Syed Haider Imam
Chief Minister (5k+ posts)
[FONT=&]پرویز خٹک کی محکمہ پولیس میں مداخلت
تحریر :- سید حیدر امام
[/FONT]
[FONT=&]
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک کا ٣٠ سالہ سیاست کا تجربہ ہے . شروع شروع میں موصوف کو تحریک انصاف کے منشور پر شک تھا کے یہ سب کچھ صوبے میں نہ ممکن ہے . وہ بلین ٹری سونامی پر ہنستے تھے کے صوبے میں اتنی جگہ کہاں ھے کے بلین درخت لگا سکیں گے . تحریک انصاف کے تھنک ٹینک کے بدولت اس صوبے میں بہتری کے آثار پوری دنیا کو دکھائی دے تب جا کر موصوف کو یقین ہوا کے یہ سب ممکن ہے . یہ میں سب اپنی طرف سے نہیں لکھ رہا بلکے انکے مختلف انٹرویوز کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں. انکے ٣ سالہ دور اقتدار میں انکی مہارت صرف سیاست میں نظر اتی ہے . سیاسی جوڑ توڑ کے وہ ماہر لگتے ہیں . پرویز خٹک صاحب تحرک انصاف گھر کے وہ بھیدی ہیں جو خود ہی لنکا ڈھا دیتے ہیں . تحریک انصاف کا منشور کرپشن کا ختم تھا. عمران خان نے پورے پاکستان کو کرشن پر اپاہج کر دیا ہے مگر قسمت کی ستم ظریفی کے یہ اپنے ہی صوبے میں سیاسی مصلحت کا شکار ہیں کے حریف ناراض نہ ہوں جائیں اور انکی حکومت ختم نہ ہو جاے . میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو . ایک اچھا بھلا ادارہ ٹیک اوف کرنے والا تھا کے موصوف نے سیاسی مصلحت کے تحت اسکے قوانین میں تبدیلی کر دی . اس ادارے کے سربراہ نے سیاسی مداخلت کی وجہ سے ادارہ چھوڑ دیا . پارٹی نے اسسمبلی میں قانون تبدیل کر دیا تاکے ادارہ بہتر کام سکے مگر دھاک کے تین پات ، یہ ادارہ اب تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکا
پولیس کا محکمہ جناب ناصر درانی کی ذاتی کاوش کی وجہ سے پورے پاکستان میں پہچانا جانے لگا . خیبر پختونخوا پولیس نے پاکستان آرمی کے آپریشن ضرب حزب میں بھر پور مدد کی اور انکے مشن کو اس صوبے میں کامیابی سے ہمکنار کیا . مگر یہ کامیابی جناب پرویز خٹک سے دیکھی نہیں جا رہی کے ایک پولیس چیف انسے زیادہ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے . انہوں نے ایک تھانے پر دھاوا بول کر وہاں کے پورے عملے کو شہباز شریف طرز پر معطل کر دیا . بیشک پولیس غلط ہو گی ، بیشک پولیس نے غیر قانونی طور پر بندے کو زیر حراست رکھا تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے جب یہ طے پا گیا تھا کے پولیس کے محکمے میں سیاسی مداخلت نہیں ہو تو پرویز خٹک نے ایسا کیوں کیا ؟
پرویز خٹک خود شہباز شریف بننے کی بجاے ناصر خان درانی کو محکمانہ کروائی کرنے کی درخواست کر سکتے تھے اور درانی صاحب کے محکمے کا ریکارڈ ہے کے وہ ایکشن لیتے ہیں تو پھر ایسی کیا موت ا پڑی تھی کے پرویز خٹک کو پولیس کے محکمے میں در اندازی کرنا پڑ رہی ہے ؟
کیا وہ پولیس چیف ناصر خان درانی کی شوھرت سے خائف ہو گئے ہیں ؟
پولیس کا طریقہ واردات تو شائد کبھی بھی ختم نہ ہو ، مگر وزیراعلیٰ کی اچانک دبنگ انٹری آخر ہمیں کیا پیغام دے رہی ہے ؟
[/FONT]
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک کا ٣٠ سالہ سیاست کا تجربہ ہے . شروع شروع میں موصوف کو تحریک انصاف کے منشور پر شک تھا کے یہ سب کچھ صوبے میں نہ ممکن ہے . وہ بلین ٹری سونامی پر ہنستے تھے کے صوبے میں اتنی جگہ کہاں ھے کے بلین درخت لگا سکیں گے . تحریک انصاف کے تھنک ٹینک کے بدولت اس صوبے میں بہتری کے آثار پوری دنیا کو دکھائی دے تب جا کر موصوف کو یقین ہوا کے یہ سب ممکن ہے . یہ میں سب اپنی طرف سے نہیں لکھ رہا بلکے انکے مختلف انٹرویوز کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں. انکے ٣ سالہ دور اقتدار میں انکی مہارت صرف سیاست میں نظر اتی ہے . سیاسی جوڑ توڑ کے وہ ماہر لگتے ہیں . پرویز خٹک صاحب تحرک انصاف گھر کے وہ بھیدی ہیں جو خود ہی لنکا ڈھا دیتے ہیں . تحریک انصاف کا منشور کرپشن کا ختم تھا. عمران خان نے پورے پاکستان کو کرشن پر اپاہج کر دیا ہے مگر قسمت کی ستم ظریفی کے یہ اپنے ہی صوبے میں سیاسی مصلحت کا شکار ہیں کے حریف ناراض نہ ہوں جائیں اور انکی حکومت ختم نہ ہو جاے . میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو . ایک اچھا بھلا ادارہ ٹیک اوف کرنے والا تھا کے موصوف نے سیاسی مصلحت کے تحت اسکے قوانین میں تبدیلی کر دی . اس ادارے کے سربراہ نے سیاسی مداخلت کی وجہ سے ادارہ چھوڑ دیا . پارٹی نے اسسمبلی میں قانون تبدیل کر دیا تاکے ادارہ بہتر کام سکے مگر دھاک کے تین پات ، یہ ادارہ اب تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکا
پولیس کا محکمہ جناب ناصر درانی کی ذاتی کاوش کی وجہ سے پورے پاکستان میں پہچانا جانے لگا . خیبر پختونخوا پولیس نے پاکستان آرمی کے آپریشن ضرب حزب میں بھر پور مدد کی اور انکے مشن کو اس صوبے میں کامیابی سے ہمکنار کیا . مگر یہ کامیابی جناب پرویز خٹک سے دیکھی نہیں جا رہی کے ایک پولیس چیف انسے زیادہ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے . انہوں نے ایک تھانے پر دھاوا بول کر وہاں کے پورے عملے کو شہباز شریف طرز پر معطل کر دیا . بیشک پولیس غلط ہو گی ، بیشک پولیس نے غیر قانونی طور پر بندے کو زیر حراست رکھا تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے جب یہ طے پا گیا تھا کے پولیس کے محکمے میں سیاسی مداخلت نہیں ہو تو پرویز خٹک نے ایسا کیوں کیا ؟
پرویز خٹک خود شہباز شریف بننے کی بجاے ناصر خان درانی کو محکمانہ کروائی کرنے کی درخواست کر سکتے تھے اور درانی صاحب کے محکمے کا ریکارڈ ہے کے وہ ایکشن لیتے ہیں تو پھر ایسی کیا موت ا پڑی تھی کے پرویز خٹک کو پولیس کے محکمے میں در اندازی کرنا پڑ رہی ہے ؟
کیا وہ پولیس چیف ناصر خان درانی کی شوھرت سے خائف ہو گئے ہیں ؟
پولیس کا طریقہ واردات تو شائد کبھی بھی ختم نہ ہو ، مگر وزیراعلیٰ کی اچانک دبنگ انٹری آخر ہمیں کیا پیغام دے رہی ہے ؟
[/FONT]
[FONT=&]
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1103908965&Issue=NP_PEW&Date=20161211
Wrap UP
[/FONT]
پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہے کے تحریک انصاف اور باقی پارٹیوں می فرق کیا ہے ، فرق یہ ہے کے تحریک انصاف اداروں کی بحالی چاہتی ہے اور وہ اداروں کے سربراہان کو کسی پارٹی کا ذاتی ملازم ہونے کی بجاے عوام ، صوبے اور ملک کا ملازم بنانے کے لئے سرگرم ہیں . تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بھی سینہ پیٹ پیٹ کر خیبر پختونخوا میں ہونے والی تبدیلیوں کا کریڈٹ لیتا ہے . تحریک انصاف کے لیڈر اور صوبے کے وزیراعلیٰ اور تمام صوبے کے سیاست دان خیبر پختونخوا میں ہونے والی پولیس ریفارمز اور اسکی کامیابیوں کا کریڈٹ لیتی ہے ہے کے انہوں نے صوبے کے وزیراعلیٰ نے انسپکٹر جنرل پولیس کو فری ہینڈ دیا . درانی صاحب نے نے تمام سیاستدانوں کو پچھاڑ دیا اور اپنی لیڈرشپ پورے پاکستان اور دنیا میں ثابت کی .
پھر اچانک کیا ہوتا ہے کے ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ، ایک چھوٹے سے تھانے میں جا کر عملے کو معطل کر دیتا ہے . بظاھر یہ انکا حق تھا . اگر اپ روزنامہ ایکسپریس کی خبر پڑھیں ، اس میں رپورٹ کیا گیا ہے کے وزیراعلیٰ پولیس پر الزام لگاتے ہیں کے وہ لوگوں کو غیر قانونی حبس جا میں رکھتی ہے ، ناکے لگا کر لوگوں کو تنگ کرتی ہے . خٹک صاحب کے بقول وہ پولیس کو بے لگام نہیں چھوڑ سکتے . اب یہاں پر بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں
١- تھانیدار کسی انسپکٹر یا ڈی اس پی کے نیچے ہو گا . وزیراعلیٰ کا منصب یہ اجازت نہی دیتا کے وہ کسی تھانیدار سے ڈائریکٹ ڈیلنگ کریں یہ اس منصب کی توہین ہے . کل وہ کس ٹریفک اہلکار ، کسی دفتر کے کلرک کے گلے پڑے ہوں گے تو انکا اپنا کام کون کرے گا . انسپکٹر جنرل پولیس ، درانی صاحب ڈائریکٹ صوبے کے وزیراعلیٰ کے نیچے اتے ہیں . انکے پاس اگر عوام کی شکایت تھیں تو وہ براہ راست درانی صاحب کو طلب کر کے انکوائری کر سکتے تھے مگر یہ طالبان اور شہباز طرز پر آپریشن اس عھدے کے ساتھ مذاق ہے
٢- تحریک انصاف کی حکومت اشتہار دیتی ہے کے اگر عوام کو پولیس سے شکائت ہے تو وہ ٹیکسٹ میسج کر کے شکایات درج کروا سکتے ہیں . اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کے وہ سب بکواس ہے. اگر آپکو محکمے سے شکایات ہیں تو وزیراعلیٰ کو رابطہ کریں
٣- عمران خان پورے پاکستان میں کھپ ڈال رہیں ہیں کے ہم نے پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد اور بااختیارادارہ بنا دیا ہے جسکی وجہ سے پولیس عوام دوست بن چکی ہے اور پولیس نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں ہیں . اگر وزیراعلیٰ کی تھانے والی باتیں پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کے پولیس شتر بے مہار ہے ، لوگوں کو غیر قانونی طور پر محبوس رکھتی ہے ، ایف ای آر درج نہی کرتی، رکاوٹیں کھڑی کر کے ٹریفک میں خلل ڈالتی ہے اور پولیس بے لگام ہے جسے لگام دینے کی ضرورت ہے . جب ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے صوبے کی پولیس کے بارے میں یہ تاثرات ظاہر کرے گا تو باقی پیچھے کیا بچتا ہے ؟.
اب سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ؟
کیا عمران خان پاکستان کے عوام سے جھوٹ بول رہیں ہیں ؟
کیا صوبے کے وزیراعلیٰ پہلے جھوٹ بول رہے تھے اور اب سچ بول رہیں ہیں . آخر کونسے والا سچ ہے ؟
کیا صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے گندے کپڑے اپنی سیاست چمکانے کے لئے بیچ چوک میں دھوے گا ؟
بہت سی باتیں نوشہ نوسہ دیوار پر پڑھیں جا سکتی ہیں اور بہت سی باتیں کسی کے چہرے پر لکھی تحریر اور طرز عمل سے پڑھتے ہیں . لگتا یہ ہے کے موصوف وزیراعلیٰ اپنے صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کو کوئی پیغام دینا چاہتے تھے
کیا یہ پیغام انسپکٹر جنرل پولیس سمجھ چکے ہیں ؟
کیا انسپکٹر جنرل پولیس ، احتساب کمیشن کے جنرل کی طرح مستقبل میں استعفیٰ دیں گے یا وہ بھی سیدھے ہاتھ کی ایک دیں گے ؟
پرویز خٹک نے احتساب کمیشن کی طرح پولیس کے محکمے میں پہلا شگاف ڈال دیا ہے ، اب یہ شگاف کتنا بڑھے گا ؟
Wrap UP
[/FONT]
[FONT=&]
[/FONT]
یہ واقعہ بظاھر ایک عام واقعہ نظر اتا ہے جسے کسی نے کوئی خاص اہمیت نہی دی مگر یہ واقعہ صوبے میں ہونے والی پولیس ریفارمز پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے [/FONT]
پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہے کے تحریک انصاف اور باقی پارٹیوں می فرق کیا ہے ، فرق یہ ہے کے تحریک انصاف اداروں کی بحالی چاہتی ہے اور وہ اداروں کے سربراہان کو کسی پارٹی کا ذاتی ملازم ہونے کی بجاے عوام ، صوبے اور ملک کا ملازم بنانے کے لئے سرگرم ہیں . تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بھی سینہ پیٹ پیٹ کر خیبر پختونخوا میں ہونے والی تبدیلیوں کا کریڈٹ لیتا ہے . تحریک انصاف کے لیڈر اور صوبے کے وزیراعلیٰ اور تمام صوبے کے سیاست دان خیبر پختونخوا میں ہونے والی پولیس ریفارمز اور اسکی کامیابیوں کا کریڈٹ لیتی ہے ہے کے انہوں نے صوبے کے وزیراعلیٰ نے انسپکٹر جنرل پولیس کو فری ہینڈ دیا . درانی صاحب نے نے تمام سیاستدانوں کو پچھاڑ دیا اور اپنی لیڈرشپ پورے پاکستان اور دنیا میں ثابت کی .
پھر اچانک کیا ہوتا ہے کے ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ، ایک چھوٹے سے تھانے میں جا کر عملے کو معطل کر دیتا ہے . بظاھر یہ انکا حق تھا . اگر اپ روزنامہ ایکسپریس کی خبر پڑھیں ، اس میں رپورٹ کیا گیا ہے کے وزیراعلیٰ پولیس پر الزام لگاتے ہیں کے وہ لوگوں کو غیر قانونی حبس جا میں رکھتی ہے ، ناکے لگا کر لوگوں کو تنگ کرتی ہے . خٹک صاحب کے بقول وہ پولیس کو بے لگام نہیں چھوڑ سکتے . اب یہاں پر بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں
١- تھانیدار کسی انسپکٹر یا ڈی اس پی کے نیچے ہو گا . وزیراعلیٰ کا منصب یہ اجازت نہی دیتا کے وہ کسی تھانیدار سے ڈائریکٹ ڈیلنگ کریں یہ اس منصب کی توہین ہے . کل وہ کس ٹریفک اہلکار ، کسی دفتر کے کلرک کے گلے پڑے ہوں گے تو انکا اپنا کام کون کرے گا . انسپکٹر جنرل پولیس ، درانی صاحب ڈائریکٹ صوبے کے وزیراعلیٰ کے نیچے اتے ہیں . انکے پاس اگر عوام کی شکایت تھیں تو وہ براہ راست درانی صاحب کو طلب کر کے انکوائری کر سکتے تھے مگر یہ طالبان اور شہباز طرز پر آپریشن اس عھدے کے ساتھ مذاق ہے
٢- تحریک انصاف کی حکومت اشتہار دیتی ہے کے اگر عوام کو پولیس سے شکائت ہے تو وہ ٹیکسٹ میسج کر کے شکایات درج کروا سکتے ہیں . اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کے وہ سب بکواس ہے. اگر آپکو محکمے سے شکایات ہیں تو وزیراعلیٰ کو رابطہ کریں
٣- عمران خان پورے پاکستان میں کھپ ڈال رہیں ہیں کے ہم نے پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد اور بااختیارادارہ بنا دیا ہے جسکی وجہ سے پولیس عوام دوست بن چکی ہے اور پولیس نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں ہیں . اگر وزیراعلیٰ کی تھانے والی باتیں پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کے پولیس شتر بے مہار ہے ، لوگوں کو غیر قانونی طور پر محبوس رکھتی ہے ، ایف ای آر درج نہی کرتی، رکاوٹیں کھڑی کر کے ٹریفک میں خلل ڈالتی ہے اور پولیس بے لگام ہے جسے لگام دینے کی ضرورت ہے . جب ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے صوبے کی پولیس کے بارے میں یہ تاثرات ظاہر کرے گا تو باقی پیچھے کیا بچتا ہے ؟.
اب سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ؟
کیا عمران خان پاکستان کے عوام سے جھوٹ بول رہیں ہیں ؟
کیا صوبے کے وزیراعلیٰ پہلے جھوٹ بول رہے تھے اور اب سچ بول رہیں ہیں . آخر کونسے والا سچ ہے ؟
کیا صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے گندے کپڑے اپنی سیاست چمکانے کے لئے بیچ چوک میں دھوے گا ؟
بہت سی باتیں نوشہ نوسہ دیوار پر پڑھیں جا سکتی ہیں اور بہت سی باتیں کسی کے چہرے پر لکھی تحریر اور طرز عمل سے پڑھتے ہیں . لگتا یہ ہے کے موصوف وزیراعلیٰ اپنے صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کو کوئی پیغام دینا چاہتے تھے
کیا یہ پیغام انسپکٹر جنرل پولیس سمجھ چکے ہیں ؟
کیا انسپکٹر جنرل پولیس ، احتساب کمیشن کے جنرل کی طرح مستقبل میں استعفیٰ دیں گے یا وہ بھی سیدھے ہاتھ کی ایک دیں گے ؟
پرویز خٹک نے احتساب کمیشن کی طرح پولیس کے محکمے میں پہلا شگاف ڈال دیا ہے ، اب یہ شگاف کتنا بڑھے گا ؟
Last edited: