redaxe
Politcal Worker (100+ posts)
پاکستان نے ایک مرتبہ پھر پاک افغان سرحد پر خار دار تاریں اور بارودی سرنگیں بچھانے کا منصوبہ تیار کیا ہے تاکہ افغانستان کی جانب سے مسلح شدت پسندوں کی در اندازی کو روکا جا سکے۔
یہ منصوبہ حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے سرحدی ضلع دیر بالا اور قبائلی علاقے مہمند ایجنسی اور باجوڑ ایجنسی میں سرحد پار سے مسلح افراد کے حملوں کے بعد تیار کیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی سرحد پر پاکستان کی جانب خار دار تاریں بچھائی جائیں گی اور جہاں تاریں نہیں بچھائی جا سکیں گی وہاں بارودی سرنگیں نصب کی جائیں گی۔
فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے حکام نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا ہے کہ پاک افغان سرحد چوبیس سو کلومیٹر طویل ہے اور ساری سرحد پر فورسز کو تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے یہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے کہ سرحد پر خار دار تاریں اور بارودی سرنگیں بچھائی جائیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ اس سے مسلح شدت پسندوں کے راستے مکمل طور پر بند ہو جائیں گے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس سے ان کے لیے مشکلات ضرور پیدا ہوں گی اور ایسے واقعات میں کمی آ جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ فی الحال یہ منصوبہ بنایا گیا ہے اور اسے ہر فورم پر سامنے لایا جائے جس میں افغان حکومت اور دیگر گروپ شامل ہیں تاکہ شدت پسندوں کے راستے روکے جائیں اور اس کے بعد اس پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔
نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران اپر دیر، مہمند ایجنسی اور باجوڑ ایجنسی میں افغانستان کی جانب سے آئے ہوئے مسلح شدت پسندوں کے تین حملے ہو چکے ہیں جن میں پولیس لیویز اور ایف سی کا جانی نقصان بھی ہوا ہے۔
خار دار تاریں اور بارودی سرنگیں بچھانے کا منصوبہ دو مرتبہ پہلے بھی تیار کیا گیا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ پہلی مرتبہ دسمبر سنہ دو ہزار چھ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان افغان سرحد پر خار دار تاریں بچھائے گا۔
اس کے بعد سنہ دو ہزار نو میں یہ معاملہ پھر اٹھایا گیا لیکن اس مرتبہ بھی اس منصوبے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت مختلف مقامات پر کوئی پینتیس کلومیٹر تک سرحدپر خار دار تاریں بچھائی گئی تھیں اور اس کے بعد اس منصوبے پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا جس کی وجہ فنڈز کی کمی بتائی گئی تھی۔
افغان حکومت، افغانستان میں تعینات اتحادی افواج اور سرحد کے دونوں جانب آباد لوگوں نے پاکستان کے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔
ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اس منصوے سے دونوں ممالک کی سرحد پر آباد لوگ تقسیم ہو کر رہ جائیں گے۔ پاک افغان سرحد کی دونوں جانب لوگوں کی رشتہ داریاں ہیں اور یہ لوگ سرحد پار ملتے جلتے ہیں۔
پاک افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے اور سرحد کی نشاندہی اٹھارہ سو بارہ میں اس وقت ہندوستان میں تعینات برطانوی سیکرٹری خارجہ سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے رکھی تھی۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں رائے عامہ بارودی سرنگوں کے سخت خلاف ہے اور اقوامِ متحدہ نے گزشتہ ہفتے ہی نیپال کو بارودی سرنگوں سے پاک ملک قرار دیا تھا جب نیپال کی فوج نے خانہ جنگی کے پانچ سال بعد ملک میں موجود آخری بارودی سرنگ کو تباہ کیا۔نیپال چین کے بعد دوسرا ملک ہے جسے اقوامِ متحدہ نے باردوی سرنگوں سے پاک قرار دیا ہے۔
مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایسے حالات میں پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر بارودی سرنگیں نصب کرنے کے منصوبے کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
source:
یہ منصوبہ حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے سرحدی ضلع دیر بالا اور قبائلی علاقے مہمند ایجنسی اور باجوڑ ایجنسی میں سرحد پار سے مسلح افراد کے حملوں کے بعد تیار کیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی سرحد پر پاکستان کی جانب خار دار تاریں بچھائی جائیں گی اور جہاں تاریں نہیں بچھائی جا سکیں گی وہاں بارودی سرنگیں نصب کی جائیں گی۔
فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے حکام نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا ہے کہ پاک افغان سرحد چوبیس سو کلومیٹر طویل ہے اور ساری سرحد پر فورسز کو تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے یہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے کہ سرحد پر خار دار تاریں اور بارودی سرنگیں بچھائی جائیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ اس سے مسلح شدت پسندوں کے راستے مکمل طور پر بند ہو جائیں گے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس سے ان کے لیے مشکلات ضرور پیدا ہوں گی اور ایسے واقعات میں کمی آ جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ فی الحال یہ منصوبہ بنایا گیا ہے اور اسے ہر فورم پر سامنے لایا جائے جس میں افغان حکومت اور دیگر گروپ شامل ہیں تاکہ شدت پسندوں کے راستے روکے جائیں اور اس کے بعد اس پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔
نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران اپر دیر، مہمند ایجنسی اور باجوڑ ایجنسی میں افغانستان کی جانب سے آئے ہوئے مسلح شدت پسندوں کے تین حملے ہو چکے ہیں جن میں پولیس لیویز اور ایف سی کا جانی نقصان بھی ہوا ہے۔

خار دار تاریں اور بارودی سرنگیں بچھانے کا منصوبہ دو مرتبہ پہلے بھی تیار کیا گیا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ پہلی مرتبہ دسمبر سنہ دو ہزار چھ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان افغان سرحد پر خار دار تاریں بچھائے گا۔
اس کے بعد سنہ دو ہزار نو میں یہ معاملہ پھر اٹھایا گیا لیکن اس مرتبہ بھی اس منصوبے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت مختلف مقامات پر کوئی پینتیس کلومیٹر تک سرحدپر خار دار تاریں بچھائی گئی تھیں اور اس کے بعد اس منصوبے پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا جس کی وجہ فنڈز کی کمی بتائی گئی تھی۔
افغان حکومت، افغانستان میں تعینات اتحادی افواج اور سرحد کے دونوں جانب آباد لوگوں نے پاکستان کے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔
ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اس منصوے سے دونوں ممالک کی سرحد پر آباد لوگ تقسیم ہو کر رہ جائیں گے۔ پاک افغان سرحد کی دونوں جانب لوگوں کی رشتہ داریاں ہیں اور یہ لوگ سرحد پار ملتے جلتے ہیں۔
پاک افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے اور سرحد کی نشاندہی اٹھارہ سو بارہ میں اس وقت ہندوستان میں تعینات برطانوی سیکرٹری خارجہ سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے رکھی تھی۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں رائے عامہ بارودی سرنگوں کے سخت خلاف ہے اور اقوامِ متحدہ نے گزشتہ ہفتے ہی نیپال کو بارودی سرنگوں سے پاک ملک قرار دیا تھا جب نیپال کی فوج نے خانہ جنگی کے پانچ سال بعد ملک میں موجود آخری بارودی سرنگ کو تباہ کیا۔نیپال چین کے بعد دوسرا ملک ہے جسے اقوامِ متحدہ نے باردوی سرنگوں سے پاک قرار دیا ہے۔
مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایسے حالات میں پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر بارودی سرنگیں نصب کرنے کے منصوبے کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/06/110623_pak_afghan_border_zz.shtml