SAYDANWAR
Senator (1k+ posts)
ساری دنیا میں ھٹ مین تو غیر قانونی طریقوں پر مل ہی جاتے ہیں چونکہ طمع زر انسان کے ایمان میں ضعف پیدا کردیتا ہے مگر ان ھٹ مین کے پاس باقاعدہ کسی اسکول سے کوئی نصابی کورس پاس کرنے کے بعد کسی مستند دستاویز یا سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا اگر کوئی شخص ھٹ مین ثابت ہوجائے تو وہ قاتل کہلاتا ہے اور مجرم ہونے کے ناطے اسکے نتائج کا سامنا کرتا ہے۔
اب مضمون کو لکھنے کی ضرورت پر آتے ہیں انڈیا پاکستان چونکہ برٹش کلونیل کلب کے ممبر ہیں انمیں وہی برٹش سسٹم کا رائج نصاب جو انگلینڈ میں نہیں چلتا وہی طریقئہ تعلیم کالے منیجروں کی کرپٹ انتظامیہ میں آجتک چل رہا ہے بلکہ حضرت انسان چاہے وہ سماج کے کسی بھی درجے سے تعلق رکھتا ہو اسکے اقتصادی حالات سے قطعا نظر دل میں اپنے بچوں کو سب سے پہلے ڈاکٹر ہی بنانا چاہتا ہے۔
حضرت انسان کی اس ہی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈو پاک کی "بدمعاش اشرافیہ"نے ملک میں لوٹمار کرنے والوں اور بیرون ملک ملازمت کرکے بچوں کو پالنے والوں کی جیب میں ہاتھ ڈالنے کی ترکیب سے عوام کو روشناس کیسےکروایا۔وہ بچے اور بچیاں جو ذہین ہوتے ہیں انہیں میرٹ کی بنیاد پر میڈیکل کالجز میں داخلے ملتے ہیں مگر پاکستان میں رہنے والی ایک پریولیج کلاس بھی ہوتی ہے جو خود ہسٹری،سوک،اکنامکس پڑھکر کسی طور بیوروکریٹ لگ جاتا ہے اور ظفر حجازی کی طرح لیڈروں کی خدمتیں
کرکے مخصوص کوٹے ان میڈیکل کالجز میں مقرر کرالیتے ہیں ،قطعہ نظر اسکے کہ بچے میں میڈیکل ڈاکٹر بننے کی صلاحیت ہے یا نہیں اس سیٹ پر داخلہ لیکر وہ بچہ بھی اثررسوخ کے سہارے مستند ڈاکٹر بن جاتا ہے۔
ان غیراخلاقی طریقوں کو دیکھ کر بدمعاش اشرافیہ کیسے اپنا حصہ ان لوگوں سے توقع نہ کرتی جو ملک میں لاکھوں روپے روز حرام کمارہے ہیں اور وہ والدین جو بیرونملک اپنے مقدر محنت اور اعلی تعلیمی قابلیت سے بیش بہا پیسہ کمارہے ہیں چنانچہ میڈیکل کالجز کو پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اجازت دے دی گئی۔ اکثر پرائیویٹ میڈیکل کالجز نے لوٹمار کی انتہا ماہانہ تین لاکھ اور زائید علاوہ رہائش وطعام کاریٹ نکالا چاہے بچہ پڑھے نہ پڑھے اسے چار سال بعد ڈاکٹری کی ڈگری دے کر بندے مارنے کا لائیسنس دیکر فارغ اور نئے بکروں(ھٹ مین) قاتلوں کی تلاش اور داخلے تیزی سے جاری۔مقابلہ پیسے والوں کے بچہ بکروں کی تلاش اور لائیسنس دینا ہے۔
پاکستان میں بھی وہ لوگ ڈاکٹر بندہ مار"آبادی گھٹاؤ" کہلاتے ہیں مگر وہاں تو مراثیوں کی طرح گاتے گاتے محاورے والا مارتے مارتے ڈاکٹر بن جاتا ہے۔مگر غالبا یورپ مجھے اندازے سے کہنا پڑرہا ہے اور یہاں امریکہ میں انٹرنس ٹیسٹ پاس کئے بغیر جسے یہاں کا ادارہ جسکا نام ای سی ایف ایم جی ہے وہ انکے پیپرورک کو چیک کرکےاسے یو ایس ایم ایل ای والوں کےحوالے کرتا ہے وہ اسکا امتحان لیکر اگر بچہ پاس ہوجاتا ہے تو سسٹم میں گھسنے دیتے ہیں فیل ہونے کی صورت میں بچے کا مستقبل خراب پھر کیشیئر،ٹیکسی ڈرائیور وغیرہ وغیرہ اور زندگی کی سامنے دشواریاں۔
اس تمام کہانی لکھنے کا مقصد اس بدمعاش اشرافیہ میں بھیڑ کی کھالوں میں چھپے ان بچوں کو قاتل بنانے والے افراد کا قلعہ قمہ کرنا لازمی ہی جو انسانوں کو قتل کرنے کا لائیسنس دیکر جرم کے مرتکب ہورہے ہیں اور وہاں عزت والے بنے دنیا گھومرہے ہیں۔
خداراپاکستان میں 39پبلک اداروں سے ہرسال 6850 اور58 پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے6150 کل ملاکر13000 ڈاکٹرز کی جگہ آدہے اگر قابل ڈاکٹر بننیں تو بچوں کو دعائیں اورانسانی جانوں کو قتل کرنے جیسے گھناؤنے فعل کا سدباب ہو سکتا ہے۔
عدالت عظمی پاکستان اگر جرائم کے سدباب پر کچھ کر رہی ہے تو ان میڈیکل کالجز کے مالکان کوقتل کے بدلے پھانسیاں ضرور دے۔
اب مضمون کو لکھنے کی ضرورت پر آتے ہیں انڈیا پاکستان چونکہ برٹش کلونیل کلب کے ممبر ہیں انمیں وہی برٹش سسٹم کا رائج نصاب جو انگلینڈ میں نہیں چلتا وہی طریقئہ تعلیم کالے منیجروں کی کرپٹ انتظامیہ میں آجتک چل رہا ہے بلکہ حضرت انسان چاہے وہ سماج کے کسی بھی درجے سے تعلق رکھتا ہو اسکے اقتصادی حالات سے قطعا نظر دل میں اپنے بچوں کو سب سے پہلے ڈاکٹر ہی بنانا چاہتا ہے۔
حضرت انسان کی اس ہی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈو پاک کی "بدمعاش اشرافیہ"نے ملک میں لوٹمار کرنے والوں اور بیرون ملک ملازمت کرکے بچوں کو پالنے والوں کی جیب میں ہاتھ ڈالنے کی ترکیب سے عوام کو روشناس کیسےکروایا۔وہ بچے اور بچیاں جو ذہین ہوتے ہیں انہیں میرٹ کی بنیاد پر میڈیکل کالجز میں داخلے ملتے ہیں مگر پاکستان میں رہنے والی ایک پریولیج کلاس بھی ہوتی ہے جو خود ہسٹری،سوک،اکنامکس پڑھکر کسی طور بیوروکریٹ لگ جاتا ہے اور ظفر حجازی کی طرح لیڈروں کی خدمتیں
کرکے مخصوص کوٹے ان میڈیکل کالجز میں مقرر کرالیتے ہیں ،قطعہ نظر اسکے کہ بچے میں میڈیکل ڈاکٹر بننے کی صلاحیت ہے یا نہیں اس سیٹ پر داخلہ لیکر وہ بچہ بھی اثررسوخ کے سہارے مستند ڈاکٹر بن جاتا ہے۔
ان غیراخلاقی طریقوں کو دیکھ کر بدمعاش اشرافیہ کیسے اپنا حصہ ان لوگوں سے توقع نہ کرتی جو ملک میں لاکھوں روپے روز حرام کمارہے ہیں اور وہ والدین جو بیرونملک اپنے مقدر محنت اور اعلی تعلیمی قابلیت سے بیش بہا پیسہ کمارہے ہیں چنانچہ میڈیکل کالجز کو پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اجازت دے دی گئی۔ اکثر پرائیویٹ میڈیکل کالجز نے لوٹمار کی انتہا ماہانہ تین لاکھ اور زائید علاوہ رہائش وطعام کاریٹ نکالا چاہے بچہ پڑھے نہ پڑھے اسے چار سال بعد ڈاکٹری کی ڈگری دے کر بندے مارنے کا لائیسنس دیکر فارغ اور نئے بکروں(ھٹ مین) قاتلوں کی تلاش اور داخلے تیزی سے جاری۔مقابلہ پیسے والوں کے بچہ بکروں کی تلاش اور لائیسنس دینا ہے۔
پاکستان میں بھی وہ لوگ ڈاکٹر بندہ مار"آبادی گھٹاؤ" کہلاتے ہیں مگر وہاں تو مراثیوں کی طرح گاتے گاتے محاورے والا مارتے مارتے ڈاکٹر بن جاتا ہے۔مگر غالبا یورپ مجھے اندازے سے کہنا پڑرہا ہے اور یہاں امریکہ میں انٹرنس ٹیسٹ پاس کئے بغیر جسے یہاں کا ادارہ جسکا نام ای سی ایف ایم جی ہے وہ انکے پیپرورک کو چیک کرکےاسے یو ایس ایم ایل ای والوں کےحوالے کرتا ہے وہ اسکا امتحان لیکر اگر بچہ پاس ہوجاتا ہے تو سسٹم میں گھسنے دیتے ہیں فیل ہونے کی صورت میں بچے کا مستقبل خراب پھر کیشیئر،ٹیکسی ڈرائیور وغیرہ وغیرہ اور زندگی کی سامنے دشواریاں۔
اس تمام کہانی لکھنے کا مقصد اس بدمعاش اشرافیہ میں بھیڑ کی کھالوں میں چھپے ان بچوں کو قاتل بنانے والے افراد کا قلعہ قمہ کرنا لازمی ہی جو انسانوں کو قتل کرنے کا لائیسنس دیکر جرم کے مرتکب ہورہے ہیں اور وہاں عزت والے بنے دنیا گھومرہے ہیں۔
خداراپاکستان میں 39پبلک اداروں سے ہرسال 6850 اور58 پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے6150 کل ملاکر13000 ڈاکٹرز کی جگہ آدہے اگر قابل ڈاکٹر بننیں تو بچوں کو دعائیں اورانسانی جانوں کو قتل کرنے جیسے گھناؤنے فعل کا سدباب ہو سکتا ہے۔
عدالت عظمی پاکستان اگر جرائم کے سدباب پر کچھ کر رہی ہے تو ان میڈیکل کالجز کے مالکان کوقتل کے بدلے پھانسیاں ضرور دے۔
Last edited by a moderator: