اس فورم پر دن رات فوجیوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے اٹھائی گیرے اپنے آقاؤں کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ ان لوگوں کی سوچ محدود اور تنگ نظری پر مبنی ہے، کیوں کہ اپنے آقاؤں کا مقام اونچا کرنے کے لیے یہ اپنے اطراف ہر کسی پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ تاکہ کیچڑ کے ذریعے پورے ماحول کو گندا دکھا سکیں اور اس کے پس منظر میں اپنے آقاؤں کو صاف ستھرا دکھا سکیں۔
مثال کے طور پر یہ لوگ تاثر یہ دیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ والے لٹیرے اور کرپٹ ہیں۔ ان لوگوں نے لوٹ لوٹ کر ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، بے تحاشہ بیرونی قرضے لیے جس کا بوجھ آج بھی قوم اٹھا رہی ہے۔
اعدادو شمار میں جائے بغیر میرے پاس بہت سے اہم سوالات ہیں جن کے جواب اس تھریڈ میں ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت سنہ 1973 میں قائم ہوئی اور سنہ 1977 میں سی آئی اے ایجنٹ جنرل ضیاء کے ہاتھوں اختتام پذیر ہوئی۔ ان 4 سالوں میں کیا پیپلز پارٹی نے کوئی مالی کرپشن کی؟ اس کرپشن کو جنرل ضیاء نے اپنے 11 سالہ طویل اقتدار میں پکڑا؟ کسی کو سزا دی؟
یقیناً مالی کرپشن پر کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو نہیں لوٹا۔
سنہ 1988 سے سنہ 1990 تک بے نظیر کو 18 مہینے اقتدار کے ملے۔ حکومت کو نااہلی کا الزام لگا کر برطرف کر دیا گیا اور جنرل حمید گل کے پرانے عمران خان (نواز شریف) کو جعلی الیکشن کے ذریعے حکومت دی گئی۔ نواز شریف نے اپنے آقاؤں کی کٹھ پتلی بننے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ قرار پائے۔ ان کی حکومت بھی 1993 میں لپیٹ دی گئی۔ اس دوران نواز شریف کے مالیاتی اسکینڈلز سامنے آئے مثلاً کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز اسکینڈل۔ اصولاً نواز شریف کو اسی وقت خود سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا، مگر کیا کریں، اس ملک میں بے شرم اور بے غیرت لوگوں کو ہی حکومت کے لیے چنا جاتا ہے۔
نواز شریف کے بعد دوبارہ بے نظیر آئیں۔ عمران خان اس وقت تک بالغ نہیں ہوئے تھے، پیمپرز پہنتے تھے، اور یہودیوں کی گود میں بیٹھ کر ان کا دودھ پی رہے تھے، اس لیے ان کو وزارت عظمیٰ کے قابل نہیں سمجھا گیا۔
بے نظیر کو ایک بار پھر 1993 میں فارغ کر دیا گیا۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر فوج نے پوزیشنز سنبھال لیں، اور ایک اور جعلی الیکشن کے ذریعے نواز شریف کو دوبارہ اقتدار سونپ دیا گیا۔
بے نظیر کو دباؤ کے ذریعے ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا، وہ چلی گئیں۔ اگر فوج اور فوج کے پالتو احتساب کرنا چاہتے تھے تو بے نظیر کا نام ای سی ایل میں کیوں نہ ڈالا؟ یہ بالکل ویسے ہی ہوا جیسے 1992 میں الطاف حسین کا نام بھی ای سی ایل میں نہیں ڈالا اور اس کو بھی مجبور کیا کہ ملک سے جلاوطن ہوجائے۔
