پنجابی لسان کے معیار پر پورا نہیں اُترتی
دنیا کی معیاری لسان وہی زبانیں ہیں جنکی اپنی صوتی اوازیں اور ان آوازوں سے نکلنے والے جداگانہ حروف ہیں ۔ اگر معیاری لسان کا تجزیہ کیا جائے تو عربی ، فارسی ، سرائیکی ، سندھی پشتو کے اندر معیاری صوت / آوازیں ہیں جنکی بنیاد پر ان حروف سے نکلنے والی مخصوص اوازیں اپنا جداگانہ معیار رکھتی ہیں ۔ پنجابی کی معیاری صوتی/ آوازیں نہیں ہیں بلکہ عربی ، ہندی اور فارسی کی صوتی آوازیں پنجابی کے اندر ملتی ہیں ۔
پنجابی واحد زبان ہے جس کے اندر صوتی آوازیں درآمد کی گئی ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پنجابی کے اندر صوتی اوازیں موجود نہیں ہے یہ طفیلی لہجہ ہے جسکا انحصار فارسی ، ہندی عربی کی صوتی آوازوں پر منصر ہے ۔ کیونکہ پنجابی کے اندر غالب صوتی آوازیں ہندی کی ہیں اس وجہ سے پنجابی ہندی زبان کا ترش لہجہ کہلائی جاتی رہی ہے اور ہندی کا جز دیکھائی دیتی ہے ۔
پنجابی اور ہندی کے طرز کلام میں فرق نہیں ہے ہندی ادبی زبان ہے معیاری لسانی ادب ہے اور پنجابی ، اردو/ ہندی کا ترش لہجہ ہے ۔ 1895ء میں برطانوی جج اے ڈبلو سٹوگڈن نے ایک فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ پنجابی زبان کے معیار پر پوری نہیں اُترتی یہ رف لہجہ ہے اس لیے بہتر ہے پنجابی کے بجائے اردو کو فروغ دیا جائے ۔اے ڈبلو سٹوگڈن لکھتے ہیں
Judge A. W. Stogdon, the Divisional Judge of Jullundur, wrote in his letter of 3 August 1895 that:As for the encouragement of Punjabi. I am of the opinion that it is an uncouth dialect not fit to be a permanent language, and the sooner it is driven out by Urdu the better۔دنیا کی معیاری لسان وہی زبانیں ہیں جنکی اپنی صوتی اوازیں اور ان آوازوں سے نکلنے والے جداگانہ حروف ہیں ۔ اگر معیاری لسان کا تجزیہ کیا جائے تو عربی ، فارسی ، سرائیکی ، سندھی پشتو کے اندر معیاری صوت / آوازیں ہیں جنکی بنیاد پر ان حروف سے نکلنے والی مخصوص اوازیں اپنا جداگانہ معیار رکھتی ہیں ۔ پنجابی کی معیاری صوتی/ آوازیں نہیں ہیں بلکہ عربی ، ہندی اور فارسی کی صوتی آوازیں پنجابی کے اندر ملتی ہیں ۔
پنجابی واحد زبان ہے جس کے اندر صوتی آوازیں درآمد کی گئی ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پنجابی کے اندر صوتی اوازیں موجود نہیں ہے یہ طفیلی لہجہ ہے جسکا انحصار فارسی ، ہندی عربی کی صوتی آوازوں پر منصر ہے ۔ کیونکہ پنجابی کے اندر غالب صوتی آوازیں ہندی کی ہیں اس وجہ سے پنجابی ہندی زبان کا ترش لہجہ کہلائی جاتی رہی ہے اور ہندی کا جز دیکھائی دیتی ہے ۔
پنجابی اور ہندی کے طرز کلام میں فرق نہیں ہے ہندی ادبی زبان ہے معیاری لسانی ادب ہے اور پنجابی ، اردو/ ہندی کا ترش لہجہ ہے ۔ 1895ء میں برطانوی جج اے ڈبلو سٹوگڈن نے ایک فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ پنجابی زبان کے معیار پر پوری نہیں اُترتی یہ رف لہجہ ہے اس لیے بہتر ہے پنجابی کے بجائے اردو کو فروغ دیا جائے ۔اے ڈبلو سٹوگڈن لکھتے ہیں
ان تمام حقائق کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے پنجابی ایک رف لہجہ ہے معیاری زبان نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ پنجابی کے اندر صوتی آوازیں درآمد شدہ ہیں ۔ اور پنجابی لسان کے معیار پر پوری نہیں اُترتی ۔یہ ایک ترش معیار کا لہجہ ہے جسکے اندر ادب کا فقدان ہے ۔اس کے برعکس اردو کے اندر ادب اور تہذیب ہے ۔ عالمی معیار کا ادب تخلیق ہو رہا ہے ۔ پنجابی کے اندر ادب تخلیق نہیں ہو پاتا ۔کچھ پنجابی دانشور یہ دعویٰ کرتے ہیں سرائیکی زبان پنجابی کا لہجہ ہے یہ ایک ایسا بچکانہ طرز عمل یا فکری مغالطہ ہے جسکا کوئی سر پیر نہیں ہے ۔
پنجابی کے اندر تمام اوازیں در آمد شدہ ہیں تمام اوازیں باہر سے لی گئی ہیں ایک ایسا لہجہ جو ہندی کا ھی جز شمار ہوتا ہے جو ہندی کا ھی ثقافتی یونٹ شمار ہوتا ہے جس کے اندر حروف اور صوتی آوازیں اپنی نہیں ہے بلکہ عربی ، فارسی اور ہندی سے مستعار لی گئی ہیں ایسا ترش لہجہ کیسے سرائیکی جیسی دقیق زبان کو جنم دے سکتا ہے ؟
