پاکستان، ایف بی آئی اور ڈچ پولیس کی مشترکہ کارروائی، 21 ملزمان گرفتار

image.png



نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) اور ڈچ پولیس کے تعاون سے لاہور اور ملتان میں ایک اہم مشترکہ کارروائی کی ہے، جس میں ایک بین الاقوامی سائبر کرائم گروہ کو بے نقاب کر لیا گیا۔ اس کارروائی کے دوران 21 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے جو کروڑوں ڈالر مالیت کے ڈیجیٹل فراڈ اور سائبر جرائم میں ملوث تھے۔


گرفتاریوں کا آغاز اور گروہ کی سرگرمیاں


ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، این سی سی آئی اے نے 15 اور 16 مئی کو لاہور کے علاقے بحریہ ٹاؤن اور ملتان میں چھاپے مارے، جن کے دوران 'ہارٹ سینڈر گروپ' نامی مجرمانہ نیٹ ورک کا انکشاف ہوا۔ یہ گروہ نہ صرف خود مالیاتی دھوکہ دہی میں ملوث تھا بلکہ دنیا بھر میں سائبر جرائم کے آلات اور سہولتیں بھی فراہم کرتا تھا۔


گرفتار ملزمان میں لاہور سے تعلق رکھنے والے رمیز شہزاد (گروہ کا سرغنہ)، اس کے والد محمد اسلم، عاطف حسین، محمد عمر ارشاد، یاسر علی، سید صائم علی شاہ، محمد نوشیروان، برہان الحق، عدنان منور اور عبدالمعیز شامل ہیں۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ملزمان میں حسنین حیدر (ملتان آپریشنز کا سربراہ)، بلال احمد، دلبر حسین، محمد عدیل اکرم، اویس رسول، اسامہ فاروق، اسامہ محمود اور حمد نواز شامل ہیں۔


گروہ کی سائبر کرائم سرگرمیاں


این سی سی آئی اے کے حکام کے مطابق، یہ گروہ سائبر کرائم فراہم کرنے والے نیٹ ورک کے طور پر کام کر رہا تھا اور اس کی سرگرمیوں میں فشنگ کٹس، جعلی ویب پیج ٹیمپلیٹس اور ای میل ایکسٹریکٹرز کی تیاری و فروخت شامل تھی۔ یہ تمام مصنوعات 'سیکیورٹی سافٹ ویئر سے ناقابلِ شناخت' ہونے کے دعوے کے ساتھ آن لائن فروخت کی جا رہی تھیں۔


گروہ نے اپنی تیار کردہ ویڈیو ٹیوٹوریلز کے ذریعے خریداروں کو ان ٹولز کو دھوکہ دہی اور مالی نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی تربیت دی تھی۔


گروہ کا سربراہ اور اہم جگہوں پر چھاپے


گروہ کا سربراہ، رمیز شہزاد لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں مکان نمبر 75 اور 797 سے نیٹ ورک کے تکنیکی و کاروباری معاملات چلاتا تھا، جبکہ اس کا ساتھی حسنین حیدر ملتان میں فاطمہ ایونیو پر پرائم مارٹ کے قریب کارروائیاں انجام دیتا تھا۔


چھاپوں کے دوران 32 ڈیجیٹل ڈیوائسز برآمد کی گئیں، جن میں سرورز بھی شامل ہیں جن میں دنیا بھر کے 11 ہزار سے زائد متاثرین کے گروپ سے تعلق کے شواہد موجود ہیں۔ حکام نے گروہ کی غیر قانونی کمائی سے حاصل کی گئی ایک لیمبورگینی اور دیگر لگژری گاڑیاں ضبط کر لی ہیں اور دبئی میں جائیدادوں سے متعلق دستاویزات بھی قبضے میں لے لی ہیں۔


گروہ کے مالیاتی نقصانات اور تحقیقات


این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالغفار کے مطابق، گروہ کے تیار کردہ ٹولز کے ذریعے امریکا میں 50 ملین ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے، جبکہ یورپی ممالک میں مزید 63 مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں۔


عبدالغفار نے پریس بریفنگ میں کہا کہ یہ گروہ محض ایک اسکیم نیٹ ورک نہیں تھا، بلکہ ایک 'سائبر کرائم یونیورسٹی' تھا جو دنیا بھر کے فراڈیوں کو سہولت فراہم کر رہا تھا۔


اعترافات اور تفتیش کے نئے پہلو


تفتیش کے دوران، گروہ کے سربراہ رمیز شہزاد کے والد محمد اسلم نے اپنے بیٹے کی مجرمانہ سرگرمیوں کا اعتراف کرتے ہوئے تفتیش کاروں کو بتایا کہ "میرا بیٹا آن لائن سرگرمیوں کے ذریعے دنیا بھر سے پیسے لوٹ رہا تھا"۔


اثاثے ضبط اور مزید تفتیش


حکام نے لاہور، ملتان اور دیگر جائیدادوں سمیت 48 کروڑ روپے مالیت کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔ گروہ سے منسلک 142 کرپٹو کرنسی والٹس کے ایڈریسز کی چھان بین بھی جاری ہے، جس کے بعد تمام ملزمان کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کر دیا گیا ہے۔ گروہ کے اہم مشتبہ افراد، جن میں لیہ اور میانوالی کے ساتھی شامل ہیں، اب بھی مفرور ہیں اور انٹرپول ریڈ نوٹس تیار کر رہا ہے۔


قانونی کارروائی


این سی سی آئی اے نے ملزمان کے خلاف الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام ایکٹ (پیکا) 2016 اور پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے، جبکہ انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کا 7 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے۔


یہ کارروائی پاکستان کے لیے ایک اہم کامیابی ہے جس سے نہ صرف سائبر کرائمز کے خلاف ملکی سطح پر کارروائی کی جا رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس گروہ کے خلاف مضبوط اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
 

Back
Top