کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا ہے کہ پاکستان کی بنیاد جس کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی ... اُس مقدس کلمے والا اسلامی نظام آج تک وطنِ عزیز میں نافذ کیوں نہیں ہوسکا...؟
جب بھی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبات کئے گئے تو اُن مطالبات کو کرنے میں پاکستان میں موجود مذہبی طبقات ہی سب سے آگے رہے... پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبات یا تو مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہوتے رہے... یا پھر مدارس ومساجد اور خانقاہوں سے اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبات دہرائے جاتے رہے... لیکن وہ سیاسی پارٹیاں اور جمہوریت پر شب خون مارنے والے جرنیل کہ پاکستان کے تخت وتاج کے وارث بنے ہوئے ہیں اور جنہوں نے یکے بعد دیگرے کبھی شیروانیاں پہن کر اور کبھی وردی پہن کر پاکستان کے اقتدار کو انجوائے کیا،اُنہوں نے چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود نہ تو کبھی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا... نہ اُن کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے آیا... بلکہ جب بھی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے نے زور پکڑا تو لبرل اور سیکولر انتہا پسند خم ٹھونک کر ایسے مطالبات کرنے والوں کے مقابلے میں اُتر آئے اور اُنہوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبات کرنے والوں پر توپوں کے گولے داغنے اور ٹینک چڑھانے سے بھی دریغ نہ کیا... آج اگر پاکستان میں ہر ڈاڑھی، پگڑی اور ٹوپی والے کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے... آج اگر سنت نبویۖ کے مطابق شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنے والوں کو ملائیت کے طعنے دیئے جاتے ہیں... آج اگر مدارس کے نصاب تعلیم کو بدلنے کی باتیں کی جاتی ہیں... تو یہ سب کچھ اچانک تو نہیں ہو گیا... بلکہ یہ نتیجہ ہے لبرل اور سیکولر شدت پسندوں کی اُن مکروہ سازشوں کا جو گزشتہ 6 دہائیوں سے بیوروکریسی اور وقت کے ہر حکمران کی زیرسرپرستی کرتے رہے ہیں... پاکستان میں موجود لبرل اور سیکولر شدت پسند تعداد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مٹھی بھر بھی نہیں ہیں... لیکن اِن مٹھی بھر سیکولر شدت پسندوں کی سرپرستی ہمیشہ ملکی اور غیرملکی حکومتوں کی طرف سے کی گئی... اُنہیں فنڈز مہیا کئے جاتے رہے... آج بھی پاکستان میں ایسی سینکڑوں این جی اوز موجود ہیں جن کا عوام میں ایک پائی کا بھی کام نہیں، لیکن بعض یورپی ممالک اُن کو کروڑوں روپے کے فنڈز مہیا کرتے ہیں... کیا کسی کے علم میں ہے کہ آخر اِن سینکڑوں این جی اوز کو کروڑوں روپے کے فنڈزمہیا کیوں کئے جاتے ہیں؟ جی ہاں اِن این جی اوز کو فنڈز اس لئے مہیا کئے جاتے ہیں تاکہ وہ کسی بھی قیمت پر پاکستان میں اِسلامی نظام کے نفاذ کو عملی شکل اختیار نہ کرنے دیں... اِن این جی اوز کا مقصد ہی اسلامی نظام کے سزائوں کو وحشیانہ قرار دینا اور اسلامی نظام کیخلاف پروپیگنڈا کرنا ہوتا ہے... غور طلب بات یہ ہے کہ آخر پوری دنیا کی کفریہ اور منافق طاقتیں اور پاکستان میں موجود لبرل اور سیکولر شدت پسند وطنِ عزیز میں اِسلامی نظام کے عملاً نفاذ سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ انہیں ڈر کِس بات کا ہے؟ جب بھی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات ہوتی ہے تو ان کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اُن کے منہ ہذیان بکنا شروع کردیتے ہیں، مختلف نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں یہ منہ بگاڑ بگاڑ کر انگلش زدہ اردو بولنے والے سیکولر شدت پسند پاکستان میں اِسلامی تحریکوں کو کچلنے کیلئے ہرقسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنا نہ صرف یہ کہ جائزبلکہ ضروری بھی سمجھتے ہیں... سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1947ء میں جس بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا ... یہ سیکولر شدت پسند یورپ کی سرپرستی میں پاکستان میں عملاً اسلامی نظام کے نفاذ کے راستے میں کب تک رکاوٹیں ڈالتے رہیں گے؟ سیکولر شدت پسندوں نے حکومتی طاقت کے بل بوتے پر پاکستان میں اگر ایک طرف میرا تھن ریس کے نام پر ایک مہذب اسلامی معاشرے میں لڑکوں اور لڑکیوں کو بھاگنے پر مجبور کیا تو دوسری طرف یہ بھی کہا گیا کہ ''یہ سب کچھ تو ایسے ہی ہوگا اگر کوئی نہیں دیکھنا چاہتا تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلے... سیکولر شدت پسندوں کی وحشت و سربریت کا عروج اسلام آباد کے قلب میں واقع تاریخی لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں اُس وقت دیکھا گیا جب پاکستان میں نفاذِ اسلام کا مطالبہ کرنے اور مساجد کی حرمت کی تحریک چلانے کے جرم میں ہزاروں برقعہ پوش معصوم بچیوں کو فاسفورس بم مار کر زندہ جلا ڈالا گیا... اور پھر جب اُس کے ردعمل میں سوات والوں نے اپنے علاقے میں نفاذِاسلام کا مطالبہ کیا تو وہاں کے 35 لاکھ لوگوں کو بے گھر کرکے وہاں سخت ترین فوجی آپریشن شروع کرکے ہزاروں لوگ مار ڈالے گئے... یہ کس قدر عجیب صورتحال ہے کہ پاکستان میں موجود تمام مذہبی طبقات نے ہمیشہ اِس ملک کی مٹی سے دل وجان سے محبت کی ... نہ اُنہیں کبھی امریکہ کے ویزوں کا شوق چرایا، اور نہ ہی اُنہوں نے برطانیہ میں محلات بنانے کی کوشش کی... بدقسمتی سے گزشتہ20 سالوں میں پاکستان میں سینکڑوں مذہبی شخصیات دہشت گردوں کا نشانہ بنیں، جنہیں صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی نہایت نمایاں مقام حاصل تھا ... لیکن آج تک کسی مذہبی حلقے کی طرف سے کبھی یہ مطالبہ سامنے نہیں آیا کہ ہمیں اپنے ملکی اداروں پر اعتماد نہیں ہے اس لئے علماء کے قتل کی تفتیش غیرملکی اداروں سے کروائی جائے... افغانستان پر جب روس نے حملہ کیا تو اُس کا اصل ٹارگٹ پاکستان تھا... جس وقت پاکستان میں موجود سیکولر اور لبرل شدت پسند پشاور کے راستے روسی فوج کی پاکستان آمد کا استقبال کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے... اُس وقت پاکستان کے مذہبی نوجوان ہی تھے کہ جنہوں نے پاکستان کی سلامتی کی خاطر افغانستان کے پہاڑوں کو روسی دھریت کا قبرستان بنایا تھا... پاکستان کی سلامتی کیلئے ہزاروں نوجوان سرخ چادر اوڑھ کر افغانستان کے قبرستانوں میں آج بھی سوئے ہوئے ہیں... 14 اگست 1947ء کو پاکستان اسلام کے نظام پر معرض وجود میں آیا تھا ... آج تک جب بھی پاکستان پر کڑا یامشکل وقت آیا تو اسلام کی محبت سے سرشار جوانوں، بزرگوں اور مائوں، بہنوں نے ہی اِس ملک کی حفاظت کا فریضہ اپنا ایمان سمجھ کر ادا کیا... لبرل انتہا پسندوں یا سیکولر شدت پسند، اِنہوں نے کبھی اس ملک کی سلامتی کیلئے اپنے ناخن کی بھی قربانی دی ہو تو اُنہیں چاہئے کہ وہ اُسے ہی منظرِ عام پرلے آئیں... کیا پاکستان میں موجود سیکولر قوتوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ میڈیا اور حکومت کے سرچشموں پر قابض رہ کر وہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا راستہ مستقل روکے رکھیں گے؟ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی گمراہی کی وجہ سے نوجوان نسل کو قرآن اور رسول رحمتۖ کے مقدس فرمان سے مستقل کاٹا جاسکتا ہے؟
پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا... پاکستان کے قیام کیلئے جن لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دیں اُن کا مطع نظر اور مقصد صرف اور صرف اسلام ہی تھا... یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان سے اِسلام کو نکال دینے کے بعد پاکستان کیا رہ جائے گا؟ یہ ایک اینٹوں کا انبار ہوگا لیکن دیوار نہیں، پتھروں کا ڈھیر ہوگا لیکن پہاڑ نہیں... بکھری ہوئی کڑیوں کا تودہ ہوگا لیکن وہ فولادی زنجیر نہیں جو کوہ پیکر جہازوں کو مضبوط باندھتی اور سیلاب فنا میں بہہ جانے سے روکتی ہے... آج 62 سالوں بعد پاکستان جن خطرات سے دوچار ہے... بلوچستان علیحدگی کی طرف بڑھتا جارہا ہے، قبائلی علاقوں میں نفرت وحقارت کی آگ بھڑک رہی ہے... کراچی اور سندھ میں لسانیت اور صوبائیت کے بدبودار نعرے لگ رہے ہیں... پنجاب میں دِن بدن دہشت گردی بڑھ رہی ہے... اِن تمام مسائل اور حالات کی ذمہ داری حکمران طبقے اور سیکولر شدت پسندوں پر عائد ہوتی ہے... اِن حالات کو درست کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان میں فی الفور عملاً اِسلامی نظام کو نافذ کر دیا جائے... جس دن پاکستان میں اِسلامی نظام نافذ ہو گیا پاکستان کی سلامتی پر سرخ نشان لگانے والے عناصر اپنی موت آپ مرجائیں گے...۔
جب بھی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبات کئے گئے تو اُن مطالبات کو کرنے میں پاکستان میں موجود مذہبی طبقات ہی سب سے آگے رہے... پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبات یا تو مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہوتے رہے... یا پھر مدارس ومساجد اور خانقاہوں سے اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبات دہرائے جاتے رہے... لیکن وہ سیاسی پارٹیاں اور جمہوریت پر شب خون مارنے والے جرنیل کہ پاکستان کے تخت وتاج کے وارث بنے ہوئے ہیں اور جنہوں نے یکے بعد دیگرے کبھی شیروانیاں پہن کر اور کبھی وردی پہن کر پاکستان کے اقتدار کو انجوائے کیا،اُنہوں نے چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود نہ تو کبھی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا... نہ اُن کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے آیا... بلکہ جب بھی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے نے زور پکڑا تو لبرل اور سیکولر انتہا پسند خم ٹھونک کر ایسے مطالبات کرنے والوں کے مقابلے میں اُتر آئے اور اُنہوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبات کرنے والوں پر توپوں کے گولے داغنے اور ٹینک چڑھانے سے بھی دریغ نہ کیا... آج اگر پاکستان میں ہر ڈاڑھی، پگڑی اور ٹوپی والے کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے... آج اگر سنت نبویۖ کے مطابق شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنے والوں کو ملائیت کے طعنے دیئے جاتے ہیں... آج اگر مدارس کے نصاب تعلیم کو بدلنے کی باتیں کی جاتی ہیں... تو یہ سب کچھ اچانک تو نہیں ہو گیا... بلکہ یہ نتیجہ ہے لبرل اور سیکولر شدت پسندوں کی اُن مکروہ سازشوں کا جو گزشتہ 6 دہائیوں سے بیوروکریسی اور وقت کے ہر حکمران کی زیرسرپرستی کرتے رہے ہیں... پاکستان میں موجود لبرل اور سیکولر شدت پسند تعداد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مٹھی بھر بھی نہیں ہیں... لیکن اِن مٹھی بھر سیکولر شدت پسندوں کی سرپرستی ہمیشہ ملکی اور غیرملکی حکومتوں کی طرف سے کی گئی... اُنہیں فنڈز مہیا کئے جاتے رہے... آج بھی پاکستان میں ایسی سینکڑوں این جی اوز موجود ہیں جن کا عوام میں ایک پائی کا بھی کام نہیں، لیکن بعض یورپی ممالک اُن کو کروڑوں روپے کے فنڈز مہیا کرتے ہیں... کیا کسی کے علم میں ہے کہ آخر اِن سینکڑوں این جی اوز کو کروڑوں روپے کے فنڈزمہیا کیوں کئے جاتے ہیں؟ جی ہاں اِن این جی اوز کو فنڈز اس لئے مہیا کئے جاتے ہیں تاکہ وہ کسی بھی قیمت پر پاکستان میں اِسلامی نظام کے نفاذ کو عملی شکل اختیار نہ کرنے دیں... اِن این جی اوز کا مقصد ہی اسلامی نظام کے سزائوں کو وحشیانہ قرار دینا اور اسلامی نظام کیخلاف پروپیگنڈا کرنا ہوتا ہے... غور طلب بات یہ ہے کہ آخر پوری دنیا کی کفریہ اور منافق طاقتیں اور پاکستان میں موجود لبرل اور سیکولر شدت پسند وطنِ عزیز میں اِسلامی نظام کے عملاً نفاذ سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ انہیں ڈر کِس بات کا ہے؟ جب بھی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات ہوتی ہے تو ان کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اُن کے منہ ہذیان بکنا شروع کردیتے ہیں، مختلف نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں یہ منہ بگاڑ بگاڑ کر انگلش زدہ اردو بولنے والے سیکولر شدت پسند پاکستان میں اِسلامی تحریکوں کو کچلنے کیلئے ہرقسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنا نہ صرف یہ کہ جائزبلکہ ضروری بھی سمجھتے ہیں... سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1947ء میں جس بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا ... یہ سیکولر شدت پسند یورپ کی سرپرستی میں پاکستان میں عملاً اسلامی نظام کے نفاذ کے راستے میں کب تک رکاوٹیں ڈالتے رہیں گے؟ سیکولر شدت پسندوں نے حکومتی طاقت کے بل بوتے پر پاکستان میں اگر ایک طرف میرا تھن ریس کے نام پر ایک مہذب اسلامی معاشرے میں لڑکوں اور لڑکیوں کو بھاگنے پر مجبور کیا تو دوسری طرف یہ بھی کہا گیا کہ ''یہ سب کچھ تو ایسے ہی ہوگا اگر کوئی نہیں دیکھنا چاہتا تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلے... سیکولر شدت پسندوں کی وحشت و سربریت کا عروج اسلام آباد کے قلب میں واقع تاریخی لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں اُس وقت دیکھا گیا جب پاکستان میں نفاذِ اسلام کا مطالبہ کرنے اور مساجد کی حرمت کی تحریک چلانے کے جرم میں ہزاروں برقعہ پوش معصوم بچیوں کو فاسفورس بم مار کر زندہ جلا ڈالا گیا... اور پھر جب اُس کے ردعمل میں سوات والوں نے اپنے علاقے میں نفاذِاسلام کا مطالبہ کیا تو وہاں کے 35 لاکھ لوگوں کو بے گھر کرکے وہاں سخت ترین فوجی آپریشن شروع کرکے ہزاروں لوگ مار ڈالے گئے... یہ کس قدر عجیب صورتحال ہے کہ پاکستان میں موجود تمام مذہبی طبقات نے ہمیشہ اِس ملک کی مٹی سے دل وجان سے محبت کی ... نہ اُنہیں کبھی امریکہ کے ویزوں کا شوق چرایا، اور نہ ہی اُنہوں نے برطانیہ میں محلات بنانے کی کوشش کی... بدقسمتی سے گزشتہ20 سالوں میں پاکستان میں سینکڑوں مذہبی شخصیات دہشت گردوں کا نشانہ بنیں، جنہیں صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی نہایت نمایاں مقام حاصل تھا ... لیکن آج تک کسی مذہبی حلقے کی طرف سے کبھی یہ مطالبہ سامنے نہیں آیا کہ ہمیں اپنے ملکی اداروں پر اعتماد نہیں ہے اس لئے علماء کے قتل کی تفتیش غیرملکی اداروں سے کروائی جائے... افغانستان پر جب روس نے حملہ کیا تو اُس کا اصل ٹارگٹ پاکستان تھا... جس وقت پاکستان میں موجود سیکولر اور لبرل شدت پسند پشاور کے راستے روسی فوج کی پاکستان آمد کا استقبال کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے... اُس وقت پاکستان کے مذہبی نوجوان ہی تھے کہ جنہوں نے پاکستان کی سلامتی کی خاطر افغانستان کے پہاڑوں کو روسی دھریت کا قبرستان بنایا تھا... پاکستان کی سلامتی کیلئے ہزاروں نوجوان سرخ چادر اوڑھ کر افغانستان کے قبرستانوں میں آج بھی سوئے ہوئے ہیں... 14 اگست 1947ء کو پاکستان اسلام کے نظام پر معرض وجود میں آیا تھا ... آج تک جب بھی پاکستان پر کڑا یامشکل وقت آیا تو اسلام کی محبت سے سرشار جوانوں، بزرگوں اور مائوں، بہنوں نے ہی اِس ملک کی حفاظت کا فریضہ اپنا ایمان سمجھ کر ادا کیا... لبرل انتہا پسندوں یا سیکولر شدت پسند، اِنہوں نے کبھی اس ملک کی سلامتی کیلئے اپنے ناخن کی بھی قربانی دی ہو تو اُنہیں چاہئے کہ وہ اُسے ہی منظرِ عام پرلے آئیں... کیا پاکستان میں موجود سیکولر قوتوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ میڈیا اور حکومت کے سرچشموں پر قابض رہ کر وہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا راستہ مستقل روکے رکھیں گے؟ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی گمراہی کی وجہ سے نوجوان نسل کو قرآن اور رسول رحمتۖ کے مقدس فرمان سے مستقل کاٹا جاسکتا ہے؟
پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا... پاکستان کے قیام کیلئے جن لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دیں اُن کا مطع نظر اور مقصد صرف اور صرف اسلام ہی تھا... یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان سے اِسلام کو نکال دینے کے بعد پاکستان کیا رہ جائے گا؟ یہ ایک اینٹوں کا انبار ہوگا لیکن دیوار نہیں، پتھروں کا ڈھیر ہوگا لیکن پہاڑ نہیں... بکھری ہوئی کڑیوں کا تودہ ہوگا لیکن وہ فولادی زنجیر نہیں جو کوہ پیکر جہازوں کو مضبوط باندھتی اور سیلاب فنا میں بہہ جانے سے روکتی ہے... آج 62 سالوں بعد پاکستان جن خطرات سے دوچار ہے... بلوچستان علیحدگی کی طرف بڑھتا جارہا ہے، قبائلی علاقوں میں نفرت وحقارت کی آگ بھڑک رہی ہے... کراچی اور سندھ میں لسانیت اور صوبائیت کے بدبودار نعرے لگ رہے ہیں... پنجاب میں دِن بدن دہشت گردی بڑھ رہی ہے... اِن تمام مسائل اور حالات کی ذمہ داری حکمران طبقے اور سیکولر شدت پسندوں پر عائد ہوتی ہے... اِن حالات کو درست کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان میں فی الفور عملاً اِسلامی نظام کو نافذ کر دیا جائے... جس دن پاکستان میں اِسلامی نظام نافذ ہو گیا پاکستان کی سلامتی پر سرخ نشان لگانے والے عناصر اپنی موت آپ مرجائیں گے...۔