پنجاب پولیس کو جدید آلات کے ذریعے کامیابیاں
انٹرنیٹ اور اس سے متعلقہ ٹیکنالوجی کی آمد سے نہ صرف مواصلات کے شعبے میں انقلاب آیا ہے بلکہ ڈیٹا اکٹھا کرنے، ذخیرہ کرنے اور شئیر کرنے میں بھی معاون ثابت ہوا ہے ۔ماضی میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے ہاتھوں کا استعمال کیا جاتا تھا اور اس کے لئے بڑے بڑے کھاتے بنائے جاتے تھے ، کھاتوں کی تصدیق کی جب ضرورت پیش آتی تھی تو اس کے لئے بہت ذیادہ افردی قوت درکار ہوتی تھی اس پروقت بھی زیادہ خرچ ہوتا تھا لیکن جدید دور کی ٹیکنالوجی نے یہ کام چند لمحوںپر محیط کر دیا ہے۔اس سہولت کا سب اداروں کو بالخصوص پولیس کوضرورفائدہ ہوا ہے لہذا سب کو آئی ٹی کے موجدوں کا شکر گذار ہونا چاہیے۔
سینئر پولیس عہدیدار حسین حبیب کا کہنا ہے کہ"جس کام میں ہفتے لگ جاتے تھے اب وہ کام منٹوں میں ہوجاتا ہے "،اس سے نہ صرف پولیس فورس کی کارکردگی بڑھی ہے بلکہ احتساب میں بہتری آئی ہے۔
پنجاب پولیس کے لئے زیادہ تر سافٹ وئیر پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کی طرف سے تیارکیے گئے ہیں۔پی آئی ٹی بی کے جنرل مینیجر برہان رسول کا کہنا ہےکہ ماضی میں دہشت گردوں کی جا نب سے پولیس فورس پر کئے جانے والے پے درپے حملوں کے بعد اس امر کی ضرورت پیش آ ئی کہ پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے تاکہ دہشت گردی پر قابو پایا جاسکے۔
اس مسلئے کے حل کے لئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور، ذوالفقار حمید، پی آئی ٹی بی کے چیئرمین، ڈاکٹر عمر سیف اور برہان رسول کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے۔ان کی بات چیت کے نتیجے میں پی آئی ٹی بی کی طرف سے پولیس کے لئےمتعدد سافٹ وئیر اور آلات تیار کیے گئے ،جن میں سے بیشتر پر پنجاب پولیس کی طرف سےاستعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کلیدی منصوبوں میں سے ایک بائیومیٹرک کی تصدیق والا آلہ بھی ہے۔ہاتھ سے پکڑےجانے والایہ بائیومیٹرک آلہ بنیادی طور پر تین چیزوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے،جن میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC)اور فنگر پرنٹ کے ذریعے شہریوں کی تصدیق، رجسٹریشن (POR) نمبر اور فنگرپرنٹ کے ذریعے افغان باشندوں کی تصدیق اور اس کےساتھ ساتھ عادی اور مشتبہ شخص کی نشاندہی شامل ہے، یہ ڈیوائس ہاتھ سےپکڑی جاتی ہے اور اس کو ملک میں کہیں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے. یہ ایک سم کے ذریعے منسلک ہوتی ہے اور پنجاب پولیس کی تمام چوکیوںپراس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ تاہم اس آلے کو شناختی کارڈ نمبر اور مشتبہ شخص کے فنگر پرنٹ کی ضرورت ہوتی ہے.یہ آلہ نادرا، افغان مہاجرین، کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم (CRMs کے)، عادی مجرموں ، بلیک بک، ریڈ بک اور چوتھے شیڈول فہرست میں شامل افراد کا ڈیٹا بیس کےذریعے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرتا ہےاس سے قبل مشکوک افراد کی تصدیق کے لئے کوئی ڈیوائس نہیں تھی لیکن اب اس آلے کا استعمال کرتے ہوئے مشکوک افراد کی موقع پر ہی اس کی شناختی کارڈ اور فنگر پرنٹ کے ذریعے اس کی تصدیق ممکن ہے۔