرکمپین میں شامل کرنا بہت اہم اور مشکل مرحلہ تھا۔ پچھلے تین چار دن سے عمران خان نے ان تمام ناراض دھڑوں سے الگ الگ ملاقات کی اور 90 فیصد کے قریب دھڑوں نے اپنے کاغزات نامزدگی واپس لے کر پی ٹی آئی کی کمپین چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: شاہد خان بلوچ
https://web.facebook.com/shaahidkha...41828.272214646639655/355502628310856/?type=3
نگران حکومت کی تشکیل کوئی اچانک سے سرپر پڑنے والا مرحلہ نہیں تھا۔ فروری میں سینیٹ کے الیکشن کے اعلان کے بعد یہ کنفرم تھا کہ مئی میں حکومت کا خاتمہ ہو گا اور مئی کے آخری ہفتے میں نگران حکومت کی تشکیل ہوگی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی تمام ممکنہ امدواروں کے بیک گراونڈ، کردار اور سیاسی وابستگیوں کی تحقیق کر کے اپنے دو نام تجویز کرتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ عجلت میں بغیر کسی ہوم ورک کے لسٹیں بنائی گئیں اور پھر اعتراضات کے بعد انہیں بار بار بدلا گیا۔ خیر دیر آئید درست آئید کہ پی ٹی آئی آخری ہفتے میں موثر حکمت عملی سے ناصر کھوسہ کی بجائے ایک بہتر شخص کو وزیراعلی پنجاب بنوانے میں کامیاب رہی۔
پی ٹی آئی کی سیاسی زندگی کا یہ پہلا الیکشن ہے جب انہیں ہر حلقے سے ایک سے زائید موثر امیدواروں کی درخواستیں موصول ہوئیں۔ اگر تو حلقہ بندیاں تبدیل نہ ہوتیں تو پی ٹی ائی کے لئے فیصلہ بہت آسان ہوتا کہ پچھلے الیکشن میں زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کو ٹکٹ جاری کر دیا جاتا مگر 40-50 قومی اسمبلی کے حلقے ایسے تھے جہاں حلقہ بندیوں کی تبدیلی سے پچھلے الیکشن میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدواروں کے ووٹ کا بڑا حصہ دوسرے حلقوں میں تقسیم ہو گیا اور امیدوار کا چناو مشکل ہوتا چلا گیا۔ ان حلقوں میں آخری فیصلے کا اختیار تو عمران خان کے پاس تھا مگر عمران خان کو فیصلے تک پہنچنے کے لئے مشاورت اور سروے کی ضرورت تھی۔ پارٹی کے مختلف گروپس اور ایک ہی حلقے کے مختلف سروے مختلف امیدواروں کو مضبوط ظاہر کر رہے تھے۔ اس لئے مزید تحقیق کی ضرورت درپیش آئی۔ اس میں غلطی یہ ہوئی کہ ان حلقوں کے ٹکٹ پیشگی جاری کر دئے گئے جبکہ تحقیقی رپورٹس بعد میں وصول ہونے پر کچھ پارٹی ٹکٹس بدلنے پڑے جس سے پارٹی میں کنفیوژن اور مایوسیپیدا ہوئی۔ اگر ان متنازع حلقوں کے فیصلے 28 جون تک پینڈنگ کر لئے جاتے اور ایک ہی بار فائینل لسٹ جاری ہوتی تو زیادہ بہتر تاثر پھیلتا۔
بہر حال میں پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 نشستوں میں سے کم از کم 135 نشستوں پر بہترین آپشنز کو ٹکتس جاری کئے گئے۔ انسان کو کم از کم 4٪ تک غلطی کا مارجن تو دینا بنتا ہے۔ جن لوگوں کو ٹکٹ نہیں ملے انہوں نے تین ہفتے تک بھرپور احتجاج کیا اور یہی جمہوریت کا حسن ہے مگر الیکشن جیتنے کے لئے انہیں منا کرکمپین میں شامل کرنا بہت اہم اور مشکل مرحلہ تھا۔ پچھلے تین چار دن سے عمران خان نے ان تمام ناراض دھڑوں سے الگ الگ ملاقات کی اور 90 فیصد کے قریب دھڑوں نے اپنے کاغزات نامزدگی واپس لے کر پی ٹی آئی کی کمپین چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: شاہد خان بلوچ
https://web.facebook.com/shaahidkha...41828.272214646639655/355502628310856/?type=3
- Featured Thumbs
- http://dailynht.com/news/wp-content/uploads/2016/09/NNI18-19.jpg