اس کالم سے چند نکات لے کر ذھن میں سوال پیدا ھوتے ھین
کالم نگار نے لکھا کہ علما انبیا کے وارث ہوتے ہیں،،علما نے انتھای محدود مالی وسائل میں محیرالعقول کارنامے سرانجام دئیے کہ امریکہ و مغرب بھی حیرت سے گنگ ھیں،،علما کا کام شرعی راھنمای کرنا ھے کوی مانے یا نہ مانے وھ اپنا کام کامیابی سے نبھا رھے ھیں خدارا انھیں رسوا نہ کریں
کیا موجودھ علما جن میں بھاری تعداد مولانا فضل الرحمان اور اسکی جمعیت کی ھے انبیا کے وارث ھو سکتے ھیں؟ کیا انبیا نے انھیں دنیاوی کیڑے بننے کی تعلیم سکھای تھی؟ اگر نھیں تو پھر یہ انبیا کے وارث کیسے ھوے؟(ڈیزل کی مثال دی ھے اور بھی بھت سارے ایسے ھی ھین قادری ،وغیرھ بھت سی مثالیں ھیں)
علما نے جو محیرالعقول کارنامے سرانجام دئیے انکی تفصیل نھیں لکھی اسلیے اسپر کیا تبصرھ کیا جاے میرے خیال میں تو سواے چندے مانگنے کے اور کوی کام نھیں کیا۔
علما نے شرعی راھنمای کا فریضہ کامیابی سے نبھایا ھوتا تو آج پاکستانی معاشرھ ایک مثالی معاشرھ ھوتا۔لوگ سچے کھرے اور ایماندار ھوتے جاب کرتے تو خدمت کے نظرئیے سے ناکہ رشوت کی غرض سے۔بیس تیس روپے کی خاطر لوگ قتل نہ کئے جاتے اور ماوں کے لخت جگر اغوا ھو کر بیگار کیمپوں میں اور بچیاں بازار حسن میں فروخت نہ ھوتیں۔سب سے زیادھ علما،مدرسے،اور مساجد پنجاب میں ھیں۔لیکن سب سے زیادھ اغوا براے تاوان اور ڈکیٹیاں بھی پنجاب میں ھوی ھیں امسال صرف چھ ماھ میں چاروں صوبوں سے نو ھزار لوگ اغوا ھوے ھیں جنمیں سے سات ھزار تین سو پنجاب سے ھیں۔کوی ایک محکمہ بتا دیں جھاں رشوت نہ لی جاتی ھو۔کوی ایک دوکاندار یا دودھ والا بتا دیں جو خالص سودا بیچتا ھو۔اگر بھاری اکثریت بدترین لوگوں کی ھے تو پھر معذرت کے ساتھ کالم نگار عقل کا اندھا ھے اور مولوی کی سپورٹ کرنے میں بھی جھوٹ بول رھا ھے۔کم ازکم علما کی حمایت میں لکھتے وقت تو جھوٹ سے پرھیز کیا جاتا۔