پولیس اور میڈیا

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
pakistan_police.jpg



فخر الدین کیفی

بہت پہلے کسی نے، شاید کسی بڑے پولیس افسر نے کہا تھا کہ ’’ پولیس کا محکمہ ختم کر دیا جائے تو 80فی صد جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے‘‘۔ یہ بات شا ید نیلام گھر کے کسی پروگرام میں کہی گئی تھی۔ یاد نہیں اس لیے ہمارا قلم یا زبان پکڑنے کی ضرورت نہیں ۔ہاں اتنا یاد ہے کہ تھا ،PTV کا پروگرام۔اس وقت کوئی اور چینل نہیں ہوتا تھا اور ’میڈیا‘ کی اصطلاح ابھی زبان زد خاص و عام نہ ہوئی تھی۔کیونکہ جتنے بھی کروڑ پاکستانی تھے(اس زمانے میں سروں کو گننے کا فیشن نہ تھا ) سب پی ٹی وی ہی دیکھتے تھے اس لیے یہ بات ہر ایک دل میں اتر گئی۔ آج سولہ سے اٹھارہ کروڑ کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن چینل بھی سینکڑوں میں ہیں۔اس لیے کوئی بھی بات جو کسی بھی چینل سے نشر ہوئی ہو ، متفقہ طور پرپوری قوم کے گوش گزار نہیں ہو سکتی۔ 80 فی صد والی بات، سب کو بھا گئی تھی اس لیے بعد میںہر کس و ناکس فی صد میں کمی بیشی کر کے اسے دہراتا رہا ۔ یہ بات کسی تحقیق کا نتیجہ تو تھی نہیں کہ اس کا ریکارڈ یا ڈیٹا ہوتا اس لیے محکمہ پولیس کو ختم کرنے والی بات آوازِ خلق میں ڈھلنے کے باوجود نقارہء خدا نہ بن سکی اس لیے محکمہ اپنی تمام تر برائیوں میں اضافے کے ساتھ موجود ہے۔آج میڈیا کے نام پر ایک اور ادارہ وجود میں آچکا ہے جو معا شرے کو آئینہ دکھانے کے دعوے کے باوجود ہر معاملے کو اپنے نقطہء نظر سے ہی دکھاتا ہے جس کی وجہ سے جرائم میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔اب ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اگر میڈیا کو ختم کر دیا جائے تو جرائم میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔ پرانے زمانے کے اس پولیس افسر کی بات اور ہماری بات کو مان کر اگر ان دونوں اداروں کو ختم کر دیا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ ہماری قوم کو سکون ہی نہیں نصیب ہو گا بلکہ ہر کوئی چین کی بانسری بجاتا نظر آئے گا۔ بات چونکہ اداروں کو ختم کرنے کی ہو رہی ہے تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ نا ممکن ہے دو چار مثالوں کے سہارے ان کی بندش کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان دونوں اداروں کا الگ الگ تجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں اس لیے ان کا ذکر ساتھ ساتھ چلے گا۔حا ل ہی میں ایک تھانے کی حدود میں دو بچیوں کے والدین نے اپنی بچیوں کو فروخت کر دیا او راغوا کا الزام لگا دیا مدرسے کے مولوی پر۔ پولیس نے مولوی کو ہتھ کڑی لگادی اور میڈیا نے اس کی تصویر لگادی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی پر الزام لگانے پر اسے یوں رسوا کیا جانا چاہیے۔جب کہ ہم نے سنگین جرائم میں پکڑے گئے مجرموں(ملزموں نہیں کیونکہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے) چادر میں مستور دیکھا ہے۔بے چارے مولوی کو یہ سہولت نہیں دی گئی۔اب اس پر الزام جھوٹا ثابت ہوا تو میڈیا نے اس بات کو سرسری طور پر نشر کردیا۔جب کہ چادر میں ملفوف کا کیا بنا میڈیا بتانے سے قاصر ہے۔لاہور میںینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال کو خوب اچھالا گیا۔لعن طعن کی گئی ۔جب حکومت نے ایکشن لیا تو ٹاک شوز منعقد کیے جارہے ہیںکہ دس جانوں کا ضائع ہونا قابل مذمت ہے لیکن ڈاکٹروں کے ساتھ ایسا نہیں ہو نا چاہیے تھا۔ تو بھائی آپ بتادو کیا کرنا چاہیے تھا۔ہمیں اپنے تجربے کی بنیاد پر پتا تھا کہ یہ ہی ہو نا ہے۔میڈیا کا رویہ یہ ہی ہوتا ہے کہ کیا تو کیوں کیا اور نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا۔میڈیا سرسری طور پر بتا رہا ہے کہ پنجاب کے ڈاکٹروں کی تنخواہ دوسرے صوبے کے ڈاکٹروں سے زیادہ ہے لیکن یہ نہیں بتا رہا کہ دوسرے صوبوں کا سروس اسٹرکچر کیا ہے؟ کیا اور صوبوں میں تقرری18گریڈ میں ہوتی ہے؟ نہیں تو پھر پنجاب میں ہڑتال کیوں؟ چند برس پہلے کراچی میں موٹر سائیکل سے ایک خاتون گر گئی اور بس کے نیچے آکر کچلی گئی۔ پولیس نے بس ڈرائیور کو پکڑ لیا۔ اور پھر موٹر سائیکل والے کو مجبور کردیا کہ کیس واپس لے ورنہ اس کے خلاف بیوی کو دھکا دینے کا پرچہ کٹ جائے گا۔کل ہی ایک گیارہ سالہ بچے کی گرفتاری کی خبر آئی ہے کہ تین دن سے چوری کے الزام میں تھانے میں پٹ رہا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ایس ایچ او معطل کر دیا گیا ہے۔ہمیں یقین ہے اس کے بعد کیا ہوگا یہ خبر کبھی نہیں آئے گی۔ معطلیوں کی خبر تو نظروں سے گزرتی ہے لیکن ان کی بحالی (جو کہ ہوتی ہے) کی خبر نہیں ملتی۔میڈیا نے آج تک یہ خبر نہیں دی کہ اب تک جتنے دہشت گرد پکڑے گئے تھے ان کا کیا ہوا۔دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد پولیس یہ بتاتی ہے کہ کتنا بارود استعمال ہو ا تھا لیکن یہ نہیں بتاتی کہ کوئی پکڑا بھی گیا یا نہیں۔ہر واقعہ کے بعد یہ اعلان بھی عجیب لگتا ہے کہ صدر یا وزیر اعظم یا مشیر داخلہ کے کہنے پر تحقیق شروع کردی گئی ہے۔اگر وہ نہ کہتے تو؟ میڈیا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فلاں ایکٹریس کو گزرے کتنے سال ہو گئے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ مولوی فرید، مولانا مودودیؒ یا سہروردی کو بچھڑے کتنے برس ہو گئے۔ یہ نہیں بتاتا کہ مولوی فرید کو کس طرح تیل کے کڑاہو میں ڈال کر قتل کیا گیا تھا۔چند برس پہلے دو بچے سعودی ایر لائین کے طیارے سے گر گئے تھے۔چند ماہ بعد ملک کے سب سے بڑے اخبار نے پہلے صفحے پر خبر دی کہ میر پور خاص کے دونوں بچے دوبئی کے کسی ماہی گیر کو زندہ سلامت مل گئے ہیں۔ انہیں میر پورپہنچادیا گیا۔اتفاق سے ہمارے ایک دوست میر پور خاس میں اسی محلے میں رہتے تھے ان سے معلوم ہوا کہ بچے دستیاب نہیںہوئے۔ زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں۔میڈیا کو بند کرنے کے لیے سارے ٹاک شوز کو ہی جواز بنایا جاسکتا ہے۔ اورمحکمہ پولیس کو بند کرنے کے لیے صرف ٹریفک پولیس کی کارکردگی پر ایک نظر ڈال لی جائے تو پتا چل جائے گا کہ یہ لوگ صرف پیسہ وصول کرنے کے لیے چوراہوں پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ کسی بس والے سے کاغذات نہیں مانگتے جبکہ ۹۹ فی صد کے پاس کاغذات نہیں ہوتے۔لیکن موٹر سائیکل والوں سے با قاعدہ پوچھ گچھ ہوتی دیکھی جا سکتی ہے۔ میڈیا کا یہ کمال کیا کم ہے کہ اب نیکی خبر بننے لگی ہے،برائی نہیںایک سپاہی نے54 لاکھ روپے کیا واپس کر دیے ،تین دن سے اس کے گن گائے جا رہے ہیں جبکہ ایمانداری تو ہر انسان کا فرض ہے ۔کل کلاں کو ہو سکتا ہے کسی کا نماز پڑھنا بھی خبر بن جائے کہ فلاں شخص نے آج نماز ادا کی۔۔ویسے صاحب اقتدار حضرات کے نماز ادا کرنے کی خبر تو آج بھی بنتی ہے ۔ہمارے خیال سے کچھ چینیلوں کا لائسنس اس بات پر ہی منسوخ کر دینا چاہیے کہ انہوں نے خبروں کو بھی مذاق بنا دیا ہے۔اب خبروں میں ’’راجا کی آئے گی برات‘‘مذاق نہیں توکیا ہے۔خبروں کو طلسم ہوشربا اسٹائل میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے’’ خبریں وہی انداز نیا۔جاننے والے جان گئے، ماننے والے مان گئے۔بتائیں گے کس نے کیا اسکور اور کس نے مچایا صرف شور…خبریں دیتے ہیں ہٹ کے۔ لیکن جھٹ سے۔خبریںہم دیتے ہیں ہوشیاری سے لیکن ذمہ داری سے‘‘۔ذمہ داری کا یہ حال ہے کہ ٹیم نے اگر دوسری ٹیم کو آئوٹ کردیا تو خبر لگتی ہے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیاڈھیر کردیا۔ و بھرکس نکال دیا۔وغیرہ وغیرہ


http://www.jasarat.com/epaper/index.php?page=03&date=2012-07-09
 

khanpanni

Minister (2k+ posts)
اسکی وجہ انگریز کا دیاہوا نظام اور انکی اندھی تقلید ہے ۔انہوں نے آپکونا دیں کا چھوڑا نا دنیا کا ۔اگر حکومت کا کوئ ضابطہ اخلاق نہیں تو پولیس اور میڈیا کا کیوںکر ہو گا ۔