پیداواری لاگت بڑھنے سے چھوٹے کاشتکار کو مشکلات،زمینیں بیچنے پر مجبور

farmen1n111.jpg

ملک میں مہنگائی کا طوفان جاری ہے،مستوسط طبقے کے افراد کیلیے زندگی کا گزارا کرنا مشکل ہوتا جارہاہے، کاشتکاروں کے لیے بھی مشکلات بڑھ گئی ہیں، جب کہ چھوٹے کاشت کار کھیتی باڑی چھوڑ کرزمینیں بیچنے پر مجبور ہیں۔

زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیداواری لاگت بڑھنے سے چاول سمیت دیگر فصلوں، سبزیوں اورچارہ جات کی نا صرف قیمت میں اضافہ ہو گا بلکہ پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے،ماہرین کے مطابق مہنگائی میں مسلسل اضافے اور موسمیاتی تبدیلوں کا مقابلہ کرنے کیلیے اسمارٹ ایگری کلچر ٹولز ضروری ہیں تاکہ اخراجات کم کرکے پیداواربڑھائی جا سکے۔

لاہور، قصور، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ میں چاول کی فصل کاشت کی جا چکی ہے لیکن کسان پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے شدید پریشان ہیں،کاشتکار سردار سیف اللہ نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو میں کہا کہ بدقسمتی سے زراعت کو انتہائی مشکل بنا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈے اے پی کا ریٹ 10ہزار 600 روپے، نائٹروفاس 6 ہزار 500 روپے اور یوریا کا سرکاری ریٹ 1850 روپے ہے لیکن کمی کی وجہ سے 2500 روپے میں ملتی ہے، جن کے پاس تین چار ایکڑ زمین ہے،وہ ہاؤسنگ اسکیموں کوبیچ رہے ہیں،جولوگ نہری پانی استعمال کرتے ہیں انہیں کچھ فائدہ ہوجاتا ہے، لیکن جوٹیوب ویل کا پانی استعمال کرتے ہیں انہیں مہنگا پڑتا ہے۔

نارووال کے کاشتکار فرحان شوکت ہنجرا کہتے ہیں کہ سیاسی حکومتوں کی ترجیحات بدلنے سے زراعت تنزلی کا شکار ہوئی اور یہ سلسلہ جاری ہے، اب زرعی رقبے سکڑتے اور ہاؤسنگ اسکیمیں بڑھتی جارہی ہیں،ہمارے لیے شرم کامقام ہے زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں 30 لاکھ میٹرک ٹن گندم امپورٹ کرنا پڑی ہے،کاشتکار کا کوئی پرسان حال نہیں۔

زرعی ماہر عامرحیات بھنڈارا کے مطابق دنیا میں زرعی شعبے کو چیلنجز کا سامنا ہے، بڑھتی ہوئی قیمتوں اورموسمیاتی تبدیلی نے اس شعبے کو شدید متاثر کیا ہے،پاکستان اس لئے زیادہ متاثر ہوا کیونکہ ہمارے ہاں زرعی شعبے میں تحقیق اور ڈویلپمنٹ پر کام نہیں کیا گیا، کھاد، بجلی، ڈیزل، بیج کی قیمتوں میں اضافے کی سے چھوٹے کاشتکاروں کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔
 

Back
Top