اس آلے کی سب سے اہم بات یہ ہے اس آلے کو کسی بھی برقع پہنے فرد کی جنس کی تصدیق کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے. اس کے ذریعے متعدد مشتبہ افراد کو خواتین کے بھیس میں فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا ہے، پاکستان جیسے ملک میں یہ آلہ نہایت اہمیت کا حامل تھا۔امن و امان قائم رکھنے کے غرض سے یہ بائیومیٹرک ڈیوائس پولیس چھاپوں، جلوسوں اور احتجاج کے دوران بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔اس ڈیوائس کو پنجاب بھر میں بھر پور طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔اب تک اس کے ذریعے مجموعی طور چھہ لاکھ چھہ ہزار سے زائد افراد کی چیکنگ کی گئی۔
اس بائیومیٹرک آلہ کے ذریعے پولیس کو جرائم کے خاتمے میں کئی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اس سےکئی جعلی شناختی کارڈ پکڑے گئے ،اسی طرح ڈیوائس سے گزشتہ زمبابوے کرکٹ ٹیم کے دوران شائقین کی تصدیق ، اورنج ٹرین کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی اور رائیونڈ میں سالانہ تبلیغی اجتماع کے دوران چیکنگ کے لئے استعمال کیا گیا۔ اپریل 2016 ءمیں اس آلہ کو راجن پور کے کچے کے علاقے میں چھوٹو گینگ کے خلاف پولیس اور فوجی آپریشن میں بھی کامیابی سےاستعمال کیا گیا ۔اس آلے کے ذریعےقانون نافذ کرنے والے ادارے بہترین کارکردگی کی نئی سطح کو حاصل کر رہے ہیں. یہ منصوبہ صوبےمیں جرائم کے تجزیوں کانظام تیار کرنے کے پی آئی ٹی بی اور پنجاب پولیس کی طرف سے ایک بڑے اقدام کا حصہ ہے۔
http://www.technologyreview.pk/empowering-the-police-via-icts/
انٹرنیٹ اور اس سے متعلقہ ٹیکنالوجی کی آمد سے نہ صرف مواصلات کے شعبے میں انقلاب آیا ہے بلکہ ڈیٹا اکٹھا کرنے، ذخیرہ کرنے اور شئیر کرنے میں بھی معاون ثابت ہوا ہے ۔ماضی میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے ہاتھوں کا استعمال کیا جاتا تھا اور اس کے لئے بڑے بڑے کھاتے بنائے جاتے تھے ، کھاتوں کی تصدیق کی جب ضرورت پیش آتی تھی تو اس کے لئے بہت ذیادہ افردی قوت درکار ہوتی تھی اس پروقت بھی زیادہ خرچ ہوتا تھا لیکن جدید دور کی ٹیکنالوجی نے یہ کام چند لمحوںپر محیط کر دیا ہے۔اس سہولت کا سب اداروں کو بالخصوص پولیس کوضرورفائدہ ہوا ہے لہذا سب کو آئی ٹی کے موجدوں کا شکر گذار ہونا چاہیے۔
سینئر پولیس عہدیدار حسین حبیب کا کہنا ہے کہ"جس کام میں ہفتے لگ جاتے تھے اب وہ کام منٹوں میں ہوجاتا ہے "،اس سے نہ صرف پولیس فورس کی کارکردگی بڑھی ہے بلکہ احتساب میں بہتری آئی ہے۔

پنجاب پولیس کے لئے زیادہ تر سافٹ وئیر پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کی طرف سے تیارکیے گئے ہیں۔پی آئی ٹی بی کے جنرل مینیجر برہان رسول کا کہنا ہےکہ ماضی میں دہشت گردوں کی جا نب سے پولیس فورس پر کئے جانے والے پے درپے حملوں کے بعد اس امر کی ضرورت پیش آ ئی کہ پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے تاکہ دہشت گردی پر قابو پایا جاسکے۔
اس مسلئے کے حل کے لئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور، ذوالفقار حمید، پی آئی ٹی بی کے چیئرمین، ڈاکٹر عمر سیف اور برہان رسول کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے۔ان کی بات چیت کے نتیجے میں پی آئی ٹی بی کی طرف سے پولیس کے لئےمتعدد سافٹ وئیر اور آلات تیار کیے گئے ،جن میں سے بیشتر پر پنجاب پولیس کی طرف سےاستعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کلیدی منصوبوں میں سے ایک بائیومیٹرک کی تصدیق والا آلہ بھی ہے۔ہاتھ سے پکڑےجانے والایہ بائیومیٹرک آلہ بنیادی طور پر تین چیزوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے،جن میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC)اور فنگر پرنٹ کے ذریعے شہریوں کی تصدیق، رجسٹریشن (POR) نمبر اور فنگرپرنٹ کے ذریعے افغان باشندوں کی تصدیق اور اس کےساتھ ساتھ عادی اور مشتبہ شخص کی نشاندہی شامل ہے، یہ ڈیوائس ہاتھ سےپکڑی جاتی ہے اور اس کو ملک میں کہیں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے. یہ ایک سم کے ذریعے منسلک ہوتی ہے اور پنجاب پولیس کی تمام چوکیوںپراس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ تاہم اس آلے کو شناختی کارڈ نمبر اور مشتبہ شخص کے فنگر پرنٹ کی ضرورت ہوتی ہے.یہ آلہ نادرا، افغان مہاجرین، کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم (CRMs کے)، عادی مجرموں ، بلیک بک، ریڈ بک اور چوتھے شیڈول فہرست میں شامل افراد کا ڈیٹا بیس کےذریعے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرتا ہےاس سے قبل مشکوک افراد کی تصدیق کے لئے کوئی ڈیوائس نہیں تھی لیکن اب اس آلے کا استعمال کرتے ہوئے مشکوک افراد کی موقع پر ہی اس کی شناختی کارڈ اور فنگر پرنٹ کے ذریعے اس کی تصدیق ممکن ہے۔اس آلے کی سب سے اہم بات یہ ہے اس آلے کو کسی بھی برقع پہنے فرد کی جنس کی تصدیق کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے. اس کے ذریعے متعدد مشتبہ افراد کو خواتین کے بھیس میں فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا ہے، پاکستان جیسے ملک میں یہ آلہ نہایت اہمیت کا حامل تھا۔امن و امان قائم رکھنے کے غرض سے یہ بائیومیٹرک ڈیوائس پولیس چھاپوں، جلوسوں اور احتجاج کے دوران بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔اس ڈیوائس کو پنجاب بھر میں بھر پور طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔اب تک اس کے ذریعے مجموعی طور چھہ لاکھ چھہ ہزار سے زائد افراد کی چیکنگ کی گئی۔

اس بائیومیٹرک آلہ کے ذریعے پولیس کو جرائم کے خاتمے میں کئی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اس سےکئی جعلی شناختی کارڈ پکڑے گئے ،اسی طرح ڈیوائس سے گزشتہ زمبابوے کرکٹ ٹیم کے دوران شائقین کی تصدیق ، اورنج ٹرین کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی اور رائیونڈ میں سالانہ تبلیغی اجتماع کے دوران چیکنگ کے لئے استعمال کیا گیا۔ اپریل 2016 ءمیں اس آلہ کو راجن پور کے کچے کے علاقے میں چھوٹو گینگ کے خلاف پولیس اور فوجی آپریشن میں بھی کامیابی سےاستعمال کیا گیا ۔اس آلے کے ذریعےقانون نافذ کرنے والے ادارے بہترین کارکردگی کی نئی سطح کو حاصل کر رہے ہیں. یہ منصوبہ صوبےمیں جرائم کے تجزیوں کانظام تیار کرنے کے پی آئی ٹی بی اور پنجاب پولیس کی طرف سے ایک بڑے اقدام کا حصہ ہے۔
http://www.technologyreview.pk/empowering-the-police-via-icts/
Last edited by a moderator: