http://www.masoodanwar.com
[email protected]
مسعود انور
گھڑی کی ٹک ٹک جاری ہے۔ کاوٴنٹ ڈاوٴن شروع ہوچکا ہے۔ شام پر حملہ کرنا طے کیا جاچکا ہے۔ بس اب امریکی کانگریس کی رسمی منظوری کا انتظار ہے۔ کانگریس کا اجلاس 9 ستمبر کو ہوگا۔ جس کے بعد بشار الاسد کی کہانی بھی قصہ پارینہ بن چکی ہوگی اور بشار الاسد کی تصویر عجائب گھر میں اسی جگہ لگی ہوئی ہوگی جہاں پر صدام حسین، قذافی اورایسے ہی دیگر لوگوں کی تصویروں کے لئے جگہ مختص ہے۔ شام پر حملہ کوئی اچانک نہیں کیا جارہا ۔ یہ ڈرامے میں پہلے سے طے شدہ ایک ایکٹ ہے جس پر اب وقت آنے پر عمل کیا جارہا ہے۔ میں کوئی گذشتہ دو سال سے اس بارے میں مسلسل لکھ رہا ہوں ۔ اُس وقت لوگوں کا خیال تھا کہ یہ محض اندیشے ہیں مگر جو لوگ بھی ون ورلڈ گورنمنٹ کے بلیو پرنٹ کو دیکھتے رہتے ہیں ، ان کے لئے یہ کبھی بھی اندیشہ نہیں رہا۔
میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ تیسری عالمی جنگ کا اہم ترین مرحلہ ایران پر حملہ ہے۔ مگر ایران پر حملے سے پہلے شام پر حملہ کیا جائے گا اور جیسے ہی ایران پر حملے کی ٹائمنگ پر اتفاق ہوگا، پاکستان میں مارشل لاء آچکا ہوگا۔ یہ بھی میں لکھتا رہا ہوں کہ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء کا نفاذ کیا گیا ہے ۔اس وقت اس خطے میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہوتی ہے۔ پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کا پاکستان کے اندرونی معاملات سے کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ پاکستان میں فضا ہمیشہ سے مارشل لاء کے لئے سازگار بھی رہی ہے اور نہیں بھی۔ زرداری دور حکومت میں یہ زرداری کی خوش قسمتی تھی کہ اس عرصے میں عالمی تحریک انقلاب کے ڈائریکٹروں کے پاس اس خطہ میں کسی تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری اپنی تمام تر نااہلی، بدعنوانی اور جہالت کے باوجود پاکستان میں اپنا دور صدارت پور اکرنے والی پہلی شخصیت کا روپ دھار چکے ہیں۔
نواز شریف کے پہلے تین ماہ کی کارکردگی ہی ان کے ووٹروں کو ان سے بدظن کرنے کے لئے کافی ہے۔ اپنے برسراقتدار آنے سے لے کر اب تک وہ ہرماہ کی پہلی تاریخ کو باقاعدگی سے پٹرول کی قیمتوں میں بھاری بھرکم اضافہ کردیتے ہیں، بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ کا بھی بم عوام پر گراتے رہتے ہیں۔ سندھ و بلوچستان کے حالات پہلے سے بھی زیادہ دگرگوں ہوچکے ہیں۔ پہلے تو کراچی کے تجارتی علاقے ہی بھتے کی پرچیوں کا شکار تھے، اب یہ بیماری کراچی کے رہائشی علاقوں تک بھی پہنچ چکی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، اغوا برائے تاوان، بوری بند تشدد زدہ لاشیں، بھتہ۔ اس سب میں کمی کے بجائے بھرپور اضافہ ہی ہوا ہے ۔ بھتہ اور اغوا کی یہ بیماری اب تو پنجاب میں بھی سرطان کی طرح پھیل چکی ہے۔ اب نہ تو فیصل آباد اور لاہور کے رہائشی اس سے محفوظ ہیں اور نہ ہی اسلام آباد کے رہائشی۔ کراچی میں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری تو جرم ہوسکتی ہے مگر اسٹریٹ کرائم کراچی پولیس و رینجرز کے لئے جرم نہیں رہا ہے۔
کیا نواز شریف حکومت جرائم روک سکتی ہے؟ یہ ایک ایسا بڑا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب بدقسمتی سے ہمارے پاس نفی میں ہے۔ شہباز شریف کے دور میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا بیٹا شہباز تاثیر اغوا ہوا، اب تک اس کا اتہ پتہ نہیں ملا ہے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا بیٹا علی حیدر گیلانی مئی میں اغو اہوا، اب تک لاپتہ ہے۔سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل طارق مجید کا داماد برسوں اغوا رہنے کے بعد بالاخر تاوان کی ادائیگی کے بعد رہائی پاسکا۔ جب جنرل طارق مجید کا داماد اغوا ہوا تھا ، اس وقت وہ
ریٹائر نہیں ہوئے تھے اور فوج کے بااثر جرنیلوں میں شامل تھے۔ مگر ان کا داماد تب بھی رہائی نہ پاسکا تھا۔
لشکر جھنگوی ایک کالعدم تنظیم ہے۔ ان کا ایک بیان چھپتا ہے کہ اگر ان کے سزا یافتہ کارکنان جنہیں عدالت نے موت کی سزا دی ہے ، کی سزا پر عملدارامد کیا گیا تو وہ حکمراں جماعت کے خاندان کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس ایک بیان کے بعد ایوان وزیر اعظم اور ایوان صدارت میں تھرتھری پھیل جاتی ہے اور فوری طور پر ملک بھر میں موت کی سزا پر عملدرامد ہی معطل کردیا جاتا ہے۔ اب جسے جو کرنا ہے ، ملک بھر میں کرتا پھرے، کم از کم اسے موت کی سزا نہیں مل سکتی۔ اس سے ملک میں حکومت اور ریاست کی رٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ڈیرہ جیل پر حملہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ اب تک صوبائی حکومت کے سربراہ عمران خان نہیں بتا سکے کہ ان کی حکومت کہاں بیٹھی سکون کی ڈفلی بجارہی تھی۔ وفاقی حکومت نہیں بتا رہی کہ اس کے زیر انتظام علاقے سے مجرم کیسے جلوس کی شکل میں ڈیرہ اسمٰعیل خان پہنچے اور واردات کے بعد ڈھول تاشے بجاتے کس طرح واپس اپنی کمیں گاہوں تک بہ حفاظت پہنچ گئے۔ فوجی ترجمان بھی یہ بتانے کی زحمت نہیں کررہا کہ اس کی چھاوٴنی سے متصل جیل پر اس کے پاس اطلاع کے باوجود کس طرح کامیاب حملہ ہوگیا۔ راستے میں فوج کی متعدد چیک پوسٹوں کے باوجود کس طرح یہ مجرم وہاں پر پہنچ گئے۔ ڈیرہ حملہ ہو بھی گیا اور اب آہستہ آہستہ بھول کی نذر ہوتا جارہا ہے مگر مجال ہے کہ کسی نے ایک سانس بھی لی ہو۔
غیر ملکی قرض کا کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والے پانچ سو ملین ڈالر کے قرض کے نام پر آئی ایم ایف کی پاکستان کی تباہی کی ہر شق مانے چلے جارہے ہیں۔ مگر کس طرح ایک دم اس سے بھی زیادہ رقم انہوں نے نجی بجلی گھروں کو دے دی۔ اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ کیوں ختم نہیں ہوئی۔ اگر وہ یہ رقم ان نجی بجلی گھروں کے حوالے نہیں کرتے تو کم از کم آج ملک کو آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ تو نہیں پھیلانا پڑتا۔ نواز شریف نے ان بجلی گھر والوں سے تو ایک سوال جواب بھی نہیں کیا اور نہ ہی بجلی فراہم کرنے کی ضمانت لی۔ مگر پاکستانی حکومت آئی ایم ایف کی ہر شرط مان رہی ہے کہ مستقبل میں کتنی سانسیں کب اور کس طرح لے گی۔
اگر نواز شریف کے کارناموں کا ذکر سرسری بھی کیا جائے تو کم از کم پندرہ دن کے کالموں کا موضوع ہے۔ میں اس وقت نواز شریف اور زرداری کو چارج شیٹ نہیں کرنا چاہتا۔ نہ ہی عمران خان کے کمالات اور مذہبی جماعتوں کی قلابازیوں پر کچھ لکھنا چاہتاہوں۔ نہ ہی اس وقت بات لسانی جماعتوں اور علاقائی پارٹیوں کی چھتری میں چھپے مجرموں کی ہورہی ہے ۔ بات تو ایران پر حملے اور اس سے قبل پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ سے شروع ہوئی تھی۔ میں تو اس وقت یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کے لئے ماحول ہر وقت تیار رہتا ہے اور تیار ہے۔ لوگ نواز شریف سے عاجز ہیں اور کہنے لگے ہیں کہ اس سے بہتر تو مشرف ہی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی ملک میں فوجی بوٹوں کی چاپ گونجے گی، اسے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ فوجی بوٹ اسلام آباد میں کب مارچ کریں گے، اس کا دارومدار ایران پر حملے کی تاریخ سے ہے۔پاکستان کی مجموعی صورتحال کو دیکھ کر کم از کم یہ اندازہ تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اس میں نواز شریف، زرداری، مشرف ، عمران خان اور دیگر سب لوگوں کا کردار ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کا نہیں ہے۔ یہ لوگ وہی کچھ کررہے اور بول رہے ہیں ، جو ان کے اسکرپٹ کے مطابق ہے۔اور یہ اسکرپٹ عالمی تحریک انقلاب کے ڈائریکٹروں کا دیا ہوا ہے جو اس دنیا میں ایک عالمگیر شیطانی حکومت ون ورلڈ گورنمنٹ کے قیام کی سازشوں پر کامیابی سے عملدرامد کررہے ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اوراپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔
[email protected]
مسعود انور
گھڑی کی ٹک ٹک جاری ہے۔ کاوٴنٹ ڈاوٴن شروع ہوچکا ہے۔ شام پر حملہ کرنا طے کیا جاچکا ہے۔ بس اب امریکی کانگریس کی رسمی منظوری کا انتظار ہے۔ کانگریس کا اجلاس 9 ستمبر کو ہوگا۔ جس کے بعد بشار الاسد کی کہانی بھی قصہ پارینہ بن چکی ہوگی اور بشار الاسد کی تصویر عجائب گھر میں اسی جگہ لگی ہوئی ہوگی جہاں پر صدام حسین، قذافی اورایسے ہی دیگر لوگوں کی تصویروں کے لئے جگہ مختص ہے۔ شام پر حملہ کوئی اچانک نہیں کیا جارہا ۔ یہ ڈرامے میں پہلے سے طے شدہ ایک ایکٹ ہے جس پر اب وقت آنے پر عمل کیا جارہا ہے۔ میں کوئی گذشتہ دو سال سے اس بارے میں مسلسل لکھ رہا ہوں ۔ اُس وقت لوگوں کا خیال تھا کہ یہ محض اندیشے ہیں مگر جو لوگ بھی ون ورلڈ گورنمنٹ کے بلیو پرنٹ کو دیکھتے رہتے ہیں ، ان کے لئے یہ کبھی بھی اندیشہ نہیں رہا۔
میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ تیسری عالمی جنگ کا اہم ترین مرحلہ ایران پر حملہ ہے۔ مگر ایران پر حملے سے پہلے شام پر حملہ کیا جائے گا اور جیسے ہی ایران پر حملے کی ٹائمنگ پر اتفاق ہوگا، پاکستان میں مارشل لاء آچکا ہوگا۔ یہ بھی میں لکھتا رہا ہوں کہ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء کا نفاذ کیا گیا ہے ۔اس وقت اس خطے میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہوتی ہے۔ پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کا پاکستان کے اندرونی معاملات سے کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ پاکستان میں فضا ہمیشہ سے مارشل لاء کے لئے سازگار بھی رہی ہے اور نہیں بھی۔ زرداری دور حکومت میں یہ زرداری کی خوش قسمتی تھی کہ اس عرصے میں عالمی تحریک انقلاب کے ڈائریکٹروں کے پاس اس خطہ میں کسی تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری اپنی تمام تر نااہلی، بدعنوانی اور جہالت کے باوجود پاکستان میں اپنا دور صدارت پور اکرنے والی پہلی شخصیت کا روپ دھار چکے ہیں۔
نواز شریف کے پہلے تین ماہ کی کارکردگی ہی ان کے ووٹروں کو ان سے بدظن کرنے کے لئے کافی ہے۔ اپنے برسراقتدار آنے سے لے کر اب تک وہ ہرماہ کی پہلی تاریخ کو باقاعدگی سے پٹرول کی قیمتوں میں بھاری بھرکم اضافہ کردیتے ہیں، بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ کا بھی بم عوام پر گراتے رہتے ہیں۔ سندھ و بلوچستان کے حالات پہلے سے بھی زیادہ دگرگوں ہوچکے ہیں۔ پہلے تو کراچی کے تجارتی علاقے ہی بھتے کی پرچیوں کا شکار تھے، اب یہ بیماری کراچی کے رہائشی علاقوں تک بھی پہنچ چکی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، اغوا برائے تاوان، بوری بند تشدد زدہ لاشیں، بھتہ۔ اس سب میں کمی کے بجائے بھرپور اضافہ ہی ہوا ہے ۔ بھتہ اور اغوا کی یہ بیماری اب تو پنجاب میں بھی سرطان کی طرح پھیل چکی ہے۔ اب نہ تو فیصل آباد اور لاہور کے رہائشی اس سے محفوظ ہیں اور نہ ہی اسلام آباد کے رہائشی۔ کراچی میں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری تو جرم ہوسکتی ہے مگر اسٹریٹ کرائم کراچی پولیس و رینجرز کے لئے جرم نہیں رہا ہے۔
کیا نواز شریف حکومت جرائم روک سکتی ہے؟ یہ ایک ایسا بڑا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب بدقسمتی سے ہمارے پاس نفی میں ہے۔ شہباز شریف کے دور میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا بیٹا شہباز تاثیر اغوا ہوا، اب تک اس کا اتہ پتہ نہیں ملا ہے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا بیٹا علی حیدر گیلانی مئی میں اغو اہوا، اب تک لاپتہ ہے۔سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل طارق مجید کا داماد برسوں اغوا رہنے کے بعد بالاخر تاوان کی ادائیگی کے بعد رہائی پاسکا۔ جب جنرل طارق مجید کا داماد اغوا ہوا تھا ، اس وقت وہ
ریٹائر نہیں ہوئے تھے اور فوج کے بااثر جرنیلوں میں شامل تھے۔ مگر ان کا داماد تب بھی رہائی نہ پاسکا تھا۔
لشکر جھنگوی ایک کالعدم تنظیم ہے۔ ان کا ایک بیان چھپتا ہے کہ اگر ان کے سزا یافتہ کارکنان جنہیں عدالت نے موت کی سزا دی ہے ، کی سزا پر عملدارامد کیا گیا تو وہ حکمراں جماعت کے خاندان کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس ایک بیان کے بعد ایوان وزیر اعظم اور ایوان صدارت میں تھرتھری پھیل جاتی ہے اور فوری طور پر ملک بھر میں موت کی سزا پر عملدرامد ہی معطل کردیا جاتا ہے۔ اب جسے جو کرنا ہے ، ملک بھر میں کرتا پھرے، کم از کم اسے موت کی سزا نہیں مل سکتی۔ اس سے ملک میں حکومت اور ریاست کی رٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ڈیرہ جیل پر حملہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ اب تک صوبائی حکومت کے سربراہ عمران خان نہیں بتا سکے کہ ان کی حکومت کہاں بیٹھی سکون کی ڈفلی بجارہی تھی۔ وفاقی حکومت نہیں بتا رہی کہ اس کے زیر انتظام علاقے سے مجرم کیسے جلوس کی شکل میں ڈیرہ اسمٰعیل خان پہنچے اور واردات کے بعد ڈھول تاشے بجاتے کس طرح واپس اپنی کمیں گاہوں تک بہ حفاظت پہنچ گئے۔ فوجی ترجمان بھی یہ بتانے کی زحمت نہیں کررہا کہ اس کی چھاوٴنی سے متصل جیل پر اس کے پاس اطلاع کے باوجود کس طرح کامیاب حملہ ہوگیا۔ راستے میں فوج کی متعدد چیک پوسٹوں کے باوجود کس طرح یہ مجرم وہاں پر پہنچ گئے۔ ڈیرہ حملہ ہو بھی گیا اور اب آہستہ آہستہ بھول کی نذر ہوتا جارہا ہے مگر مجال ہے کہ کسی نے ایک سانس بھی لی ہو۔
غیر ملکی قرض کا کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والے پانچ سو ملین ڈالر کے قرض کے نام پر آئی ایم ایف کی پاکستان کی تباہی کی ہر شق مانے چلے جارہے ہیں۔ مگر کس طرح ایک دم اس سے بھی زیادہ رقم انہوں نے نجی بجلی گھروں کو دے دی۔ اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ کیوں ختم نہیں ہوئی۔ اگر وہ یہ رقم ان نجی بجلی گھروں کے حوالے نہیں کرتے تو کم از کم آج ملک کو آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ تو نہیں پھیلانا پڑتا۔ نواز شریف نے ان بجلی گھر والوں سے تو ایک سوال جواب بھی نہیں کیا اور نہ ہی بجلی فراہم کرنے کی ضمانت لی۔ مگر پاکستانی حکومت آئی ایم ایف کی ہر شرط مان رہی ہے کہ مستقبل میں کتنی سانسیں کب اور کس طرح لے گی۔
اگر نواز شریف کے کارناموں کا ذکر سرسری بھی کیا جائے تو کم از کم پندرہ دن کے کالموں کا موضوع ہے۔ میں اس وقت نواز شریف اور زرداری کو چارج شیٹ نہیں کرنا چاہتا۔ نہ ہی عمران خان کے کمالات اور مذہبی جماعتوں کی قلابازیوں پر کچھ لکھنا چاہتاہوں۔ نہ ہی اس وقت بات لسانی جماعتوں اور علاقائی پارٹیوں کی چھتری میں چھپے مجرموں کی ہورہی ہے ۔ بات تو ایران پر حملے اور اس سے قبل پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ سے شروع ہوئی تھی۔ میں تو اس وقت یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کے لئے ماحول ہر وقت تیار رہتا ہے اور تیار ہے۔ لوگ نواز شریف سے عاجز ہیں اور کہنے لگے ہیں کہ اس سے بہتر تو مشرف ہی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی ملک میں فوجی بوٹوں کی چاپ گونجے گی، اسے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ فوجی بوٹ اسلام آباد میں کب مارچ کریں گے، اس کا دارومدار ایران پر حملے کی تاریخ سے ہے۔پاکستان کی مجموعی صورتحال کو دیکھ کر کم از کم یہ اندازہ تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اس میں نواز شریف، زرداری، مشرف ، عمران خان اور دیگر سب لوگوں کا کردار ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کا نہیں ہے۔ یہ لوگ وہی کچھ کررہے اور بول رہے ہیں ، جو ان کے اسکرپٹ کے مطابق ہے۔اور یہ اسکرپٹ عالمی تحریک انقلاب کے ڈائریکٹروں کا دیا ہوا ہے جو اس دنیا میں ایک عالمگیر شیطانی حکومت ون ورلڈ گورنمنٹ کے قیام کی سازشوں پر کامیابی سے عملدرامد کررہے ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اوراپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