پنچايت
گاؤں میں پچھلے تین ہفتوں سے خوف کی فضاء تھی۔ لوگ اب شام ہوتے ہی اپنے گھروں میں بند ہو جاتے تھے۔ بچے جو کبھی عصر کے بعد پورے گاؤں میں شور برپا رکھتے تھے اب سہمے سہمے سے رہتے تھے۔ اُن کی آنکھوں میں ڈر صاف دیکھائی دیتا تھا۔ یہاں تک کے لوگوں نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنا تک کم کر دی تھی.
حالانکہ تین ہفتے پہلے میرا گاؤں مثالی ہوا کرتا تھا۔ بڑے بوڑھوں کی بیٹھک میں سارا دن حقہ تازہ رہتا تھا۔ قصے کہانیاں سننے کو ملتی تھیں۔ بارہ ٹہنی کی بساط ہر وقت بچھی رہتی تھی۔ دن بھر ایک چہل پہل تھی۔ شام ہوتے ہی کبڈی کے میدان نوجوانوں سے بھر جاتے تھے۔
گاؤں کے سب سے بڑے چوراہے پر ننھے کریانے والی کی دوکان تھی۔ جس نے اپنی دوکان میں ایک اسپیکر بھی لگا رکھا تھا۔ جس کے ذریعے باہر سے آنے والے تاجر پانچ روپے کے عوض اپنے سامانِ تجارت کی تشہیر کیا کرتے تھے۔ جن میں زیادہ تر کپڑے والے، منیاری والے یا کبھی کوئی انجان مہمان بھی اپنی آمد کا اعلان کر لیا کرتا تھا۔
ایک دن دوپہر کو ایک عجیب واقعہ ہوا جس نے گاؤں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ گاؤں کے میراثی نے ننھے کی دوکان سے اعلان کیا کہ چوہدری ریاست کی بیٹی اُس کی بیوی ہے اور مطالبہ کیا کہ چوہدری ریاست فوراً اُس کی بیوی کو اُس کے حوالے کر دے۔
اس اعلان کے ساتھ ہی ننھا تو ڈر کا مارا اپنی دوکان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ گاؤں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ کچھ لوگوں نے اِسے میراثی کا لچر پنا سمجھا اور ہنس کر ٹال دیا۔ کچھ لوگوں نے اس پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ کیونکہ چوہدری ریاست گاؤں کا متفقہ چوہدری تھا اور پورے گاؤں نے اُسے اپنا سربراہ چُن رکھا تھا۔ لوگ اِسے گاؤں کی عزت پر ہاتھ اٹھانے کے مترادف قرار دے رہے تھے۔
خیر چوہدری ریاست کو جب اس کا علم ہوا تو اُس نے اِس پر خاموشی اختیار کی۔ اپنے منشی سے کہہ کر میراثی کو پیغام بھجوایا کہ واپس ننھے کی دوکان پر جا کر اپنی اس بات پر معافی مانگ لے وہ اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔
لیکن اس کے تیسرے دن میراثی نے چوہدری ریاست کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر چِلانا شروع کر دیا۔ اور اونچی آواز میں مغلظات بکنا شروع ہو گیا اور ساتھ ساتھ مطالبہ کیا کہ چوہدری ریاست اپنی بیٹی کی اُس کے ساتھ رُخصتی کرے۔
گاؤں کے لوگ اس معاملے سے خوب پریشان ہوئے۔ اُنہوں نے اپنی تیئں میراثی کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ چوہدری ریاست کے بندوں نے جب اُس میراثی کو دبوچ کر پھینٹنا چاہا تو اُس نے اِسے چوہدری ریاست کا جبر قرار دیا۔
اگلے دن گاؤں کے سنجیدہ اور سمجھدار لوگ میراثی کے گھر گئے۔ اُنہوں نے اُسے کہا کہ اگر وہ ایسی لغو باتیں کرنا چھوڑ دے اور معافی مانگ لے تو وہ اُس کی مدد کر سکتے ہیں۔ جواب میں میراثی نے کہا کہ اگر آپ نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں آپ لوگوں کے بارے میں بھی گاؤں والوں کو ایسی باتیں بتاؤں گا کہ آپ لوگ منہ چھپاتے پھریں گئے۔ تمام لوگ مزید پریشان ہو گئے کہ جو چوہدری کا لحاظ نہیں کر رہا وہ اُن کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔
گاؤں میں حالات دن با دن بگڑتے جا رہے تھے۔ گاؤں کا جو بھی آدمی میراثی کی خلاف کاروائی کا کہتا، میراثی اُسکے خلاف ہو جاتا اور پھر جہاں دل کرتا کھڑا ہو کر اُس شخص کے بارے میں “انکشافات” کرنے لگ جاتا۔ قصہ مختصر گاؤں کے لوگوں نے اپنی عزت بچانے کی خاطر خاموشی اختیار کر لی۔
آخر کار گاؤں کی پنچائیت بیٹھی، اُنہوں نے میراثی کو طلب کر لیا۔ اور اُسے کہا کہ وہ یا تو وہ اپنا دعوا ثابت کرے ورنہ اُس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
پنچائت کے پہلے دن میراثی سے ایک “سرپنج” نے سوال کیا کہ بتاؤ تمہارے پاس کیا ثبوت ہیں کہ چوہدری ریاست کی بیٹی تمہاری بیوی ہے؟
میراثی ؛ میرے پاس ثبوتوں کے ڈھیر ہیں لیکن میں آپ کے سامنے تین ثبوت رکھوں گا جو میری بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہوں گئے۔
سب سے پہلا ثبوت تو یہ ہے کہ میں کہہ رہا ہوں کہ وہ میری بیوی ہے۔
دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اگر وہ میری بیوی نہیں ہوتی تو چوہدری ریاست اتنے بپھرے کیوں ہیں؟
اور تیسرا اگر وہ میری بیوی نہیں ہے تو کس کی ہے؟ ابھی تک کوئی اور دعویدار تو سامنے نہیں آیا۔
یہ بات ثابت کرتی ہے کہ وہ میری ہی بیوی ہے۔
میراثی نے یہ کہہ کر تمام گاؤں والوں کی فاتحانہ انداز میں دیکھا۔ اور کہا کہ دیکھا میں نے تو ثابت کر دیا۔ اب پنچائت اگر واقع منصف ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ میرے حق میں ہی فیصلہ دے۔
پنچائت نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی نکاح نامہ یا گواہ ہیں؟
میراثی نے کہا نکاح نامہ تو کاغذ کا ٹکڑا ہے میں تو کہتا ہوں کہ لڑکی کو بلائیں اور پوچھیں اصل بات پتہ لگ جائے گی۔
پنچائت نے بالآخر لڑکی کو بھی طلب کر لیا۔
جب لڑکی سے پنچائت سوال کرنے لگی تو میراثی کھڑا ہو کر بولا کہ یہ اپنے باپ کے دباؤ کا شکار ہے۔ اسلئے اُس کو باہر بھیجا جائے۔
پنچائت نے معاملے کو منطقی انجام دینے کی خاطر چوہدری ریاست سے کہا کہ آپ باہر چلے جائیے۔
پھر لڑکی سے سوال کیا تو اُس کا جواب صاف انکار میں تھا۔
اس سے پہلے کہ پنچائت کوئی بات کرتی۔ میراثی اُٹھ کر چِلانے لگا کہ جب تک اس کا باپ زندہ ہے یہ کبھی بھی سچ نہیں بولے گی۔
اس کے بعد پنچائت کے بڑوں نے چند منٹ مشورہ کیا اور گاؤں والوں سے کہا کہ میونسپل کمیٹی کو خط لکھیں کہ گاؤں میں آوارہ کتے بہت ہو گئے ہیں وہ آئیں اور اِن کا سدباب کریں اور جب تک وہ کوئی ایکشن نہیں لیتے گاؤں والے اپنی مدد آپ کے تحت اِن کتوں کو مار مار کر سات گاؤں باہر چھوڑ کر آئیں۔
About the author: Aqib Hassan is an expatriate, currently in London, can be found on Twitter @aqbh5گاؤں میں پچھلے تین ہفتوں سے خوف کی فضاء تھی۔ لوگ اب شام ہوتے ہی اپنے گھروں میں بند ہو جاتے تھے۔ بچے جو کبھی عصر کے بعد پورے گاؤں میں شور برپا رکھتے تھے اب سہمے سہمے سے رہتے تھے۔ اُن کی آنکھوں میں ڈر صاف دیکھائی دیتا تھا۔ یہاں تک کے لوگوں نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنا تک کم کر دی تھی.