یا سرائیکی جیسی دقیق زبان کو پیدا کر سکتا ہے ؟ یہ ایسے ھی ہے جیسے اپ بکری سے توقع کریں وہ ہاتھی کا بچہ پیدا کر دے یا پھر بکری کے پیٹ سے ہاتھی برآمد کرنے والی بات ہے ۔ ایسی بچکانہ خواہش سے بکری ، ہاتھی کا بچہ پیدا کرنے سے تو رہی ۔ میری پنجابی دانشور طبقے سے گزارش ہے وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنا قبلہ درست کریں پنجابی کی صوتی اوازیں پیدا کرنے کی کوشش کریں
جو کہ سرے سے موجود ھی نہیں ہیں سرائیکی سیاسی پلیٹ فورم سے محروم ہیں جسکی وجہ سے سیاست سرائیکی کے ہاتھ میں نہیں ہے ورنہ حالات کا رخ کچھ اور ہوتا اگر سرائیکی سیاست میں طاقتور ہوئے تو پنجابی لسان پاکستان کے بجائے ہندستان سدھار جائے گئی جو کہ اسکا اصل وطن ہے
واپس ہندی لسان کی گود میں جا بیٹھے گئی ۔ سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ کہنے سے پچھلے 40 سال سے سرائیکی لسان کی صحت پر اثر نہیں پڑا کیونکہ سرائیکی لسان کے اندر ایک فطری خودکار سسٹم متحرک ہے جو سرائیکی کو سرکاری سرپرستی سے محروم ھونے کے باوجود زندہ رکھے ہوئے ہے ۔ پنجابی لسان کے معیار پر پوری نہیں اُترتی بلکہ ایک ترش معیار کا لہجہ ہے جسکو طفیلی لہجہ تو کہا جا سکتا ہے زبان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ پنجابی دانشور طبقہ سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ قرار دینے پر توانائی خرچ کرنے کے بجائے پنجابی کی صوتی آوازیں پیدا کرنے پر توانائی صرف کریں
شاید وہ اس میں کامیاب ہو جائیں پنجابی پر 1895ء برٹش سرکار نے یہ کہہ کر پابندی عائد کر دی تھی کہ یہ زبان کے معیار پر پوری نہیں اُترتی بلکہ یہ ایک رف لہجہ ہے جسکو زبان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
سعید احمد
[email protected]
نوٹ:تمام دوست اپنی رائے کا اظہار کریں
پنجابی کے اندر تمام اوازیں در آمد شدہ ہیں تمام اوازیں باہر سے لی گئی ہیں ایک ایسا لہجہ جو ہندی کا ھی جز شمار ہوتا ہے جو ہندی کا ھی ثقافتی یونٹ شمار ہوتا ہے جس کے اندر حروف اور صوتی آوازیں اپنی نہیں ہے بلکہ عربی ، فارسی اور ہندی سے مستعار لی گئی ہیں ایسا ترش لہجہ کیسے سرائیکی جیسی دقیق زبان کو جنم دے سکتا ہے ؟
یا سرائیکی جیسی دقیق زبان کو پیدا کر سکتا ہے ؟ یہ ایسے ھی ہے جیسے اپ بکری سے توقع کریں وہ ہاتھی کا بچہ پیدا کر دے یا پھر بکری کے پیٹ سے ہاتھی برآمد کرنے والی بات ہے ۔ ایسی بچکانہ خواہش سے بکری ، ہاتھی کا بچہ پیدا کرنے سے تو رہی ۔ میری پنجابی دانشور طبقے سے گزارش ہے وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنا قبلہ درست کریں پنجابی کی صوتی اوازیں پیدا کرنے کی کوشش کریں
جو کہ سرے سے موجود ھی نہیں ہیں سرائیکی سیاسی پلیٹ فورم سے محروم ہیں جسکی وجہ سے سیاست سرائیکی کے ہاتھ میں نہیں ہے ورنہ حالات کا رخ کچھ اور ہوتا اگر سرائیکی سیاست میں طاقتور ہوئے تو پنجابی لسان پاکستان کے بجائے ہندستان سدھار جائے گئی جو کہ اسکا اصل وطن ہے
واپس ہندی لسان کی گود میں جا بیٹھے گئی ۔ سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ کہنے سے پچھلے 40 سال سے سرائیکی لسان کی صحت پر اثر نہیں پڑا کیونکہ سرائیکی لسان کے اندر ایک فطری خودکار سسٹم متحرک ہے جو سرائیکی کو سرکاری سرپرستی سے محروم ھونے کے باوجود زندہ رکھے ہوئے ہے ۔ پنجابی لسان کے معیار پر پوری نہیں اُترتی بلکہ ایک ترش معیار کا لہجہ ہے جسکو طفیلی لہجہ تو کہا جا سکتا ہے زبان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ پنجابی دانشور طبقہ سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ قرار دینے پر توانائی خرچ کرنے کے بجائے پنجابی کی صوتی آوازیں پیدا کرنے پر توانائی صرف کریں
شاید وہ اس میں کامیاب ہو جائیں پنجابی پر 1895ء برٹش سرکار نے یہ کہہ کر پابندی عائد کر دی تھی کہ یہ زبان کے معیار پر پوری نہیں اُترتی بلکہ یہ ایک رف لہجہ ہے جسکو زبان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
سعید احمد
[email protected]
نوٹ:تمام دوست اپنی رائے کا اظہار کریں