پاپولر ووٹ اور مافیا سیاست کا اختتام

Shah Shatranj

Chief Minister (5k+ posts)
حقائق کو مد نظر رکھے بغیر اپنی سوچ سے ملکی سیاست کی تشریح کرنا انتہائی بیوقوفی ہے حقیقت یہ ہے اس وقت پاکستان میں نہ کوئی دلوں کا بادشاہ بھٹو ہے اور نا ہی پاکستان کی عوام اپنی ناک سے آگے سوچ سکتی ہے کہ کوئی تبدیلی واقع ہو . یہاں لوگ آج بھی افواہوں کے زور پر قتل و غارت کرتے ہیں جہاں نفرت ایک فرق بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے تو مخالف فرق کے پاس بھی نفرت کا ہتھیار زیادہ کارآمد نکل آتا ہے . جہاں میڈیا زرداری کے خلاف دن رات نفرت اگلتا رہتا ہے وہیں یہ نفرت پنجاب اور پنجابی قیادت کے خلاف پی پی کا کارآمد ہتھیار بن جاتی ہے خاص طور پر اپر پنجاب کے برہمنوں کے دماغ پی پی کی نفرت میں بہت زیادہ خراب زبان انتہائی غلیظ ہے بات اگر کوئی حق اور سچ کی کرے تو کوئی تبدیلی بھی واقع ہو اگر ہر کسی نے نفرت کو ہی ہتھیار بنانا ہے اور افواہوں اور الزاموں پر فیصلے سنانے ہیں تو کیسی تبدیلی . کچھ لوگوں نے ٹی وی پر بیٹھ کر لوگوں کو زرداری کے خلاف بڑھکا دیا کچھ لوگوں نے لاؤڈ سپیکر لگا کر عمران کو شیطان ثابت کر دیا بات ختم

مسلم لیگ ہمیشہ سے ہی پاپولر ووٹ اور مافیا کی مدد سے جیتی ہے . دیکھا جاۓ تو سندھ کی دو بڑی جماعتوں کے علاوہ کسی دوسری پارٹی میں پارٹی ورکر اور پارٹی تنظیم کا کوئی تصور نہیں . اس لیے پنجاب کی جتنی بھی سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ نے پاپولر ووٹ کی بنا پر تخلیق کیں وقت گزرنے کے بعد وہ نا پید ہو گیں . ایسا ہی مستقبل حکمران جماعت کا ہے کیوں کے جب ان کا ووٹر ناراض ہو جاتا ہے تو وہ ان کے جانے پر جشن مناتا ہے اور مٹھیاں بانٹتا ہے . اب جب کہ پاپولر ووٹ کا تصور ختم ہو رہا ہے اور زیادہ تر اس کا رخ تحریک انصاف کی طرف ہو گا تو ایسا ہی لگتا ہے اپر پنجاب میں اگلی کامیاب پارٹی تحریک انصاف ہی ہو گی . حکمران جماعت کی کارکردگی کی بدولت اخباروں کے اشتہار اور مسالے دار میڈیا کمپینز ناکام ہو جائیں گی ایسا ہی لگتا ہے کہ نون لیگ کا مستقبل بھی قاف لیگ جیسا ہی ہو گا

جنوبی پنجاب اور سندھ پر بدستور پیپلز پارٹی کی گرفت مظبوط ہی نظر آتی ہے . ایک طرف یوسف رضا گیلانی بحال ہو کر پیپلز پارٹی کی روایتی سپورٹ کو بحال کروا سکتے ہیں دوسری طرف جتنے تگڑے امیدوار جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے پاس ہیں دوسروں کے پاس نہیں ملتان ڈویژن میں گیلانی خاندان ، بہاولپور ڈویژن میں مخدوم احمد محمود اور ڈی جی خان میں ربانی کھر اس کے علاوہ کھوسہ خاندان بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے اشارے دے رہا ہے . جہاں پیپلز پارٹی کا روایتی اسٹبلشمنٹ مخالف ایجنڈہ کام دکھا سکتا ہے وہیں پنجاب مخالف سیاست بھی سرائیکی ووٹ کھینچ سکتی ہے ویسے بھی اگر علاقائی سیاست کا رنگ دیکھا جاۓ تو پی پی کی قیادت کو مقامی ہونے کی وجہ سے دوسری پارٹیوں کی پنجابی قیادتوں پر فوقیت حاصل رہے گی اور وہ علاقائی سیاست میں دوسری پارٹیوں کو مار دے سکتے ہیں
اپر پنجاب کی سیاست ہمیشہ سے ہی پاپولر ووٹ اور طاقتور امیدواروں کے گرد ہی گھومتی ہے اس مرتبہ یہ دونو ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوں گے . نون لیگ کے پاس طاقتور امیدوار لیکن پاپولر ووٹ تحریک انصاف کے ساتھ ہو گا جس کی وجہ کھچڑی پکتی نظر آتی ہے ایسے میں دوسری سیاسی جماعتیں بھی کامیاب ہو سکتی ہیں جب بہت ذیادہ تقسیم ہو تو ایسی پارٹی یا امیدوار ہی کامیاب ہوتا ہے جس کے پاس پکے سپورٹر موجود ہوں اور تنظیم مظبوط ہو
 
Last edited by a moderator:

Back
Top