حالانکہ تین ہفتے پہلے میرا گاؤں مثالی ہوا کرتا تھا۔ بڑے بوڑھوں کی بیٹھک میں سارا دن حقہ تازہ رہتا تھا۔ قصے کہانیاں سننے کو ملتی تھیں۔ بارہ ٹہنی کی بساط ہر وقت بچھی رہتی تھی۔ دن بھر ایک چہل پہل تھی۔ شام ہوتے ہی کبڈی کے میدان نوجوانوں سے بھر جاتے تھے۔
گاؤں کے سب سے بڑے چوراہے پر ننھے کریانے والی کی دوکان تھی۔ جس نے اپنی دوکان میں ایک اسپیکر بھی لگا رکھا تھا۔ جس کے ذریعے باہر سے آنے والے تاجر پانچ روپے کے عوض اپنے سامانِ تجارت کی تشہیر کیا کرتے تھے۔ جن میں زیادہ تر کپڑے والے، منیاری والے یا کبھی کوئی انجان مہمان بھی اپنی آمد کا اعلان کر لیا کرتا تھا۔
ایک دن دوپہر کو ایک عجیب واقعہ ہوا جس نے گاؤں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ گاؤں کے میراثی نے ننھے کی دوکان سے اعلان کیا کہ چوہدری ریاست کی بیٹی اُس کی بیوی ہے اور مطالبہ کیا کہ چوہدری ریاست فوراً اُس کی بیوی کو اُس کے حوالے کر دے۔
اس اعلان کے ساتھ ہی ننھا تو ڈر کا مارا اپنی دوکان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ گاؤں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ کچھ لوگوں نے اِسے میراثی کا لچر پنا سمجھا اور ہنس کر ٹال دیا۔ کچھ لوگوں نے اس پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ کیونکہ چوہدری ریاست گاؤں کا متفقہ چوہدری تھا اور پورے گاؤں نے اُسے اپنا سربراہ چُن رکھا تھا۔ لوگ اِسے گاؤں کی عزت پر ہاتھ اٹھانے کے مترادف قرار دے رہے تھے۔
خیر چوہدری ریاست کو جب اس کا علم ہوا تو اُس نے اِس پر خاموشی اختیار کی۔ اپنے منشی سے کہہ کر میراثی کو پیغام بھجوایا کہ واپس ننھے کی دوکان پر جا کر اپنی اس بات پر معافی مانگ لے وہ اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔
لیکن اس کے تیسرے دن میراثی نے چوہدری ریاست کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر چِلانا شروع کر دیا۔ اور اونچی آواز میں مغلظات بکنا شروع ہو گیا اور ساتھ ساتھ مطالبہ کیا کہ چوہدری ریاست اپنی بیٹی کی اُس کے ساتھ رُخصتی کرے۔
گاؤں کے لوگ اس معاملے سے خوب پریشان ہوئے۔ اُنہوں نے اپنی تیئں میراثی کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ چوہدری ریاست کے بندوں نے جب اُس میراثی کو دبوچ کر پھینٹنا چاہا تو اُس نے اِسے چوہدری ریاست کا جبر قرار دیا۔
اگلے دن گاؤں کے سنجیدہ اور سمجھدار لوگ میراثی کے گھر گئے۔ اُنہوں نے اُسے کہا کہ اگر وہ ایسی لغو باتیں کرنا چھوڑ دے اور معافی مانگ لے تو وہ اُس کی مدد کر سکتے ہیں۔ جواب میں میراثی نے کہا کہ اگر آپ نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں آپ لوگوں کے بارے میں بھی گاؤں والوں کو ایسی باتیں بتاؤں گا کہ آپ لوگ منہ چھپاتے پھریں گئے۔ تمام لوگ مزید پریشان ہو گئے کہ جو چوہدری کا لحاظ نہیں کر رہا وہ اُن کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔
گاؤں میں حالات دن با دن بگڑتے جا رہے تھے۔ گاؤں کا جو بھی آدمی میراثی کی خلاف کاروائی کا کہتا، میراثی اُسکے خلاف ہو جاتا اور پھر جہاں دل کرتا کھڑا ہو کر اُس شخص کے بارے میں “انکشافات” کرنے لگ جاتا۔ قصہ مختصر گاؤں کے لوگوں نے اپنی عزت بچانے کی خاطر خاموشی اختیار کر لی۔
آخر کار گاؤں کی پنچائیت بیٹھی، اُنہوں نے میراثی کو طلب کر لیا۔ اور اُسے کہا کہ وہ یا تو وہ اپنا دعوا ثابت کرے ورنہ اُس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
پنچائت کے پہلے دن میراثی سے ایک “سرپنج” نے سوال کیا کہ بتاؤ تمہارے پاس کیا ثبوت ہیں کہ چوہدری ریاست کی بیٹی تمہاری بیوی ہے؟
میراثی ؛ میرے پاس ثبوتوں کے ڈھیر ہیں لیکن میں آپ کے سامنے تین ثبوت رکھوں گا جو میری بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہوں گئے۔
سب سے پہلا ثبوت تو یہ ہے کہ میں کہہ رہا ہوں کہ وہ میری بیوی ہے۔
دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اگر وہ میری بیوی نہیں ہوتی تو چوہدری ریاست اتنے بپھرے کیوں ہیں؟
اور تیسرا اگر وہ میری بیوی نہیں ہے تو کس کی ہے؟ ابھی تک کوئی اور دعویدار تو سامنے نہیں آیا۔
یہ بات ثابت کرتی ہے کہ وہ میری ہی بیوی ہے۔
میراثی نے یہ کہہ کر تمام گاؤں والوں کی فاتحانہ انداز میں دیکھا۔ اور کہا کہ دیکھا میں نے تو ثابت کر دیا۔ اب پنچائت اگر واقع منصف ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ میرے حق میں ہی فیصلہ دے۔
پنچائت نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی نکاح نامہ یا گواہ ہیں؟
میراثی نے کہا نکاح نامہ تو کاغذ کا ٹکڑا ہے میں تو کہتا ہوں کہ لڑکی کو بلائیں اور پوچھیں اصل بات پتہ لگ جائے گی۔
پنچائت نے بالآخر لڑکی کو بھی طلب کر لیا۔
جب لڑکی سے پنچائت سوال کرنے لگی تو میراثی کھڑا ہو کر بولا کہ یہ اپنے باپ کے دباؤ کا شکار ہے۔ اسلئے اُس کو باہر بھیجا جائے۔
پنچائت نے معاملے کو منطقی انجام دینے کی خاطر چوہدری ریاست سے کہا کہ آپ باہر چلے جائیے۔
پھر لڑکی سے سوال کیا تو اُس کا جواب صاف انکار میں تھا۔
اس سے پہلے کہ پنچائت کوئی بات کرتی۔ میراثی اُٹھ کر چِلانے لگا کہ جب تک اس کا باپ زندہ ہے یہ کبھی بھی سچ نہیں بولے گی۔
اس کے بعد پنچائت کے بڑوں نے چند منٹ مشورہ کیا اور گاؤں والوں سے کہا کہ میونسپل کمیٹی کو خط لکھیں کہ گاؤں میں آوارہ کتے بہت ہو گئے ہیں وہ آئیں اور اِن کا سدباب کریں اور جب تک وہ کوئی ایکشن نہیں لیتے گاؤں والے اپنی مدد آپ کے تحت اِن کتوں کو مار مار کر سات گاؤں باہر چھوڑ کر آئیں۔
- Featured Thumbs
- https://pbs.twimg.com/media/CJGYGAbUEAAosSA.jpg:large
Last edited by a moderator: