پاکستانی مریضوں کے لیے بھارتی مسیحا
دویہ آریہ
بی بی سی ہندی، دہلی
آخری وقت اشاعت: ہفتہ 28 ستمبر 2013 ,* 04:20 GMT 09:20 PST
محمد سجاد پاکستان سے بھارت علاج کی غرض سے آئے ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے مابین باہمی رشتوں کے الجھتے تاروں کو سلجھانے کی کوشش وہیں کے لوگ کر رہے ہیں۔
سرحد پر فائرنگ کے واقعات اپنی جگہ لیکن یہ حالات علاج کے لیے بھارت کا رخ کرنے والے پاکستانی مریضوں پر اثر انداز نہیں ہو رہے اور وہ بڑی تعداد میں علاج معالجے کے لیے بھارت کا رخ کر رہے ہیں۔
چالیس سالہ عبدالحسین پاکستان کے صوبہ سندھ سے 20 دن قبل دہلی کے اپولو ہسپتال آئے جہاں انہوں نے اپنے جگر اور گردوں کا علاج کروانا ہے۔
حسین بتاتے ہیں کہ پاکستان میں یہ علاج دستیاب نہیں ہے اس لیے بھارت آنے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملک کی عوام کے دل میں کوئی نفرت نہیں ہے، سرحد پر جو ہو رہا ہے ، اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان سے میڈیکل ویزا پر آنے والے لوگوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان سے آنے والے مریض زیادہ تر جگر اور گردوں کی پیوند کاری، دل کے آپریشن اور آئی وی ایف کے علاج کے لیے بھارت آتے ہیں۔
اسی طرح وسیم کی بیٹی سات ماہ کی تھی جب وہ پہلی بار دہلی آئے تھے۔ اب وہ ڈیڑھ سال کی ہے اور اس کامیاب آپریشن کے بعد وہ واپس پاکستان جانے کی تیاری میں ہیں۔
وسیم کہتے ہیں: ہمیں یہاں بالکل اپنے ملک جیسا لگتا ہے۔ لوگ بھی اپنے لگتے ہیں اور رہن سہن بھی۔ لوگ بہت گرم جوشی سے ملتے ہیں، اس ماحول میں سیاسی باتیں بہت عجیب لگتی ہیں۔
سجاد بھی اپنی ڈیڑھ سال کی بچی کے جگر کا ٹرانسپلانٹ کروا چکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے سیاسی مسائل کو حل کرنا ضروری ہے لیکن میڈیا پر اس پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کا الزام لگاتے ہیں۔
عبدالحسین جگر اور گردے کے علاج کے لیے دہلی کے اپولو ہسپتال آئےہوئے ہیں
سجاد نے بی بی سی کو بتایا: دونوں ملکوں کی پریشانیاں ایک جیسی ہیں، ضرورت ہے کہ ان کو سلجھایا جائے اور کوئی بھی جنگ دونوں ممالک کے لیے مناسب نہیں ہے۔
اپولو ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر انوپم سبل کہتے ہیں کہ تمام بین الاقوامی مریضوں کے مقابلے پاکستان سے آنے والے لوگوں کو زبان اور رہن سہن کے ایک جیسے طریقوں کی وجہ سے یہاں رہنا بہت آسان لگتا ہے۔
انوپم سبل کہتے ہیں: دونوں ممالک کے درمیان لوگوں کا آنا جانا بہت ضروری ہے کیونکہ یہی طریقہ ہے دونوں ممالک کو سمجھنے کا۔ اس لیے طالب علموں، ڈاکٹروں اور پیشہ ور لوگوں کا آپسی میل جول بڑھانا لازمی ہے۔
دیگر ممالک کی طرح علاج کے لیے بھارت آنے کو مائل پاکستانیوں کے لیے میڈیکل ویزے کے بعض اصول ہیں۔ یہ میڈیکل ویزہ زیادہ سے زیادہ ایک سال کے لیے جاری کیا جاتا ہے اور اس کے تحت تین بار بھارت آیا جا سکتا ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2013/09/130928_india_pak_mediacal_tourism_mb.shtmlدویہ آریہ
بی بی سی ہندی، دہلی
آخری وقت اشاعت: ہفتہ 28 ستمبر 2013 ,* 04:20 GMT 09:20 PST
محمد سجاد پاکستان سے بھارت علاج کی غرض سے آئے ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے مابین باہمی رشتوں کے الجھتے تاروں کو سلجھانے کی کوشش وہیں کے لوگ کر رہے ہیں۔
سرحد پر فائرنگ کے واقعات اپنی جگہ لیکن یہ حالات علاج کے لیے بھارت کا رخ کرنے والے پاکستانی مریضوں پر اثر انداز نہیں ہو رہے اور وہ بڑی تعداد میں علاج معالجے کے لیے بھارت کا رخ کر رہے ہیں۔
چالیس سالہ عبدالحسین پاکستان کے صوبہ سندھ سے 20 دن قبل دہلی کے اپولو ہسپتال آئے جہاں انہوں نے اپنے جگر اور گردوں کا علاج کروانا ہے۔
حسین بتاتے ہیں کہ پاکستان میں یہ علاج دستیاب نہیں ہے اس لیے بھارت آنے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملک کی عوام کے دل میں کوئی نفرت نہیں ہے، سرحد پر جو ہو رہا ہے ، اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان سے میڈیکل ویزا پر آنے والے لوگوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان سے آنے والے مریض زیادہ تر جگر اور گردوں کی پیوند کاری، دل کے آپریشن اور آئی وی ایف کے علاج کے لیے بھارت آتے ہیں۔
اسی طرح وسیم کی بیٹی سات ماہ کی تھی جب وہ پہلی بار دہلی آئے تھے۔ اب وہ ڈیڑھ سال کی ہے اور اس کامیاب آپریشن کے بعد وہ واپس پاکستان جانے کی تیاری میں ہیں۔
وسیم کہتے ہیں: ہمیں یہاں بالکل اپنے ملک جیسا لگتا ہے۔ لوگ بھی اپنے لگتے ہیں اور رہن سہن بھی۔ لوگ بہت گرم جوشی سے ملتے ہیں، اس ماحول میں سیاسی باتیں بہت عجیب لگتی ہیں۔
سجاد بھی اپنی ڈیڑھ سال کی بچی کے جگر کا ٹرانسپلانٹ کروا چکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے سیاسی مسائل کو حل کرنا ضروری ہے لیکن میڈیا پر اس پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کا الزام لگاتے ہیں۔
عبدالحسین جگر اور گردے کے علاج کے لیے دہلی کے اپولو ہسپتال آئےہوئے ہیں
سجاد نے بی بی سی کو بتایا: دونوں ملکوں کی پریشانیاں ایک جیسی ہیں، ضرورت ہے کہ ان کو سلجھایا جائے اور کوئی بھی جنگ دونوں ممالک کے لیے مناسب نہیں ہے۔
اپولو ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر انوپم سبل کہتے ہیں کہ تمام بین الاقوامی مریضوں کے مقابلے پاکستان سے آنے والے لوگوں کو زبان اور رہن سہن کے ایک جیسے طریقوں کی وجہ سے یہاں رہنا بہت آسان لگتا ہے۔
انوپم سبل کہتے ہیں: دونوں ممالک کے درمیان لوگوں کا آنا جانا بہت ضروری ہے کیونکہ یہی طریقہ ہے دونوں ممالک کو سمجھنے کا۔ اس لیے طالب علموں، ڈاکٹروں اور پیشہ ور لوگوں کا آپسی میل جول بڑھانا لازمی ہے۔
دیگر ممالک کی طرح علاج کے لیے بھارت آنے کو مائل پاکستانیوں کے لیے میڈیکل ویزے کے بعض اصول ہیں۔ یہ میڈیکل ویزہ زیادہ سے زیادہ ایک سال کے لیے جاری کیا جاتا ہے اور اس کے تحت تین بار بھارت آیا جا سکتا ہے