لیڈروں کو جلاوطن کرنے کا شوق فوج کو شروع سے رہا ہے۔ غدار اعظم ایوب خان نے جب پاکستان پر اپنا شیطانی قبضہ حاصل کیا تو صدر اسکندر مرزا کو مجبور کیا کہ وہ جلاوطن ہو جائے، چناں چہ اسکندر مرزا برطانیہ چلا گیا۔
بھٹو کو بھی اسیری کے دوران جنرل ضیاء مردود کی طرف سے اشارے ملے کہ جلاوطنی قبول کر لو، جسے بھٹو جیسے بہادر انسان نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ نواز شریف پر بھی پنامہ کے تناظر میں راحیل شریف خنزیر نے دباؤ ڈالا کہ حکومت چھوڑ دو اور ملک سے چلے جاؤ۔ لیکن خود یہ فوجی جرنیل اپنی بزدلی اور بے غیرتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان پر کوئی برا وقت آئے تو بھگوڑا بننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
سنہ 1999 میں مشرف نے مملکت پاکستان سے غداری کرتے ہوئے، غدار جرنیلوں کو ساتھ ملایا اور پاکستان پر قبضہ کر لیا۔ قانون اور آئین کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے جنرل ضیاء الدین کو جو آئی ایس آئی کا سربراہ تھا، آرمی چیف تعینات کر دیا تھا۔ فوج کو چاہیے تھا کہ آئین و قانون کی پاسداری کرتی۔ لیکن فوج کے اندر آئین کی پامالی اور قانون شکنی کے جراثیم اتنے طاقتور ہیں کہ یہ غصے اور عداوت میں اندھا دھند غلط کام کرتی ہے۔ اس کو اپنی عزت و وقار کا بھی کچھ احساس نہیں اور ملک کی بقاء کو بھی یہ لوگ بوٹ کی نوک پر رکھتے ہیں۔ آسان لفظوں میں پاکستان کی بقاء اور سالمیت کی بات ہو تو فوج سے انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ان لوگوں کی کھوپڑیوں میں بھینس کا دماغ فٹ ہے۔ غصہ ان کی ناک پر اور دو ٹکے کی انا یہ لوگ ستاروں کی شکل میں اپنی وردی پر پہنتے ہیں۔
دنیا کی نمبر ون جاسوسی ایجنسی، آئی ایس آئی کو 1990 کی دہائی میں نواز شریف کی آف شور جائیدادوں کا پتہ نہیں لگا۔ کیوں کہ آئی ایس آئی اس وقت زرداری اور بے نظیر کے پیچھے پڑی ہوئی تھی۔ اور یہ اتنی عقل مند ایجنسی ہے کہ جب یہ کسی کے پیچھے پڑتی ہے، تو باقی ہر کام کرنا بھول جاتی ہے۔
المختصر، ان لوگوں نے 1988 سے لے کر 1999 تک پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو کسی کرپشن پر عدالتوں سے سزا نہیں دلوائی، اور نہ ہی کوئی مبینہ لوٹ مار کا پیسہ برآمد کیا۔
سنہ 2008 سے لے کر 2012 تک زرداری صاحب کی حکومت کا دور رہا، کسی بھی مبینہ لوٹ مار کا پیسہ برآمد نہیں کیا گیا۔ بس میڈیا وار جاری رہے، زرداری بدستور مسٹر 10 پرسنٹ رہے اور صدر پاکستان بھی بنے رہے۔
سنہ 2012 سے 2017 تک نواز شریف کا دور رہا۔ وہ ابھی بھی مقدمات بھگت رہے ہیں، جیل میں ہیں۔ لیکن کچھ بھی ہوسکتا ہے، وہ جیل سے باہر بھی آسکتے ہیں، کیوں کہ یہ پاکستان ہے۔ پیسہ لوٹ مار کا ایک روپیہ بھی واپس نہیں آیا ہے۔
بیرونی قرضوں پر یہ لوگ قوم کو نہیں بتاتے کہ ان قرضوں کا کتنا حصہ پاک فوج کھا جاتی ہے۔ 1990 کی دہائی میں پاکستان نے بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کیا، سنہ 2008 سے 2018 تک بھی فوج نے دبا کر اسلحہ حاصل کیا۔ یہ سارا پیسہ جرنیلوں کی بیگمات اور معشوقائیں اپنی ماؤں کے گھر سے نہیں لائی تھیں۔
