پاکستان کے حالات اور حکومتی دورے

Arslan

Moderator
ہم شاعر شاعر ادیب ہیں۔ یہ مصرعہ ہمیں بہت یاد ہے۔ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ (میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا) مگر شہباز شریف کو ترکی بھی آتی ہے۔ انہیں کئی زبانیں آتی ہیں۔ انہوں نے یارمن سے تو شاید کوئی مکالمہ نہیں کیا ہو گا مگر یاروں اور سیاسی یاروں سے ضرور ترکی میں بات چیت کر کے انہیں حیران کر دیا ہو گا۔ شہباز شریف نے پشاور سانحے کے سوگ میں اپنی سالگرہ کی تقریبات منسوخ کر دی ہیں۔ خیبر پختون خواہ حکومت کو پورے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے پرویز خٹک کو فون کیا مگر پرویز خٹک تو گھر سے بھی نہیں نکلے۔ یہ عجب وقت ہے کہ نوازشریف اقوام متحدہ گئے ہیں۔ اُن کی ملاقات صدر اوبامہ اور من موہن سے بھی ہو گی۔ ان کے لئے مشکلات پیدا کی گئی ہیں۔ طالبان مذاکرات کے لئے نوازشریف کہتے ہیں کہ اب ہم طالبان سے مذاکرات کی سوچ کو آگے بڑھانے سے قاصر ہیں۔ یہ بم دھماکہ مسیحی برادری کے خلاف ہوا ہے مگر یہ اصل میں نوازشریف کے خلاف کوئی سازش ہے۔ عمران خان بھی غور کریں۔ ضمنی الیکشن میں مولانا کو ہرانے کے بعد لگتا ہے کہ ایک بار پھر وہ بلندی سے گر پڑے ہوں۔ وہ پرویز خٹک کی سرزنش کریں۔ وہ گرجا گھر کیوں نہ گئے۔ صوبے کی پولیس کہاں تھی؟ پرویز خٹک تو مالاکنڈ سوات سے فوج واپس بلانا چاہتے تھے۔ اُن کو پشاور ہائی کورٹ نے بچا لیا ہے۔ پرویز خٹک کے مقاصد کیا ہیں؟


ترکی میں نوازشریف کو تمغہ جمہوریت دیا تھا جمہوریت کے لئے نوازشریف کے علاوہ آرمی چیف جنرل کیانی تمغہ جمہوریت کے مستحق ہیں۔ انہیں خود نوازشریف تمغہ جمہوریت دیں۔ جنرل اسلم بیگ کی جمہوریت کے لئے خاص خدمات نہیں ہیں مگر انہیں وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے تمغہ جمہوریت دیا تھا۔ انہیں کسی نے مارشل لاءلگانے نہیں دیا تھا۔ اعجازالحق نے جنرل ضیا کا طیارہ گرانے میں جنرل اسلم بیگ کا نام اب لیا ہے۔ یہ بعد از وقت اقدام ہے۔ اعجازالحق حوصلہ کریں اور اپنے موقف پر ڈٹ جائیں۔ جمہوریت کے لئے جنرل کیانی کی معرکہ آرائیوں سے سب واقف ہیں۔

شہباز شریف نے کہا ہے کہ ترکی سے دوستی معاشی تعلقات میں بدل رہے ہیں۔ یہ تو بہت پہلے سے ہو رہا ہے۔ نوازشریف وزیراعظم نہیں تھے مگر شہباز شریف صدر زرداری کے زمانے میں وزیراعلیٰ پنجاب تھے اور خاصے اپوزیشن لیڈر قسم کے وزیراعلیٰ تھے۔ وہ کئی بار ترکی گئے۔ لاہور کی میٹرو بس کے لئے بھی ترکی کا عملی تعاون حاصل تھا۔ لاہور کی صفائی اور خوبصورتی کے لئے بھی ترکی والے بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ مگر ہمیں گند پھیلانے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ ترکی کے ساتھ آجکل پاکستان اور شریف برادران کے تعلقات بہت آئیڈیل ہیں اور یہ ایک اچھی بات ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ دورہ ترکی ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اللہ کرے اس کا انجام بھی اچھا ہو۔ ماضی میں صدر ایوب دور میں پاکستان ترکی اور ایران میں بہت اعلیٰ دوستانہ تعلقات تھے۔ اس معاہدے کو آر سی ڈی کہا جاتا تھا۔ پھر درمیان میں کچھ ہو گیا۔ مگر اب جو ہو رہا ہے وہ حیران کن اور خوشگوار ہے۔


شریف برادران نے سعودی عرب ترکی اور چین کے ساتھ اچھے روابط کی کئی راہیں نکالی ہیں مگر اس میں معاشی اور تجارتی معاملات کو بہت دخل ہے۔ آجکل قوموں اور ملکوں کے معاملات معاشی مفادات کے مطابق چلتے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں بھی اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں صرف اتنی احتیاط کی ضرورت ہے کہ معاشی اور تجارتی معاملات قومی مفادات کے مطابق ہوں۔ کاروبار منفی رنگ میں بھی لیا جاتا ہے۔ یہ سلسلے قومی ہونا چاہئیں۔ ذاتی نہیں ہونا چاہئیں۔ سعودی عرب میں نوازشریف نے سٹیل مل لگائی ہے۔ اس کا فائدہ پاکستان اور پاکستانیوں کو بھی ہونا چاہئے۔ دروغ بر گردن راوی یہ بھی بات کہیں ہو رہی تھی کہ سعودی عرب کی سٹیل مل میں زیادہ تر کام کرنے والے بھارتی ہیں سعودی عرب سے پاکستانیوں کو نکالنے کی کوشش ہو رہی تھی مگر اب رُک گئی ہے۔ اس میں شریف برادران کی بھی کوششیں شامل ہوں گی۔


کراچی میں پاکستان سٹیل مل برباد ہو گئی ہے۔ وہاں دوبارہ ایک مخلص محب وطن محنتی اور ماہر آدمی میجر جنرل (ر) جاوید کو لگایا گیا۔ انہوں نے سٹیل مل کے لئے بڑی جفاکشی جواں مردی اور حکمت و بصیرت سے سٹیل مل کو سیدھے راستے پر لگا دیا تھا۔ پھر اُنہیں کیوں ہٹایا گیا۔ بعد میں دوبارہ لگایا گیا مگر اس بار دل و جان سے کوشش کے باوجود حالت نہ سنبھل سکی۔ تو وہ نیم دلی سے استعفٰی دے کے آ گئے۔ یہ سٹیل مل سوویت یونین (روس) نے لگا کے دی تھی۔ نجانے اسے کس کی نظر کھا گئی۔ خود غرضانہ سازشوں کا شکار ہو کر اب وہ دیوالیہ ہونے والی ہے۔ اس طرف بھی نوازشریف کو توجہ کرنا چاہئے۔ سنا ہے چین میں بھی ان کے کاروباری سلسلے پھیلے ہوئے ہیں۔ چلیں اسی بہانے چین کے ساتھ ایک نئے زمانے کا آغاز ہونا چاہئے۔ اس کے لئے صدر زرداری نے بھی کوشش کی تھی مگر وہ پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے۔ نوازشریف نے گوادر پورٹ کا فیصلہ چین کے حق میں کیا ہے اور گوادر سے کاشغر تک موٹروے بھی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ تجارتی صورتحال بہت بہتر ہو جائے گی۔ اس کا بہت فائدہ چین کو بھی ہو گا۔ بلکہ ہم سے زیادہ چین کو ہو گا۔ ہمیں امریکہ کے ساتھ بھی ایسے ہی روابط بنانے چاہئیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت کے لئے دوستی اخلاص اعتماد اور برابری کے اصول کو ترجیح دینا چاہئے۔ چین بھارت سے بہت بڑا ملک ہے مگر وہ پاکستان کی داخلی خودمختاری اور عزت نفس کا خیال رکھتا ہے۔


ترکی بھی بہت اہم ملک ہے۔ اس کے ساتھ نئے روابط کو قدیم روابط سے ملا کے آگے بڑھانا چاہئے۔ پاکستان میں ترکی ٹوپی کا بہت رواج تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان یاد آتے ہیں اب تو نہ جناح کیپ ہے نہ ترکی ٹوپی اور نہ ماﺅ کیپ۔ انقرہ میں ایک سڑک کا نام جناح روڈ ہے۔ وہاں قائداعظم کی بہت بڑی تصویر بھی آویزاں ہے۔ لاہور میں ناصر باغ کے ساتھ استنبول چوک موجود ہے۔ ترکی یورپی یونین کے بھی قریب ہے۔ اس کی فوجیں بھی نیٹو فورسز کے ساتھ افغانستان میں موجود ہیں۔ ترکی افغانستان میں ایسے حالات چاہتا ہے جو پاکستان کے لئے خوشگوار ہوں۔ ترکی کے ساتھ شریف برادران کے بہت قریبی روابط ہیں یہ جملہ بھی سنائی دیا ہے کہ کبھی کبھی مذاق مذاق میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ اب اگر خدانخواستہ شریف برادران کو جلاوطن ہونا پڑا تو وہ ترکی جا کے رہیں گے۔ اللہ نہ کرے ایسی نوبت آئے۔ اب یہ وقت کبھی پاکستان میں نہ آئے گا کیونکہ ہماری فوج نے یہ طے کر لیا ہے کہ سیاسی نظام کو چلنے دیا جائے۔ پہلے کوئی نظام بھی پاکستان میں ثابت قدمی سے نہیں چلنے دیا گیا۔ اب جمہوریت کے پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ جانے والے صدر زرداری کو نوازشریف نے الوداعیہ دے کے ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ ترکی میں سیاستدانوں نے بڑی حکمت عملی سے فوج کو سیاست سے الگ رکھا ہے۔ شاید یہ بات بھی ترکی سے دوستی کی بنیاد ہو۔


پاکستانی سیاستدان بھی اس معاملے میں یکجا ہیں۔ انہیں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کچھ اقدامات سنجیدگی سے کرنا چاہئیں۔ لوگوں کو بھی معاشی حالت بہتر کرنے کے روزگار اور تجارت کے مواقع فراہم کرنا چاہئیں۔ ہم خود جب تک پاکستان کے حالات بدلنے کے لئے تیار نہیں ہونگے تو بات نہیں بنے گی۔ ترکی کی دوستی کیلئے ترکی بہ ترکی جواب دینے کا سلیقہ یہ ہے کہ ہم خود معاشی لحاظ سے طاقتور بن جائیں۔ یہی بات چین بھی کہتا ہے کہ آپ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوں۔ دوستوں سے تعاون تو ملتا ہے مگر جو کچھ کرنا ہے ہم نے خود کرنا ہے قرض سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔ قرض کو معاشی حالت تباہ کرنے کے لئے ایک فرض کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ نجکاری بھی ضرورت کی حد تک ٹھیک ہے مگر حکومت کو اپنے اثاثے محفوظ کرنے اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ خود انحصاری سب سے بڑی نعمت ہے۔ فوج کے ساتھ بھی حکمت اور تحمل کے ساتھ گزارا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ترکی کی مثال کو سامنے رکھا جا سکتا ہے۔


ایک اینکر پرسن نے مجھے بتایا کہ قمرالزمان کائرہ نے نوازشریف کے دورہ ترکی کے حوالے سے بات کرنا چاہی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ کہا یہ اچھی بات ہے؟ اس پر تبصرہ پھر کبھی سہی۔

source