پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال, پاکستان سمندر میں دنیا کے چوتھے بڑے گیس اور تیل کے ذخائر کا انکشاف ہوا,اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے اس بڑی خوشخبری کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا دوست ملک کے ساتھ مل کر جیوگرافک سروے کا کام مکمل کرلیا گیا ہے، سروے میں تقریباً 3 سال سے زائد کا عرصہ لگا۔
سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ سمندر میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر کی جگہ کی نشاندہی بھی کرلی گئی ہے جبکہ تیل و گیس کے ذخائر کا اندازہ بھی لگا لیا گیا ہے۔
تیل و گیس کی صنعت کے ماہر و سابق ممبر اوگرا محمد عارف نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سمندر میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہونا یقیناً بہت بڑی خبر ہے لیکن اس کے ہر مرحلے پر بہت اگر اور مگر بھی موجود ہیں، اگر دوست ملک کے ساتھ مل کر اتنے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں تو ہم ان شااللہ انہیں نکال بھی لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی زیر سمندر تیل و گیس کے ذخائر دریافت کرنے کی کئی بار کوششیں ہوچکی ہیں لیکن ہماری کمزور معیشت کی وجہ سے ہم ڈرلنگ کے اخراجات برداشت نہیں کر پاتے اور جتنی بار ڈرلنگ ہونی چاہیے تھی اتنی بار نہیں ہوئی، اب اگر پہلے سے زیادہ ڈیٹا دستیاب ہے تو جلد از جلد دوبارہ ڈرل ہونی چاہیے کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ پاکستان کے آف شور میں کوئی ذخائر نہ ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ تیل کے ذخائر کی دریافت گیم چینجر ثابت ہوگی، جبکہ گیس کے ذخائر ملنے سے معاشی لحاظ سے قسمت بدل سکتی ہے۔محمد عارف نے ان ذخائر کو سسٹم میں لانے کے لیے درکار عرصے سے متعلق کہا کہ یہ ذخائر کے رقبے کے سائز پر منحصر ہے، اگر ایک ہی دریافت ایسی جس کی پیداوار اور سائز دونوں زیادہ ہو تو پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے اور پاکستان کا تمام بیرونی قرضہ بھی اتر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تیل و گیس کے ذخائر تلاش کرنے والی پاکستانی کمپنیاں مل کر کوئی کنسورشیم بنا لیتی ہیں اور جس دوست ملک کے ساتھ مل کر یہ سروے کیا گیا ہے اس کے ساتھ کوئی اسٹریٹجک ایسوسی ایشن بناکر جتنی جلدی ڈرلنگ کا آغاز کریں گی اتنی جلدی یہ ذخائر دریافت کر پائیں گے۔
محمد عارف نے بتایا کہ ڈرلنگ کے ذخائر کا تعین کرنے کے مرحلے تک پہنچنے کے لیے بھی ہمیں 40 سے 50 کروڑ ڈالر درکار ہوں گے، اس کے بعد ایک آف شور کے کنویں کے لیے 10 سے 15 کروڑ ڈالر کے اخراجات آتے ہیں، پھر اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ذخائر اس سائز کے ہیں کہ جس کے لیے ہمیں پائپ لائن و گیس پروسیسنگ سسٹم لگانے کی ضرورت ہے تو گنجائش سے لحاظ سے 50 کروڑ سے ایک ارب ڈالر درکار ہوں گے۔واضح رہے کہ پاکستان کا سمندر 3 ہزار کلومیٹر طویل ہے۔