
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ پہلے لوگ پسند کی شادیاں کرلیتے ہیں پھر مسائل عدالت کیلئے بن جاتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کم سن بچوں کی حوالگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کم عمر بچیوں کے والد کی جانب سے حوالگی کیلئے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ بچیوں کی والدہ رات میں نوکری کرتی ہے، ماں کے پاس بچیوں کی دیکھ بھال کا وقت نہیں ہوتا لہذا بچی کی کسٹڈی والد کو سونپی جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال پوچھا کہ آپ نےا سلام میں حضانت کا اصول پڑھا ہے یا نہیں، شریعت کہتی ہے کہ بچے ماں کے پاس رہیں گے، صرف داڑھی رکھ لینے سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا، اس کیلئے عمل بھی ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، وگرنہ ہمارے کام مسلمانوں والے نہیں ہیں، صرف نماز، روزہ اور حج کرنا کافی نہیں ہے، انسانیت اور اخلاق بھی لازم ہے۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ بچوں کے والدین کے درمیان طلاق تو ہوئی نہیں، محض ناراضگی پر بچوں کا مستقبل خراب ہورہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بچیوں کے والد سے سوال کیا کہ آپ کی شادی پسند کی تھی یا ارینج میرج تھی؟ والد نے جواب دیا کہ شادی پسند کی تھی،چیف جسٹس نے کہا کہ خود پسند کی شادیاں کرلیتے ہیں اور پھر مسائل عدالت کیلئے بن جاتے ہیں۔
عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد والدین کے اتفاق رائے سے مقدمہ نمٹایا اور دونوں بچیوں کی کسٹڈی والدہ کے حوالے کرتے ہوئے والد کو اتوار کے روز ملاقات کی اجازت دی ۔
عدالت نے مقدمہ نمٹاتے ہوئے قرا ر دیا کہ اتوار کے روز بچیوں کے والد صبح 10 سے5 بجے تک بیٹیوں سے ملاقات کرسکتے ہیں، عدالتی حکم عدولی پروالد یا والدہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