میں نے پچھلے مہییننے ایک پوسٹ کی تھی
جس میں اس وقت کے اخبارات کے حوالے سے دیش کی تنظیم سازی جولائی میں مکمل ہو کر حملوں کے آغاز کا تذکرہ تھا
آج حالیہ دہشت گردی کے شاخسانے دیش افغانستان سے جا ملنے کے بعد اس وقت کی خبروں کی تصدیق نے پھر سے پاکستان کو اصل دشمن کی تلاش کر کے ختم کرنے کی ضرورت پیدا کر دی ہے
قوم الیکشن کے نشے میں چور ہے
یہ ہی وقت دشمن نے وار کے لئے مخصوس رکھا ہوا تھا
ضرب عضب ردلفساد وغیرہ کی کامیابی سے قوم کو انکار نہی کرنا چاھئے
وہ مختلف دشمن تھے جن کا قلع قمع ہو چکا ہے
یہ بلکل نیا دشمن ہے جس کو بھی اندر سے ہمدردی حاصل ہو گی
اس لئے نیا آپریشن کرنا پڑے گا
غالباً اس سلسلے میں
پاکستان چین روس اور ایران کے خفیہ اداروں نے تعاون شروع کر دیا ہے
کیوں کے اس نئے دشمن کے یہ ہی احداف ہیں
جیسا کے پہلے بیان کیا جا چکا ہے کے
انڈیا اور امریکہ کے فنگر پرنٹس اس نئے دشمن پر نمایاں ہیں
تو قوم کو اس دیشمن پر سوشل میڈیا پر تقسیم کرنے کی سازشیں پہلے سے ہی شروع ہو چکی ہیں
مجھے یقین ہے کے دایش کے خلاف کامیابی ھمارے نصیب میں لکھی جا چکی ہے
لیکن اس کے بعد ایک نئے دشمن کا سامنا ہوگا
اور مجھے شک ہے اب کی بار دشمن پراکسی نہی بل کے خود سامنے اے گا
اس لئے قوم اگلے کچھ سال مزید مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہے
میرے لئے اس نئی صورتحال میں الکشن بے مانی سے ہیں
آپ جن کو بھی چنیں گے
ان کو رہ راست پر لے ہی آیا جاتے گا
جزاک الله
جس میں اس وقت کے اخبارات کے حوالے سے دیش کی تنظیم سازی جولائی میں مکمل ہو کر حملوں کے آغاز کا تذکرہ تھا
آج حالیہ دہشت گردی کے شاخسانے دیش افغانستان سے جا ملنے کے بعد اس وقت کی خبروں کی تصدیق نے پھر سے پاکستان کو اصل دشمن کی تلاش کر کے ختم کرنے کی ضرورت پیدا کر دی ہے
قوم الیکشن کے نشے میں چور ہے
یہ ہی وقت دشمن نے وار کے لئے مخصوس رکھا ہوا تھا
ضرب عضب ردلفساد وغیرہ کی کامیابی سے قوم کو انکار نہی کرنا چاھئے
وہ مختلف دشمن تھے جن کا قلع قمع ہو چکا ہے
یہ بلکل نیا دشمن ہے جس کو بھی اندر سے ہمدردی حاصل ہو گی
اس لئے نیا آپریشن کرنا پڑے گا
غالباً اس سلسلے میں
پاکستان چین روس اور ایران کے خفیہ اداروں نے تعاون شروع کر دیا ہے
کیوں کے اس نئے دشمن کے یہ ہی احداف ہیں
جیسا کے پہلے بیان کیا جا چکا ہے کے
انڈیا اور امریکہ کے فنگر پرنٹس اس نئے دشمن پر نمایاں ہیں
تو قوم کو اس دیشمن پر سوشل میڈیا پر تقسیم کرنے کی سازشیں پہلے سے ہی شروع ہو چکی ہیں
مجھے یقین ہے کے دایش کے خلاف کامیابی ھمارے نصیب میں لکھی جا چکی ہے
لیکن اس کے بعد ایک نئے دشمن کا سامنا ہوگا
اور مجھے شک ہے اب کی بار دشمن پراکسی نہی بل کے خود سامنے اے گا
اس لئے قوم اگلے کچھ سال مزید مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہے
میرے لئے اس نئی صورتحال میں الکشن بے مانی سے ہیں
آپ جن کو بھی چنیں گے
ان کو رہ راست پر لے ہی آیا جاتے گا
جزاک الله
میرے عزیز ہم وطنوں
تم کتنے نادان ہو
دنیا سمھجتی ہے کے تم پوری دنیا کو بیوقوف بناتے ہو
دراصل پوری دنیا تمھیں بیوقوف بنا جاتی ہے
جناب جنجوعہ صاحب مجھے آپ سے یہ امید نہی تھی
اپنی اپنی کاردکردگی رپورٹ کارڈ بڑ ی خوشی خوشی افغانستان لے کر گئے
اور دوستوں سے صلہ کے طور پر ٹی ٹی پی کا سر مانگ لیا
آپ کے دوستوں کے تو گویا وارے نیارے ہو گئے
انہوں نے اگلے ہی دن سر طشتری میں رکھ کر عیدی کے طور پر بھجوا دیا
اصل میں آپ نے تو ان کے اصل دشمنوں اور ان کے دشمنوں کے اثاثہ جات کو تباہ کر دیا
اور بدلے میں ملا آپ کو فضل اللہ کا سر
جناب سٹرٹجک اثاثوں کی ایک لائف ہوتی ہے
جو استمعال ہو جانے کے بعد ایک غلیظ غبارے کی سی حثیت رکھتے ہیں
جنھیں چھپا کر تلف کر دیا جاتا ہے
اور آپ نے اسی کو بے بہا قیمت پر خرید لیا
جناب امریکہ انڈیا اور افغانستان میں الف کے علاوہ اب بہت کچھ مشترکہ ہے
اسی اشتراک نے اب داعش کو جنم دیا ہے
داعش کے اہداف واضح ہیں
ایران چین روس اور پاکستان
اس بار ٹرمپ انتظامیہ نے فنگر پرنٹس نہ چھوڑنے والی کوشش کو بھی ٹرائی نہی کیا
اور ٹی ٹی پی اور طالبان جیسی تنظیمیں داعش کے راستے کی سب سے بڑ ی رکاوٹیں ہیں
جنھیں تیزی سے ہٹایا جا رہا ہے
اسی طرح کا ایک غلیظ غبارہ بھری قیمت پر ھمارے ہاتھ تھما دیا گیا ہے
اب اپ داعش کا مطالعہ کیجئے
یہ منظم ہی دو مقامات پر ہو رہی ہے
اگر آپ نے وار پلاننگ پڑھی ہوئی ہو گی تو
آپ کو ان کے سٹرٹیجک علاقوں کی سمھج آ جاتے گی
ایک مقام واضح طور پر ایران کو نشانہ بنانے کے لئے ہے
اور دوسرا واضح طور پر پاکستان کو
میرے تجزیے کے مطابق
افغانستان کی صورت میں امریکہ انڈیا اگر رکاوٹ ہیں بارڈر پر باڑھ لگانے کے
تو مقصد یہ ہی ہے کے
داعش کا راستہ بند نہ ہونے پاے
افغانستان میں حملے دراصل داعش کی تربیت کے طور پر ہو رہے ہیں
اور پاکستان میں حملے ان کے شروع ہونے ہی والے ہیں
میرے خیال سے ہمیں افغانستان امریکہ یا انڈیا کے گھٹ جوڑ سے
پینگیں بڑھانے کے بجاے
اپنی ساری قووت باڑھ لگانے
اور مغربی سرحد کو محفوظ کرنے پر صرف کرنی چاہیے