samkhan
Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے 20 میں سے پندرہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ نون صرف چار نشستیں حاصل کر سکی ہے۔
مسلم لیگ نون کے لیے ان ضمنی انتخابات میں شکست صرف ان 15 حلقوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا اثر حمزہ شہباز کی پنجاب حکومت اور شہباز شریف کی وفاقی حکومت پر بھی پڑ سکتا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں اور ماہرین کے اندازوں کے برعکس تحریک انصاف کی کامیابی نے سیاسی اور مقتدر حلقوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اتنی بڑی کامیابی آخر کیسے حاصل کر لی اور اس کے لیے اس جماعت کا لائحہ عمل کیا رہا۔
اپنے دور حکومت میں مہنگائی کی وجہ سے عوامی تنقید کا شکار تحریک انصاف نے یکدم عوامی مقبولیت اس وقت دوبارہ حاصل کرنا شروع کی جب عمران خان نے ’امریکہ کے حکم پر پاکستان میں رجیم چینج‘ کے خلاف بیانیہ اپنایا اور عوامی جلسوں اور تقاریب میں اسے دہرانا شروع کیا۔ ’رجیم چینج‘ کے فوراً بعد تحریک انصاف نے مطالبہ شروع کیا کہ فوری الیکشن کروائے جائیں کیونکہ ملک کے مسائل کا حل صرف ایک عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آئی حکومت ہی کر سکتی ہے۔ اپنے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تحریک انصاف نے اسلام آباد کی جانب 25 مئی کو ’پرامن‘ لانگ مارچ کی کال دی لیکن حکومت کی جانب سے ابتدا میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تاہم عمران خان اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب رہے۔ اس نئی صورتحال میں تحریک انصاف نے اپنے احتجاج کی تحریک کو نئی شکل دی اور عوام کو شام کے وقت شہروں میں جمع کرنا شروع کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری کا کہنا ہے کہ ہم نے اسٹیبلشمنٹ کا موڈ دیکھ کر احتجاج میں تھوڑی تبدیلی کی اور لوگوں کو تین دن، چار دن، ہفتے بعد شام کو نکالنا شروع کیا کہ وہ بڑی سکرینوں پر عمران خان کی تقریر سُنیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کی مہم میں واضح فرق صرف عمران خان تھے، جنھوں نے صوبے کے تمام 20 حلقوں میں طوفانی دورے کیے اور عوام کو یہ ذہن نشین کروایا کہ پاکستان کی بقا صرف خود مختاری اور امریکا سے حقیقی آزادی حاصل کرنے میں ہے۔
تحریک انصاف کی وسطی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے بتایا کہ ان کی پارٹی نے انتخابات جیتنے کے لیے ہمہ جہتی حکمت عملی بنائی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے یہ حکمت عملی بنائی کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کسی معمولی سے معمولی غلطی کو نظر انداز نہیں کرنا۔ ہم نے الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹوں میں غلطیوں سے لے کر پولنگ ایجنٹس کی تعیناتی کے حوالے تک مصروف رکھا اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔‘ انھوں نے کہا کہ پارٹی کی ’تمام قیادت نے یہ یقینی بنایا کہ عوام یہ جانے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو بیرونی دباؤ کی وجہ سے رخصت کیا گیا اور اس وقت ضروری ہے کہ وہ باہر نکلیں اور بیرونی آقاؤں اور ان کے پاکستان میں حواریوں کے خلاف جہاد کریں۔‘
ڈاکٹر یاسمین نے بتایا کہ پارٹی نے ہر گھر کے دروازے پر جا کر لوگوں سے ووٹ مانگے اور پولنگ والے دن لوگوں کو گھروں سے پولنگ سٹیشن تک لے کر آئے۔ پھر پولنگ ایجنٹس نے نتائج آنے تک ووٹوں پر پہرہ بھی دیا۔ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف نے وسطی پنجاب کی چھ نشستوں کو مانیٹر کرنے کے لیے لاہور میں ایک سیل بنایا جس نے پہلے ڈور ٹو ڈور مہم میں ووٹروں کے فون نمبر لیے اور پھر ان کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا۔ مانیٹرنگ سیل کے ایک ورکر نے بتایا کہ ہم نے تمام چھ حلقوں میں تقریباً چار لاکھ فون کالز کیں۔
’آخری دنوں میں ووٹرز کال سنتے ہی کہتے تھے کہ کہ ہم پولنگ والے دن پولنگ سٹیشن پر خود ہی صبح صبح پہنچ جائیں گے۔‘ تحریک انصاف کے پی پی 167 میں کورنگ امیدوار سید عدنان جمیل نے بتایا کہ وہ خود اور کئی دوسرے حلقوں میں کورنگ امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑے رہے تاکہ اپنی پارٹی کے لیے تمام دستیاب وسائل کو استعمال کر سکیں۔
’ہم نے آزاد امیدوار کے طور پر بھی ہر پولنگ سٹیشن پر پولنگ ایجنٹ دیے تھے تاکہ تحریک انصاف کے پولنگ ایجنٹس کی تعداد زیادہ ہو سکے اور الیکشن بہتر طریقے سے مانیٹر ہو سکے۔‘ تحریک انصاف کے کورنگ امیدوار سید عدنان جمیل نے بتایا کہ وہ خود اور کئی دوسرے حلقوں میں کورنگ امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑے رہے تاکہ اپنی پارٹی کے لیے تمام دستیاب وسائل کو استعمال کر سکیں۔ تحریک انصاف کے امیدواروں نے ہر حلقے کی تمام تحریک انصاف نے ہر پولنگ سٹیشن کے باہر دو گاڑیاں اور چھ موٹر سائیکلوں پر ورکرز کو بٹھایا۔ ان ورکرز نے بیلٹ باکسز کی ریٹرننگ آفیسر کے دفتر تک ترسیل کی ویڈیوز بنائیں تاکہ کوئی بیلٹ باکس کو راستے میں غائب نہ کر سکے۔ یونین کونسلز میں مانیٹرنگ روم بنائے اور گاڑیاں دی تھیں۔
تحریک انصاف کی اس کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر الزمان کائرہ نے تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ عوام نے مہنگائی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ نون نے اپنے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جس کا بہت سخت ردعمل آیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ مسلم لیگ نون کے ووٹرز نے بھی یوٹرن لیا اور پارٹی فیصلے کے خلاف جا کر الیکٹیبلز کو تسلیم نہیں کیا۔
Source
مسلم لیگ نون کے لیے ان ضمنی انتخابات میں شکست صرف ان 15 حلقوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا اثر حمزہ شہباز کی پنجاب حکومت اور شہباز شریف کی وفاقی حکومت پر بھی پڑ سکتا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں اور ماہرین کے اندازوں کے برعکس تحریک انصاف کی کامیابی نے سیاسی اور مقتدر حلقوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اتنی بڑی کامیابی آخر کیسے حاصل کر لی اور اس کے لیے اس جماعت کا لائحہ عمل کیا رہا۔
اپنے دور حکومت میں مہنگائی کی وجہ سے عوامی تنقید کا شکار تحریک انصاف نے یکدم عوامی مقبولیت اس وقت دوبارہ حاصل کرنا شروع کی جب عمران خان نے ’امریکہ کے حکم پر پاکستان میں رجیم چینج‘ کے خلاف بیانیہ اپنایا اور عوامی جلسوں اور تقاریب میں اسے دہرانا شروع کیا۔ ’رجیم چینج‘ کے فوراً بعد تحریک انصاف نے مطالبہ شروع کیا کہ فوری الیکشن کروائے جائیں کیونکہ ملک کے مسائل کا حل صرف ایک عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آئی حکومت ہی کر سکتی ہے۔ اپنے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تحریک انصاف نے اسلام آباد کی جانب 25 مئی کو ’پرامن‘ لانگ مارچ کی کال دی لیکن حکومت کی جانب سے ابتدا میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تاہم عمران خان اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب رہے۔ اس نئی صورتحال میں تحریک انصاف نے اپنے احتجاج کی تحریک کو نئی شکل دی اور عوام کو شام کے وقت شہروں میں جمع کرنا شروع کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری کا کہنا ہے کہ ہم نے اسٹیبلشمنٹ کا موڈ دیکھ کر احتجاج میں تھوڑی تبدیلی کی اور لوگوں کو تین دن، چار دن، ہفتے بعد شام کو نکالنا شروع کیا کہ وہ بڑی سکرینوں پر عمران خان کی تقریر سُنیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کی مہم میں واضح فرق صرف عمران خان تھے، جنھوں نے صوبے کے تمام 20 حلقوں میں طوفانی دورے کیے اور عوام کو یہ ذہن نشین کروایا کہ پاکستان کی بقا صرف خود مختاری اور امریکا سے حقیقی آزادی حاصل کرنے میں ہے۔
تحریک انصاف کی وسطی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے بتایا کہ ان کی پارٹی نے انتخابات جیتنے کے لیے ہمہ جہتی حکمت عملی بنائی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے یہ حکمت عملی بنائی کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کسی معمولی سے معمولی غلطی کو نظر انداز نہیں کرنا۔ ہم نے الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹوں میں غلطیوں سے لے کر پولنگ ایجنٹس کی تعیناتی کے حوالے تک مصروف رکھا اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔‘ انھوں نے کہا کہ پارٹی کی ’تمام قیادت نے یہ یقینی بنایا کہ عوام یہ جانے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو بیرونی دباؤ کی وجہ سے رخصت کیا گیا اور اس وقت ضروری ہے کہ وہ باہر نکلیں اور بیرونی آقاؤں اور ان کے پاکستان میں حواریوں کے خلاف جہاد کریں۔‘
ڈاکٹر یاسمین نے بتایا کہ پارٹی نے ہر گھر کے دروازے پر جا کر لوگوں سے ووٹ مانگے اور پولنگ والے دن لوگوں کو گھروں سے پولنگ سٹیشن تک لے کر آئے۔ پھر پولنگ ایجنٹس نے نتائج آنے تک ووٹوں پر پہرہ بھی دیا۔ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف نے وسطی پنجاب کی چھ نشستوں کو مانیٹر کرنے کے لیے لاہور میں ایک سیل بنایا جس نے پہلے ڈور ٹو ڈور مہم میں ووٹروں کے فون نمبر لیے اور پھر ان کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا۔ مانیٹرنگ سیل کے ایک ورکر نے بتایا کہ ہم نے تمام چھ حلقوں میں تقریباً چار لاکھ فون کالز کیں۔
’آخری دنوں میں ووٹرز کال سنتے ہی کہتے تھے کہ کہ ہم پولنگ والے دن پولنگ سٹیشن پر خود ہی صبح صبح پہنچ جائیں گے۔‘ تحریک انصاف کے پی پی 167 میں کورنگ امیدوار سید عدنان جمیل نے بتایا کہ وہ خود اور کئی دوسرے حلقوں میں کورنگ امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑے رہے تاکہ اپنی پارٹی کے لیے تمام دستیاب وسائل کو استعمال کر سکیں۔
’ہم نے آزاد امیدوار کے طور پر بھی ہر پولنگ سٹیشن پر پولنگ ایجنٹ دیے تھے تاکہ تحریک انصاف کے پولنگ ایجنٹس کی تعداد زیادہ ہو سکے اور الیکشن بہتر طریقے سے مانیٹر ہو سکے۔‘ تحریک انصاف کے کورنگ امیدوار سید عدنان جمیل نے بتایا کہ وہ خود اور کئی دوسرے حلقوں میں کورنگ امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑے رہے تاکہ اپنی پارٹی کے لیے تمام دستیاب وسائل کو استعمال کر سکیں۔ تحریک انصاف کے امیدواروں نے ہر حلقے کی تمام تحریک انصاف نے ہر پولنگ سٹیشن کے باہر دو گاڑیاں اور چھ موٹر سائیکلوں پر ورکرز کو بٹھایا۔ ان ورکرز نے بیلٹ باکسز کی ریٹرننگ آفیسر کے دفتر تک ترسیل کی ویڈیوز بنائیں تاکہ کوئی بیلٹ باکس کو راستے میں غائب نہ کر سکے۔ یونین کونسلز میں مانیٹرنگ روم بنائے اور گاڑیاں دی تھیں۔
تحریک انصاف کی اس کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر الزمان کائرہ نے تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ عوام نے مہنگائی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ نون نے اپنے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جس کا بہت سخت ردعمل آیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ مسلم لیگ نون کے ووٹرز نے بھی یوٹرن لیا اور پارٹی فیصلے کے خلاف جا کر الیکٹیبلز کو تسلیم نہیں کیا۔
Source