گویا صرف کیچڑ ہی کیچڑ ہے جو فوجیوں نے اپنے گماشتوں کے ذریعے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے اوپر اچھالی ہے۔ اور اس کیچڑ کے پیچھے یہ لوگ کیچڑ کے چھینٹے اپنے لباس پر سجائے مسکرا رہے ہیں۔ کیوں کہ کیچڑ اچھالنے والا بھی کیچڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
آخر میں دیکھا جائے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اس ملک کو کیا دیا، تو بہت کچھ دیا جس کی قدر و منزلت وہ جان سکتا ہے جو پاکستان کو ایک جمہوری ریاست اور قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کے ادوار میں عوام کو ان کی طاقت ملی۔ پارلیمان مضبوط ہوا۔ آئین پاکستان 1973 بنا۔ دنیا میں پاکستان کا جمہوری تشخص قائم ہوا۔ اس حد تک کہ فوج کو بھی پتہ ہے کہ فوجی آمریت قائم کر کے اس کو دنیا سے دو ٹکے کی بھی سہولت نہیں ملے گی۔ فوج کو بھیک اور سہولت صرف تب ملی ہے جب وہ امریکہ کی لونڈی اور طوائف بن کر روس کے خلاف بخشو اور کرائے کی فوج بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج چاہتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت قائم رہے، تاکہ دنیا پر پاکستان کا بہتر تاثر قائم ہو۔ اسے دہشت گرد ریاست نہ سمجھا جائے۔ لیکن فوج یہ سب کچھ چاہنے کے باوجود اپنے دماغ کے کیڑے سے مجبور ہو کر جمہوری اداروں میں امپائر کی انگلی گھسانے سے باز نہیں آتی اور یہی چیز پاکستان کو آج تک مسائل کا شکار بنائے ہوئے ہے۔ جس دن فوج پرائے پھٹے میں ٹانگ اڑانا، اور ہر جگہ اپنی ناک گھسانا بند کر دے، وہ کام کرے جس کی اس کو تنخواہ ملتی ہے، تو پاکستان ترقی اور خوش حالی کے راستے پر گامزن ہو جائے۔
مثال کے طور پر یہ لوگ تاثر یہ دیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ والے لٹیرے اور کرپٹ ہیں۔ ان لوگوں نے لوٹ لوٹ کر ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، بے تحاشہ بیرونی قرضے لیے جس کا بوجھ آج بھی قوم اٹھا رہی ہے۔
اعدادو شمار میں جائے بغیر میرے پاس بہت سے اہم سوالات ہیں جن کے جواب اس تھریڈ میں ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت سنہ 1973 میں قائم ہوئی اور سنہ 1977 میں سی آئی اے ایجنٹ جنرل ضیاء کے ہاتھوں اختتام پذیر ہوئی۔ ان 4 سالوں میں کیا پیپلز پارٹی نے کوئی مالی کرپشن کی؟ اس کرپشن کو جنرل ضیاء نے اپنے 11 سالہ طویل اقتدار میں پکڑا؟ کسی کو سزا دی؟
یقیناً مالی کرپشن پر کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو نہیں لوٹا۔
سنہ 1988 سے سنہ 1990 تک بے نظیر کو 18 مہینے اقتدار کے ملے۔ حکومت کو نااہلی کا الزام لگا کر برطرف کر دیا گیا اور جنرل حمید گل کے پرانے عمران خان (نواز شریف) کو جعلی الیکشن کے ذریعے حکومت دی گئی۔ نواز شریف نے اپنے آقاؤں کی کٹھ پتلی بننے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ قرار پائے۔ ان کی حکومت بھی 1993 میں لپیٹ دی گئی۔ اس دوران نواز شریف کے مالیاتی اسکینڈلز سامنے آئے مثلاً کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز اسکینڈل۔ اصولاً نواز شریف کو اسی وقت خود سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا، مگر کیا کریں، اس ملک میں بے شرم اور بے غیرت لوگوں کو ہی حکومت کے لیے چنا جاتا ہے۔
