Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)
آصف جیلانی
آخر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ پاکستان کی کابینہ کی دفاعی کمیٹی نے امریکا کے سخت دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیںاور پارلیمنٹ کی قرارداد کو ٹھکراتے ہوئے اور پاکستان کے عوام کی خواہشات کومصلحتوں کے پیر تلے روندتے ہوئے افغانستان میں ناٹو کی افواج کی پاکستان کے راستہ رسد کی بحالی کا فیصلہ کر دیا ہے۔ پچھلے سات ماہ سے پاکستان کا اصرار تھا کہ امریکا سلالہ کی چوکی پر فضائی حملہ پر معافی مانگے جس میں پاکستان کے 24فوجی افسر اور جوان جاں بحق ہوئے تھے لیکن یہ فیصلہ محض تاسف کے اظہار پر کردیا گیا ہے ۔ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اس فیصلہ سے پہلے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے ٹیلیفون پر بات کی تھی جس کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ سلالہ کے حادثہ کے بارے میں ہیلر ی کلنٹن نے پاکستان کی وزیر خارجہ سے کہا کہ دونوں ملکوں کے حکام یہ اعتراف کرتے ہیں کہ دونوں جانب سے غلطیاں ہوئیں جس کے نتیجہ میں یہ مہلک فضائی حملہ ہوا۔کیا یہ صحیح ہے کہ پاکستان کے حکام نے بقول ہیلری کلنٹن یہ اعتراف کیا ہے کہ سلالہ کے حادثہ میں وہ بھی غلطیوں کے ذمہ دار ہیں۔؟ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہیلر ی کلنٹن نے پاکستان کی وزیر خارجہ سے کہا کہ ہمیں پاکستان کی فوج کے نقصانات پر افسوس ہے،، اس کے بعد حنا ربانی نے کہا کہ ناٹو کی رسد بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ کوئی بھی معمولی عقل رکھنے والا شخص اسے معافی یا معافی مانگنے کا طریقہ قرار نہیں دے گا۔ ہیلری کلنٹن اب بھی یہ تسلیم نہیں کرتیں کہ سلالہ کے حملہ کی ذمہ دار صرف اور صرف امریکی فضایہ تھی انہوں نے اس حملہ کے سلسلہ میں پاکستان کو بھی مورد الزام ٹہرایا ہے ۔ آخر یہ کس انداز کی معافی مانگنی ہوئی ۔ پھر ہیلری کلنٹن نے Sorry،،کے لفظ کا انتخاب کیا ہے جو " Apology "معافی سے بالکل مختلف ہے۔معلوم نہیں ایوان صدر اور وزارت خارجہ کے بقراط اس کی کیا توجیع پیش کریں گے۔ وزیر اطلاعات قمر الزماں کائرہ صاحب اسے بال کی کھال نکالنے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ حنا ربانی کھر اور ہیلری کلنٹن کی ٹیلی فون پر گفتگو سے پہلے افغانستان میں ناٹو کی افواج کے سربراہ جنرل جان ایلن نے اسلام آباد میں پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل کیانی سے ملاقات میںسلالہ کے حادثہ پرذاتی طور ،، پر افسوس کا اظہار کیا تھا ایسے جیسے یہ جنرل کیانی کا ذاتی معاملہ تھا پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم کا معاملہ نہیں تھا۔ کس قدر مضحکہ خیز بات تھی یہ جنرل جان ایلن کی۔ پاکستان نے اس معاملہ میں کس خفت آمیز انداز سے امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے سلالہ کے حادثہ کے فورا بعد گزشتہ نومبر میں ان ہی الفاظ میں اپنے گہرے افسوس کا اظہار کیا تھا اور جاں بحق ہونے والے فوجیوں کے پسماندگان سے تعزیت کی تھی جن کا اظہار اب کیا ہے ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر 7ماہ بعد اسی اظہار افسوس کو تسلیم کرنا تھا تو پھراتنے عرصہ تک ناٹو کی رسد کیوں بند رکھی گئی اور امریکا سے معرکہ آرائی کیوں کی گئی۔اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ پاکستان کی کابینہ کی دفاعی کمیٹی نے نہ صرف ناٹو کی رسد کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے بلکہ رسد پر راہ داری کی فیس میں اضافہ کا بھی مطالبہ یکسر ترک کردیا ہے ۔ اس دوران جب رسد کی بحالی کے لیے مذاکرات ہو رہے تھے تو پاکستان نے ہر ٹرک پر 5ہزار ڈالر راہ داری کی فیس کا مطالبہ کیا تھا جو کم ہوتے ہوتے 3 ہزار ڈالر فی ٹرک تک آگئی تھی اور امریکا نے ایک ہزار ڈالر فی ٹرک ادا کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی لیکن اب پاکستان نے یہ مطالبہ ترک کردیا ہے اور رسد پر راہ داری کی کوئی فیس نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اچانک اس فراخ دلانہ رعایت کی وجہ کیا ہے ؟ ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی وضاحت نہیں کی گؑی ہے ۔ نہ صرف رسد کی بحالی بلکہ پاکستان کی طرف سے راہ داری کی فیس وصول نہ کرنے کا فیصلہ امریکا کی زبردست فتح تصور کیا جارہاہے ۔ کیونکہ گزشتہ 7 ماہ کے دوران جب رسد بند تھی امریکا کو پہاڑ ایسا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا تھا ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ وسط ایشیا کے طویل راستہ سے ناٹو کی رسد پر 86ملین ڈالر ماہانہ کا زیادہ خرچ آرہا تھا۔ اب پاکستان کے راستہ رسد پر امریکا کو بڑی بھاری بچت ہوگی اور شاید اسی وجہ سے امریکا نے ناٹو کی رسد کی بحالی کے بعد پاکستان کو ایک ارب دس کڑوڑ ڈالر کی امداد بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے جو اس نے رسد کی بندش کے بعد روک دی تھی۔ غالبا اسی فیصلہ کو کایرہ صاحب امریکا کی لچک سے تعبیر کرتے ہیں۔ امریکا نے ناٹو کی رسد بحال کرنے پرپاکستان کو مجبور کرنے کے لیے متعدداطراف اور سطحوں پر دباؤ ڈالا ہے ۔ سب سے پہلے تو امریکا نے پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے کا اقدام کیا اورپاکستان کے خلاف اقتصادی تادیبی پابندیوں کی دھمکی دی ۔ اسی کے ساتھ یہ خبریں بھی پھیلائی گئیں کہ امریکی افواج افغان سرحد پار پاکستان میںالقاعدہ اور طالبان کے شدت پسندوں کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی کرنے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ پاکستان پردباؤڈالنے کے لیے افغانستان میں ناٹو کی افواج کے سربراہ جنرل جان ایلن نے گزشتہ ہفتہ دو بار اسلام آباد کے دورے کیے اور جنرل کیانی سے ملاقاتیں کیں۔ اسی دوران گزشتہ اختتام ہفتہ ہلیر کلنٹن نئے وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کو ٹیلیفون پر ان کے وزیر اعظم بننے پر مبارک بار پیش کی اور اس بہانے ناٹو کی رسدکی بحالی کا مطالبہ کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ منگل کے روز کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں نئے وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے اس بات پر زور دیا کہ ناٹو کی رسد بند کرنے سے نہ صرف امریکا کے ساتھ بلکہ ناٹو کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کو زک پہنچی ہے ۔ تعجب کی بات ہے کہ جب گزشتہ نومبر میں سلالہ کے حملہ کے بعد ناٹو کی رسد بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو کیا اس وقت ملک کے حکمرانوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس اقدام کے امریکا اور ناٹو کے ممبر ممالک کے ساتھ تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ کیا یہ محض بلا سوچے سمجھے عوام کو خوش کرنے کے لیے ایک جذباتی فیصلہ تھا۔ پھر راجا صاحب سے پاکستان کے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ کیا امریکا کے ساتھ تعلقات پاکستان کے وقار اس کی حاکمیت اور خودمختاری سے زیادہ اہم ہیں؟۔بلاشبہ پاکستان کے عوام موجودہ حکمرانوں سے جو پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے بلند کرتے نہیں تھکتے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہو ں گے کہ پارلیمنٹ کی اس قرارداد کا کیا بنا جو سلالہ کے حملہ کے بعد منظور کی گئی تھی جس میں صاف صاف مطالبہ کیا گیا تھا کہ ناٹو کی رسد کی بحالی کے لیے لازمی ہے کہ امریکا معافی مانگے اور یہی نہیں پاکستان پر ڈرون حملے فی الفور بند کرے۔ ان دونوں مطالبوں میں سے ایک بھی مطالبہ پورا نہیں ہوا ہے اور بری طرح سے پاکستان نے اپنے وقار عزت نفس اور قومی حمیت کو قربان کر کے امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں ۔
http://www.jasarat.com/epaper/index.php?page=03&date=2012-07-05