پڑھنے میں کمزوری کی وجہ ڈسلیکسیا بھی ہوسکتی ہے!
منیرہ عادل پير 25 اگست 2014
اگر آپ کا بچہ لکھنے پڑھنے میں کمزور ہو، اسکول میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر تا ہو۔۔۔ سیکھنے کے عمل میں دشواری محسوس کرتا ہو، تو بچے کو ڈانٹنے، یا سزا دینے کے بہ جائے اس کی وجہ تلاش کرنی چاہیے۔
منیرہ عادل پير 25 اگست 2014
اگر آپ کا بچہ لکھنے پڑھنے میں کمزور ہو، اسکول میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر تا ہو۔۔۔ سیکھنے کے عمل میں دشواری محسوس کرتا ہو، تو بچے کو ڈانٹنے، یا سزا دینے کے بہ جائے اس کی وجہ تلاش کرنی چاہیے۔
آپ کے بچے کی اس کمزوری کی وجہ ڈسلیکسیا بھی ہو سکتی ہے۔ (Dyslexia) ڈسلیکسیا کوئی ذہنی معذوری نہیں، افراد سیکھنے کے بلکہ اس کے شکارعمل میں دقت محسوس کرتے ہیں، تاہم انہیںکند ذہن یا کاہل بھی نہیں کہا جا سکتا، ان کی یہ کمزوری صرف سیکھنے کے عمل میں ہی رکاوٹ کھڑی کرتی ہے، اسے ہم ذہنی کمزروی نہیں کہہ سکتے، چوںکہ بچے کی ابتدائی تعلیم کا آغاز لکھنے، پڑھنے سے ہوتا ہے اور اسی سطح پر بچے کی سیکھنے کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس لیے جتنا جلد اس کی شناخت کر کے متبادل طریقوں سے سیکھنے کے عمل میں بچے کی مدد کی جائے، اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔
ڈسلیکسیا کے شکار افراد بھی بے حد کام یاب انسان ثابت ہو سکتے ہیں۔ ڈسلیکسیا کی علامات ہر شخص یا ہر بچے میں یک ساں نہیں ہوتیں۔ کچھ بچوں کو پڑھنے یا ہجے کرنے میں مشکل درپیش ہوتی ہے، تو دوسروں کو لکھنے میں جدوجہد کرنی پڑتی ہے یا بائیں سے دائیں جانب لکھنے پڑھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ کچھ بچوں کو ابتدائی طور پر لکھنے پڑھنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، لیکن آگے چل کر دیگر مسائل سے بھی سابقہ پڑتا ہے، مثلاً گرامر کی غلطیاں، کسی تحریر کو پڑھنے یا لکھنے میں دشواری وغیرہ۔
ڈسلیکسیا کی وجہ سے لوگ اپنا موقف یا اپنی رائے کے اظہار میں بھی دشواری محسوس کرتے ہیں۔ ان کے لیے الفاظ کے چناؤ اور اپنی سوچ کو گفتگو کی صورت میں کرنا اور اسے مربوط کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ بعض افراد کو دوسروں کی گفتگو کو سمجھنے میں بھی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
یہ تمام مسائل شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایسے مسائل کا شکار فرد نفسیاتی طور پر کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ لوگ اسے اہمیت نہیں دے رہے اور اس کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے، کیوں کہ اگر اس کی شناخت نہ ہو، تو بغیر کسی ماہر کی مدد کے ایسے بچے سیکھنے یا یاد کرنے کے دوران اکثر جھنجھلا جاتے ہیں، چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسکول کے کام سے سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اسکول میں وہ بار بار سوال پوچھنے سے ہچکچاتے ہیں، کیوں کہ بعض اوقات انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ دس بار بھی پوچھ لیں گے، تو انہیں اپنا سبق سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس لیے اساتذہ جب بھی پوچھتے ہیں کہ سمجھ میں آگیا؟ تو وہ بھی سب کے ساتھ چاروناچار اثبات میں ہی سر ہلا دیتے ہیں، کیوں کہ بار بار پوچھنے پر انہیں دیگر بچوں کی جانب سے تضحیک کا خدشہ ہوتا ہے۔ نتیجتاً وہ دھیرے دھیرے زندگی میں آگے بڑھنے کی امنگ کھونے لگتے ہیں۔
ڈسلیکسیا کے ماہرین ایسے بچوں کی مختلف علامات، گفتگو وغیرہ کے ذریعے شناخت کرتے ہیں۔ بچے کی شخصی جانچ کرنے کے بعد ہی ماہرین اس کی کمزوریوں کا اندازہ لگاتے ہیں کہ ڈسلیکسیا کے باعث کس عمل میں بچہ زیادہ دقت محسوس کر رہا ہے۔ اس کی شناخت جتنی جلد ہو اتنا ہی آسانی سے اس پر قابو پاکر زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں والدین کا کردار اہم ہوتا ہے۔ بچے کی ابتدائی عمر میں اس کی بول چال کے الفاظ، پڑھنے لکھنے کی کیفیت، ڈرائنگ کرنے، حروف کو پہنچاننے، لفظ بنانے اور جوڑنے وغیرہ کے عمل پر خصوصی نظر رکھ کر انہیں معلوم چل سکتا ہے کہ بچہ کیا مشکل محسوس کر رہا ہے۔
بچے کو اس کی عمر کی مناسبت سے کتابیں اور ایسے کھلونے لا کر دیں، جس سے اسے چیزوں، رنگوں اور حروف وغیرہ کو پہچاننے میں مدد ملے۔ اس کے بعد اس کو مطالعے کے لیے مختلف کتب، رسائل اور کہانیاں فراہم کریں۔ جب بچہ اسکول جانے لگے، تو اس کے اساتذہ سے ملیں، بچے کی کارکردگی کے بارے میں پوچھیں۔ اگر بچے میں ڈسلیکسیا شناخت ہو جائے، تو اساتذہ سے مل کر ان کو مکمل صورت حال سے آگاہ کریں۔ تاکہ وہ بچے پر خصوصی توجہ دے سکیں۔ اسائنمنٹ وغیرہ کے لیے علیحدہ سے وقت مہیا کریں اور ذاتی توجہ دیں۔
والدین اس ضمن میں انٹرنیٹ سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ بچے کی تدریسی مشکلات کے باعث اس میں جذباتی طور پر جو تبدیلیاں پیدا ہوں یا وہ جس غصے، مایوسی، جھنجھلاہٹ کا شکار ہوں، اس کے لیے پیشہ ورانہ مدد حاصل کریں تاکہ اس کی شخصیت کی تعمیر میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
پڑھنا اور لکھنا تعلیمی میدان کی بنیادی ضروریات ہیں، لہٰذا والدین کی تھوڑی سی توجہ، بروقت شناخت اور ماہرین کی مدد سے ایسے افراد بے حد کام یاب زندگی گزار سکتے ہیں۔
http://www.express.pk/story/282573/