نواز شریف کے بعد دوبارہ بے نظیر آئیں۔ عمران خان اس وقت تک بالغ نہیں ہوئے تھے، پیمپرز پہنتے تھے، اور یہودیوں کی گود میں بیٹھ کر ان کا دودھ پی رہے تھے، اس لیے ان کو وزارت عظمیٰ کے قابل نہیں سمجھا گیا۔
بے نظیر کو ایک بار پھر 1993 میں فارغ کر دیا گیا۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر فوج نے پوزیشنز سنبھال لیں، اور ایک اور جعلی الیکشن کے ذریعے نواز شریف کو دوبارہ اقتدار سونپ دیا گیا۔
بے نظیر کو دباؤ کے ذریعے ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا، وہ چلی گئیں۔ اگر فوج اور فوج کے پالتو احتساب کرنا چاہتے تھے تو بے نظیر کا نام ای سی ایل میں کیوں نہ ڈالا؟ یہ بالکل ویسے ہی ہوا جیسے 1992 میں الطاف حسین کا نام بھی ای سی ایل میں نہیں ڈالا اور اس کو بھی مجبور کیا کہ ملک سے جلاوطن ہوجائے۔
لیڈروں کو جلاوطن کرنے کا شوق فوج کو شروع سے رہا ہے۔ غدار اعظم ایوب خان نے جب پاکستان پر اپنا شیطانی قبضہ حاصل کیا تو صدر اسکندر مرزا کو مجبور کیا کہ وہ جلاوطن ہو جائے، چناں چہ اسکندر مرزا برطانیہ چلا گیا۔
بھٹو کو بھی اسیری کے دوران جنرل ضیاء مردود کی طرف سے اشارے ملے کہ جلاوطنی قبول کر لو، جسے بھٹو جیسے بہادر انسان نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ نواز شریف پر بھی پنامہ کے تناظر میں راحیل شریف خنزیر نے دباؤ ڈالا کہ حکومت چھوڑ دو اور ملک سے چلے جاؤ۔ لیکن خود یہ فوجی جرنیل اپنی بزدلی اور بے غیرتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان پر کوئی برا وقت آئے تو بھگوڑا بننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
سنہ 1999 میں مشرف نے مملکت پاکستان سے غداری کرتے ہوئے، غدار جرنیلوں کو ساتھ ملایا اور پاکستان پر قبضہ کر لیا۔ قانون اور آئین کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے جنرل ضیاء الدین کو جو آئی ایس آئی کا سربراہ تھا، آرمی چیف تعینات کر دیا تھا۔ فوج کو چاہیے تھا کہ آئین و قانون کی پاسداری کرتی۔ لیکن فوج کے اندر آئین کی پامالی اور قانون شکنی کے جراثیم اتنے طاقتور ہیں کہ یہ غصے اور عداوت میں اندھا دھند غلط کام کرتی ہے۔ اس کو اپنی عزت و وقار کا بھی کچھ احساس نہیں اور ملک کی بقاء کو بھی یہ لوگ بوٹ کی نوک پر رکھتے ہیں۔ آسان لفظوں میں پاکستان کی بقاء اور سالمیت کی بات ہو تو فوج سے انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ان لوگوں کی کھوپڑیوں میں بھینس کا دماغ فٹ ہے۔ غصہ ان کی ناک پر اور دو ٹکے کی انا یہ لوگ ستاروں کی شکل میں اپنی وردی پر پہنتے ہیں۔
