jani1
Chief Minister (5k+ posts)
پرو - سٹیٹ لابیز اور معلُوماتی ذرائع۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں ایک فورسٹار ہوٹل میں نائٹ مینیجر کی پوسٹ پر کام کرتا تھا۔ وہ شہر کے عین وسط میں ہونے کے بجائے ایک طرف کو واقع تھا۔جس کی وجہ سے اُس ہوٹل میں آنے والے اکثر گیسٹس واک ان کے بجائے اونلائن بُکنگ کے ذریعے آتے تھے۔اُن بُکنگ و پیمنٹس کو فرنٹ ڈیسک اور اکاونٹس سٹاف ہینڈل کرتے تھے۔
آن لائن بُکنگ اور پیمنٹ وغیرہ کی وجہ سےکام کا بوجھ تقریبا نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ خاص طور پر ہم مینیجرز کے لیئے اور مینیجرز میں نائٹ مینیجرز تو سمجھیں سیٹ گرم کرنے کو ہی ہوتے تھے۔ اگر ہوٹل ایسی جگہ ہو جہاں چہل قدمی کرنے والوں یا ٹائم پاسرز کی کہانی نہ ہو نے کے برابر ہو تو سونے پہ سُہاگہ۔
وہ رات ہونے سے پہلے خُوبصُورت اور سلوٹوں سے پاک تری پیس سُوٹ پہن کر بس دس بندرہ منٹ کی ڈرائیو پر آرام سے ہوٹل آنا۔ دربان و فرنٹ ڈیسک کے ساتھ دُعا و سلام کا تبادلہ کرنے کے بعد سیدھے اپنے آفس میں جانا۔ اپنا بیگ وغیرہ رکھ کر اپنے ڈیسک کی بجائے نرم و گداز صُوفے پر ڈھیر ہوتے ہی اپنے ٹی سرور کو چائے کا آرڈر دینا۔ اور تھوڑی دیر ریلیکس کرنے کے بعد۔ باہر فرنٹ ڈیسک کا سرسری سا چکر اور اُن کےکام وغیرہ کا جائزہ لینا۔
پھر اپنے آفس آکر کھبی نیوز تو کھبی سوشل میڈیا پر ٹائم کو کل کرنا۔ رات بارہ یا ایک سے صُبح کی آذان تک گھوڑے و گدھے بیچ کر ہوٹل کے کسی خالی کمرے کے نرم بستر پر سونا اور پھر نماز و ناشتے وغیرہ سے فراغت کی تھوڑی ہی دیر بعد گھر کی راہ لینا۔ اتنا آرام دہ کام ہو اور اُس کا مُناسب دام ہو تو کون کم بخت اسےچھوڑنا یا اپنا تبادلہ کسی ایسی جگہ کرانا چاہتا ہوگا جو نا صرف گھر سے دُور ہو بلکہ شہر کے وسط میں گُنجان آبادی کے بیچ میں بھی ہو۔۔کوئی نہیں۔ ۔مگر۔۔میرے ساتھ ایسا ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔ ۔۔۔۔کیسے۔۔؟۔
مُجھے جہاں ٹریننگ وغیرہ کے لیئے ایک ہفتے کو بھیجا گیا تھا وہ برانچ شہر کے وسط میں ہونے کے علاوہ وہاں آنے جانے کے لیئےکم از کم دو سے تین گھنٹہ ڈرائیو کی ضرُورت تھی۔بھلا میں کیسے وہاں کام کرسکتا تھا۔ تو پھر میں نے کیا کیا۔۔؟
ایک دن مُجھے میرے ائریا مینیجر کی کال موصُول ہوئی ۔اُس نے مُجھے کہا کہ مُجھے دو تین دن کے لیئے اُس سٹی سینٹر والی برانچ جانا ہوگا۔ میں سمجھا کہ بس دو تین دن کی بات ہے تو میں نے جانے کی ہامی بھر لی۔ مگر اُسی دن مُجھے میرے ہیڈ آفس میں موجود ذرائع سے کال موصُول ہوئی کہ اگر سٹی سینٹر والی برانچ میں کام کرسکتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ یہ بتادوں کہ ان کا پلان ہے کہ آپ کو مُستقل یہاں ٹرانسفر کیا جائے اور اپنے ایک چہیتے کو آپ کی جگہ بھیج دیا جائے۔ میں نے اپنےذرائع کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے سوچھتا ہوں کا کہہ کر فون بند کیا۔
۔ تھوڑی دیر سوچھنے کے بعد ائریا مینجر کو وٹس ایپ پر اتنا لکھا کہ ۔۔یہ دو تین دن ٹھیک ہیں پر اور نہیں تینکس۔۔ میں ایک دم سےگرم پانی میں نہیں کوُدنا چاہتا تھا۔ بس ذرہ اُن کو ٹٹولنے کی غرض سے یہ میسج کیا۔ جس کا جواب اگلے دس منٹ میں ملا کہ ۔۔ کیوں نہیں ۔ وہاں کا سٹاف آپکو پسند کرتا ہے۔۔ اُن کے اس جواب پر اپنے ذرائع کی اطلاع میں صداقت محسُوس ہوئی۔ جس کے جواب میں میں نے بس اتنا کہا کہ۔۔ وہ ٹھیک ہے ۔اُن سب کا شُکریہ ۔مگر میں وہاں کام نہیں کرسکونگا۔۔ اُس پر مینیجر کا اوکے کے بعد کُچھ نہیں آیا۔
کیوں کہ اللہ پر ایمان پُختہ تھا اور ہے۔میں نے پُختہ ارادہ کرلیا تھا کہ اگر انہوں نے مُجھے مجبُور کیا تو میں استعفیٰ دے دونگا۔ اللہ رزق دینےوالا ہے اور کہیں سہی۔ مگر پھر اُنہوں نے زیادہ تنگ نہیں کیا۔
وجہ یہی تھی کہ ایک تو میری کوالیفیکیشن اس پوسٹ کے لیئے موضوں تھی۔اور جب سے میں نے یہ ہوٹل جوائن کیا تھا کھبی غیر ضرُوری چھٹی نہیں کی۔ کھبی دیر سے نہ آیا نہ وقت سے پہلے گیا۔ کھبی فنانس میں گڑبڑ نہیں کی۔ سٹاف مُجھ سے خُوش تھا اور میں سٹاف سے۔ گیسٹس کے مسائل کو غور سے سُنتا اور اُنہیں پہلی ترجیح میں حل کرتا۔ یہ مانا کہ کام کے نیچر کی وجہ سے کُچھ آرام طلب ہوگیا تھا مگر اُنہیں میری کوئی شکایت کھبی موصُول نہیں ہوئی تھی۔ تو پھر وہ کیسے مُجھے کھونے کا رسک لے سکتے تھے۔ اس سے ایک بات یہ بھی پتہ چلتی ہے کہ یہ پرائیویٹ بزنس تھا تو اُنہیں میرٹ کی قدر کی تھی بجائے اپنے چہیتوں کی فرمائیشیں پُوری کرنے کے۔ ہاں اگر یہ اپنے وطن کا کوئی سرکاری ادارہ ہوتا تو قابل سے قابل شخص کو پھینک دیا جاتا اپنوں کو خُوش کرنے کے لیئے۔
اس کہانی سے میرا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ اگر آرام دہ اور اپنی پسند کا کام نہ ملے تو باقی کام بھی مت کرنا۔ بلکہ یہ کہانی بیان کرنے کا مقصد تھا کہ جب مُجھ جیسا معمُولی ورکر اپنے ذرائع بنا کر اُن سے اپنے مطلب کی معلُومات وصُول کرسکتا ہے تو ایک ایٹمی طاقت کیوں نہیں۔اور اگر آپ سچ پر ہیں تو اپنے حق کے لیئےکیسے کھڑا ہوا جاتا ہے۔ بشرطیکہ آپ مضبُوط مورال والے ہوں۔ یہ نہ کہ پیسے کی چوری و حرامخوری کی وجہ سے مضبُوط اہل و ایال والے۔
ٹرمپ کی بکواس اور اُس پر اپنے مُلک کی بے بسی سے وہ وقت یاد آیا۔ کہ اپنے ذرائع اور اپنے حق میں بنائی جانے والی لابی کیسے مُشکل وقت میں کام آیا کرتی ہے۔ اگر ہمارے ریاستی ادارے بجائے ۔۔ میرا قصُور کیا ہے اور مُجھے کیوں نکالا ۔۔جیسے مضحکہ خیز اور پٹے ہوئے ڈائیلاگز والوں جیسے ناثوروں پر اپنا اور قوم کا وقت برباد کرنے کے بجائے ساری توجہ مُلک کے مفاد پر لگاتے ۔ اُس کے لیئے ہر اہم جگہ اپنے حق میں لابیز اور معلُوماتی ذرائع بناتے اور ان حرامخوروں کی چمڑیاں اُدھیڑ کر یا پگلا کر مُلک کی دولت نکلاتے تو ایسے بے بس سے نہ دکھتے۔
اب بھی وقت ہے۔ نہ صرف اس نااہل ناثوُر کو ٹبر سمیت نشان عبرت بنانے کا۔ ان کی ساری دولت ضبط کرکے۔۔ بلکہ ان سے چھوٹے ناثُوروں سے بھی مُلک کا صفایا کرنے کا۔ اسی میں اس مُلک کی بھلائی ۔ مفاد اور مُستقبل ہے۔اللہ پاکستان کو سلامت رکھے اور ہم سب کو ایمان کی قوت عطا فرمائے ۔ آمین۔
http://facebook.com/JANI1JANI1/
Last edited: