پیشِ نظر موضوع کی حساسیت اور اہمیت کے مدِ نظر گذارش ہے کہ اسے سیاسی اور مذہبی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر پڑھیں اور بلوچستان کے بارے اپنی قیمتی آراء سے نوازیں۔ شکریہ
آنکھ اوجھل بلوچستان بوجھل
دو ہزار گیارہ کی آخری سہ ماہی تھی، بلوچستان اسمبلی میں پی پی پی کے ایک اہم وزیر کے ساتھ ایک دوستانہ نشست تھی، کھانے اور قہوے سے فراغت کے بعد ایسی گپ شپ جاری تھی جوپرانی دوستیوں کا خاصہ ہوا کرتی ہے اتنے میں ایک صاحب نشست گاہ میں داخل ہوئے، عام سا قد، سانولی رنگت اور کرخت نقوش۔ معدہ میں ہول برپا کردینے والی بات یہ تھی کہ یہ حضرت بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے) کے ایک کمانڈر تھے جو پریس کلب فون کرکے اپنی کاروائیوں یعنی بم پھاڑنا، آبادکاروں(پنجابیوں) کے قتل، ریل کی پٹریوں کا اکھاڑنا یا تباہ کرنا، گیس پائپ لائینوں کو تباہ کرنا یا پھر فورسز پر حملے کی ذمہ داری قبول کیا کرتے تھے، سر پر غالبا" پچاس لاکھ انعام مقرر تھا۔ کچھ دیر رسمی سی گفتگو فرما کر چل دئیے۔ اوسان بحال ہوئے تو وزیر صاحب سے قدرے درشتی سے پوچھا" بجائے ایسے جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کرنے کے تم ان سے بیٹھے گپ شپ کرتے ہو؟؟ اسی وجہ سے بلوچستان میں امن نہیں ہوتا۔ وزیر صاحب نے گاو تکیے کا کھسکایا کمر دراز کی اور سکون سے گویا ہوئے"یار!! حکومتیں آنی جانی چیزیں ہیں، ہمیں انہی لوگوں میں رہنا ہے اور انہی نے ہمارے کام آنا ہے۔
کم و بیش انہی دنوں ایک نئے نئے بنے بلوچ دوست کے گھر جانا ہوا، کچھ دیر بعد یہ دوست اپنے والد بزرگوار سمیت مہمان خانے میں داخل ہوئے، رواج کے مطابق قبلہ کے ہاتھ چومے اور اردو میں احوال دریافت کیا۔ جانے کیا وجہ ہوئی کہ بزرگوار کے تاثرات بدل گئے اور انتہائی بےزاری سےبغیر رسمی الوداعی کلمات کہے واپس چلے گئے۔اب ہمارے دوست کا وہ حال کہ کاٹو تو لہو نہیں، پیچھے پیچھے گئے اور تھوڑی دیر میں قبلہ پھر سے کمرے میں داخل ہوئے" بیٹا معاف کرنا، میں آپکے لہجے سے سمجھا کہ آپ پنجابی ہو اسلئے اٹھ کر چلا گیا، ابھی بیٹے نے یہ غلط فہمی دور کی تو چلا آیا۔ عرض کی کہ"محترم!! رواج کے مطابق مہمان کی کوئی قومیت نہیں ہوتی، وہ صرف مہمان ہوتا ہے جو عزت کے قابل ہوتا ہے، گذارش ہے کہ میں یہاں فخر سے خود کو پنجابی کہلوانا پسند کروں گا، صد معذرت کہ آپ کا مہمان بنا، بغیر ہاتھ ملائے جانے کی اجازت دیجئے۔اللہ حافظ۔
یہ دو واقعات آپ کو بتانے کا مقصد بلوچ عوام کے درمیان پلتی نفرت اور ان کے لیڈر حضرات کا غیر سنجیدہ رویہ دکھانا تھا۔ بلوچستان کے اس نہج پر پہنچنے کی وجوہات کی تفصیل میں جانا خود کو خواہ مخواہ خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔ قیام پاکستان کے فورا" بعد بھڑک اٹھنے والی یہ آگ کبھی سرد نہ ہوسکی، سیاسی کوششوں کے بعد اس کی حدت کم ضرور ہوئی لیکن چنگاریاں ہمیشہ سلگتی رہیں۔ ماضی قریب میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ہونے والے واقعے نے اس آگ کو بھڑکایا اور مشرف جیسے چھوٹے آدمی کے ہاتھوں اکبر بگٹی جیسے ایک بڑے آدمی کی ہلاکت نے یہاں ایسا طوفان برپا کیا جس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ انہیں بھی نہیں جنھوں نے اسے تیز کرنے میں مدد دی۔ افغانستان میں موجود بیسیوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی یہاں ریشہ دوانیاں، بھارت کی را کے ذریعے یہاں کے حالات غیر مستحکم کرنے کی کوششیں، عرب العمارات کی جانب سے دبئی کو بچانے کی خاطر گوادر پراجیکٹ ناکام بنانے کی غرض سے آزادی پسندوں کو مالی اور تکنیکی امداد دینا، ایران کا چاہ بہار کو ترقی دینے اور سعودیہ کو اس خطے میں شکست دینے کیلئے یہاں اپنے حامیوں کو امداد دینا اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں جس کے نتیجے میں بلوچستان جل رہا ہے۔ کہتے ہیں جنگ زدہ علاقوں کی کوئی اخلاقیات کوئی قوانین نہیں ہوتے، یہاں بھی یہی حال رہا۔ چھوٹے چھوٹے آزادی پسند گروپوں سے لیکر فرقہ واریت کے زہر میں لتھڑے گروپ یہاں دن دیہاڑے آزادی سے گھومتے اور عام آدمی باہر نکلنے میں خوف محسوس کرتا۔ مستونگ کا علاقہ ان شدت پسندوں کا گڑھ کہلانے لگا جو شیعہ حضرات کے خون کے واقعی پیاسے تھے، غیر بلوچ اور غیر سُنی جب روز اپنے گھر سے نکلتے تو کسی کو یقین نہ ہوتا تھا کہ رات گھر میں سانس لیتے واپسی ہوگی یا پھر ایمبولینس میں خون میں لت پت لاش کی صورت۔
کیا حجام، کیا مستری اور کیا لیکچرار و ڈاکٹر، بس جو پنجابی یا شیعہ نظروں میں آیا، اسے یا تو بغیر کسی وارننگ کے سر میں گولیاں اتار کر شہید کیا گیا یا پھر بہت ہوا تو گھر پر رقعہ پھینک دیا" آپ کو متبنہ کیا جارہا ہے کہ بس بہت ہوگیا بلوچستان کے وسائل کو لوٹنا، اب ایک ہفتے کی مہلت ہے اسی میں بلوچستان کی حدود سے نکل جاو ورنہ انجام تمہاری موت ہوگا۔ ایک ہی دھماکے میں ایک سو سے اوپر اہل تشیع کو زندہ انسانوں سے جنازوں میں تبدیل کرنے والے کھلے عام جلسے منعقد کرتے اور واشگاف الفاظ میں نعرے لگاتے کہ ہم ٹک ٹک نہیں کرتے بلکہ ایک بال پر سنچری بناتے ہیں۔
یہ خوف محض غیر بلوچ یا غیر سُنی ہی کی قسمت نہ بنا بلکہ بلوچ قوم کی قسمت میں یہی خوف ایک الگ صورت میں نفوذپذیر ہوا۔ جوان جوان لوگ غائب ہونا شروع ہوگئے، اکثر لاشیں ہی ملتیں لیکن ایسی مسخ حالت میں کہ جنم دینے والی ماں بھی نہ پہچان پائے، اور پہچان صرف رقعہ ہوتا جو خون آلود قمیض کے ساتھ چپکا دیا جاتا۔ " مسمی فلاں بن فلاں سکنہ فلاں، بلوچوں کیلئے ہماری طرف سے تحفہ" یا پھر یہی تحریر ماتھے پر ٹیٹو کی صورت گود دی جاتی۔ کبھی یہ لاشیں ڈی کمپوز ہونے کے بعد پھینک دی جاتیں کبھی ویرانوں میں پھینکنے کے کئی دن بعد اس حالت میں دستیاب ہوتیں کہ کُتے اور بھیڑئے سارا گوشت نوچ چکے ہوتے۔
خوف و دہشت کی یہ وہ فضا تھی جس نے اس شہر کو رفتہ رفتہ ویران کردیا، یہاں کے چیدہ چیدہ تاجر، استاد، ڈاکٹر اپنی نوکریاں کاروبار چھوڑ کر دوسرے صوبوں میں بس گئے، شیعہ حضرات جو یہاں ہزارہ کہلاتے ہیں اپنے بچوں کو غیر قانونی طریقے سے آسٹریلیا یا یورپ بھیجنے پر مجبور ہوگئے، پنجابی راج مستری جو اپنے کام کے ماہر کہلائے جاتے تھے یہاں آنے سے کانوں کو ہاتھ لگاتے نظر آئے۔ ایسی صورتحال میں جس سیاسی پارٹی کے لائحہ عمل میں حل ڈھونڈنے کی کوشش کی، اس کا لائحہ عمل چلانے والے وہی لوگ نکلے جو ایسی وارداتوں میں ملوث تھے۔
الیکشن 2013 سے پہلے پی ٹی آئی کی مقامی قیادت سے اس بارے حل پوچھا تو گویا ہوئے کہ مرکزی قیادت اس معاملے میں کوئی واضح پالیسی دینے سے قاصر ہے لہذا تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔
اہل ِدل اس معاملے میں نواز شریف صاحب کے مشکور ہیں جنھوں نے الیکشن سے پہلے ہی اس مسلے سے نپٹنے کیلئے ایک روڈ میپ دیا اور اسی تسلسل میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود صوبے میں ایک قوم پرست پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ نیشنل پارٹی نے اقتدار میں آتے ہی جنگجو گروپس سے سنجیدہ بات چیت کا ڈول ڈالا۔ اگرچہ ایسی صورتحال میں کوئی فوری نتیجہ نکلنے کی امید نہیں ہوتی لیکن حیران کن طور پر اس صوبے میں تشدد کی کاروائیوں میں ایک واضح کمی دیکھنے کو ملی۔ ساتھ ساتھ فرقہ واریت میں ملوث گروہوں کو فوج کی مدد سے ایسی نکیل ڈالی گئی کہ ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر سرعام جلوس نکالتے لچے لفنگوں کی تعداد سکڑ کر سینکڑوں تک رہ گئی۔
مسخ شدہ لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ صوبائی حکومت کیلئے گھمبیر مسلہ ثابت رہا جہاں دونوں فریقین کے اپنے اپنے تحفظات و ترجیحات ڈاکٹر مالک کیلئے دردِ سر رہے۔ لیکن ڈاکٹر مالک اور ان کی ٹیم نے اس حوالے سے خاصی پیشرفت کی۔ بلوچستان میں اس وقت ن لیگ کی حکومت ہے اور قرائن سے لگتا ہے شائید یہ اتنی کامیاب نہ ہوسکے جتنی ڈاکٹر مالک نے کامیابیاں حاصل کیں لیکن دعا اور خواہش ہے کہ ن لیگ اس مسلے پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے کیونکہ چاہنے کے باوجود عمران خان کو اس صوبے کے لوگ ایک فراڈی مداری سے زیادہ حیثیت دینے کے روادار نہیں۔ بلوچستان میں لوگوں کو زندگی کی وہ بنیادی ضروریات میسر نہیں جو دیگر صوبوں کی عوام کو میسر ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں کے عوام ایسے حکمران کو سر آنکھوں پر بٹھا لیں گے جو ان کیلئے امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ایسی آسانیوں کا محض دس فیصد ہی مہیا کردے جو پنجاب میں میسر ہیں۔۔