دنیا کی نمبر ون جاسوسی ایجنسی، آئی ایس آئی کو 1990 کی دہائی میں نواز شریف کی آف شور جائیدادوں کا پتہ نہیں لگا۔ کیوں کہ آئی ایس آئی اس وقت زرداری اور بے نظیر کے پیچھے پڑی ہوئی تھی۔ اور یہ اتنی عقل مند ایجنسی ہے کہ جب یہ کسی کے پیچھے پڑتی ہے، تو باقی ہر کام کرنا بھول جاتی ہے۔
المختصر، ان لوگوں نے 1988 سے لے کر 1999 تک پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو کسی کرپشن پر عدالتوں سے سزا نہیں دلوائی، اور نہ ہی کوئی مبینہ لوٹ مار کا پیسہ برآمد کیا۔
سنہ 2008 سے لے کر 2012 تک زرداری صاحب کی حکومت کا دور رہا، کسی بھی مبینہ لوٹ مار کا پیسہ برآمد نہیں کیا گیا۔ بس میڈیا وار جاری رہے، زرداری بدستور مسٹر 10 پرسنٹ رہے اور صدر پاکستان بھی بنے رہے۔
سنہ 2012 سے 2017 تک نواز شریف کا دور رہا۔ وہ ابھی بھی مقدمات بھگت رہے ہیں، جیل میں ہیں۔ لیکن کچھ بھی ہوسکتا ہے، وہ جیل سے باہر بھی آسکتے ہیں، کیوں کہ یہ پاکستان ہے۔ پیسہ لوٹ مار کا ایک روپیہ بھی واپس نہیں آیا ہے۔
بیرونی قرضوں پر یہ لوگ قوم کو نہیں بتاتے کہ ان قرضوں کا کتنا حصہ پاک فوج کھا جاتی ہے۔ 1990 کی دہائی میں پاکستان نے بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کیا، سنہ 2008 سے 2018 تک بھی فوج نے دبا کر اسلحہ حاصل کیا۔ یہ سارا پیسہ جرنیلوں کی بیگمات اور معشوقائیں اپنی ماؤں کے گھر سے نہیں لائی تھیں۔
گویا صرف کیچڑ ہی کیچڑ ہے جو فوجیوں نے اپنے گماشتوں کے ذریعے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے اوپر اچھالی ہے۔ اور اس کیچڑ کے پیچھے یہ لوگ کیچڑ کے چھینٹے اپنے لباس پر سجائے مسکرا رہے ہیں۔ کیوں کہ کیچڑ اچھالنے والا بھی کیچڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
آخر میں دیکھا جائے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اس ملک کو کیا دیا، تو بہت کچھ دیا جس کی قدر و منزلت وہ جان سکتا ہے جو پاکستان کو ایک جمہوری ریاست اور قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کے ادوار میں عوام کو ان کی طاقت ملی۔ پارلیمان مضبوط ہوا۔ آئین پاکستان 1973 بنا۔ دنیا میں پاکستان کا جمہوری تشخص قائم ہوا۔ اس حد تک کہ فوج کو بھی پتہ ہے کہ فوجی آمریت قائم کر کے اس کو دنیا سے دو ٹکے کی بھی سہولت نہیں ملے گی۔ فوج کو بھیک اور سہولت صرف تب ملی ہے جب وہ امریکہ کی لونڈی اور طوائف بن کر روس کے خلاف بخشو اور کرائے کی فوج بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج چاہتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت قائم رہے، تاکہ دنیا پر پاکستان کا بہتر تاثر قائم ہو۔ اسے دہشت گرد ریاست نہ سمجھا جائے۔ لیکن فوج یہ سب کچھ چاہنے کے باوجود اپنے دماغ کے کیڑے سے مجبور ہو کر جمہوری اداروں میں امپائر کی انگلی گھسانے سے باز نہیں آتی اور یہی چیز پاکستان کو آج تک مسائل کا شکار بنائے ہوئے ہے۔ جس دن فوج پرائے پھٹے میں ٹانگ اڑانا، اور ہر جگہ اپنی ناک گھسانا بند کر دے، وہ کام کرے جس کی اس کو تنخواہ ملتی ہے، تو پاکستان ترقی اور خوش حالی کے راستے پر گامزن ہو جائے۔
Last edited: