پانچ جولائی 1977 یوم سیاہ

ABID QAZI

Politcal Worker (100+ posts)
19642687_808335719331566_5651808798780078475_n.jpg


پانچ جولائی 1977 یوم سیاہ

پانچ جولائی 1977 پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے کیوں کہ اس روز قوم کی امیدوں اور توقعات کو اس آمر نے روند ڈالا تھا، جو ان تمام مصائب کی بنیاد ہے جن سے آج تک عوام نبرد آزما ہے۔ انتہاپسندی، دہشتگردی، کلاشنکوف اور ڈرگ کلچر ضیاءُ کی آمریت کا تحفہ ہیں، اور اس نے پاکستان کے جمہوریت پسند، لبرل اور حقیقی محب وطن لوگوں کے خلاف وحشت کو بے لغام کردیا تھا۔ جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد بیگناہ اور نہتے پاکستانیوں پر حوالات سے لے کر ازیت گاہوں تک اور کوڑوں سے لے کر پھانسی گھاٹ تک، حتیٰ کہ بربریت اور تشدد کی تمام حربے استعمال کیئے گئے۔ بدترین انتقامی کارروایوں اور آمریتی ریاستی دہشتگردی کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستانی عوام اور بالخصوص جیالے ثابت قدم رہے اور جانفشانی سے جمہوریت کی جنگ لڑے۔ پی پی پی قائدین، کارکنان، جیالوں اور ان تمام عام شہریوں کو سلام جنہوں نے جمہوریت اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کی خاطر ضیاء کے مظالم کا سامنا کیا۔۔

پانچ جولائی 1977ء پاکستان میں جمہوری عمل پرنہ صرف شب خون مارا گیا بلکہ پاکستان کو مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا گیا اورمسلم امہ کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کیا گیا ۔
اسلام دشمنوں کے سہولت کار ضیاء لعین ! تیری نسلیں اس کی سزا بھگتی رہیں اور ہر دور میں تجھے وطن فروش کا خطاب ملتا رہیگا۔



 

ABID QAZI

Politcal Worker (100+ posts)
19731967_808668495964955_8742506697550895489_n.jpg


ضیاء زندہ ہے

نہ کہیں ماتمی جلسہ، نہ کوئی یادگاری ٹکٹ، نہ کسی بڑے چوک پر اسکا بت، نہ کسی پارٹی جھنڈے پر اُسکی کی تصویر، نہ اُسکے مزار پر پرستاروں کا ہجوم، نہ کسی کو یہ معلوم کہ مزار کے نیچے کیا دفن ہے۔ نہ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں اُسکے فرمودات، نہ ہر لحظ اُٹھتے سیاسی ہنگاموں میں اسکی بات۔ نہ بڑے لوگوں کے ڈرائنگ روموں میں اُسکے ساتھ کھنچوائی ہوئی کوئی تصویر، نہ کسی کتب خانے میں اُسکے کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کوئی تحریر۔ نہ کوئی سیاستدان چھاتی پر ہاتھ مار کر کہتا ہے میں اسکا مشن پورا کروں گا۔ نہ کوئی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے کہ مولا ہمیں ایک ایسا ہی نجات دہندہ اور دے۔
اگر یہ بچوں کی کہانی ہوتی تو ہم یہاں پر کہہ سکتے تھے کہ پس ثابت ہوا کہ ظلم کو دوام نہیں، ظالم کو کوئی اچھے لفظوں میں یاد نہیں رکھتا اپنے آپکو خدا سمجھنے والے ریت کے بت ہوتے ہیں۔ تاریخ سب سے بڑی منصف ہے اور اُسکی کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ وہ آپ کا نام نشان مٹا دیتی ہے۔ دیکھو، دیکھو کیا عبرت کا نشان ہے کہ جس شخص نے پوری قوم کو ٹکٹکی پر لٹکایا۔ آئین کو کاغذ کا چیتھڑا بتایا، عوامی لیڈروں کو سولی پر لٹکایا، باقی سیاستدانوں کو اپنے در کا کتا قرار دیا، جو اپنے لوگوں کو غلام بنا کر افغانستان، بھارتی پنجاب اور کشمیر کو آزاد کرانے چلا جس نے اپنی طمع کو اللہ کا قانون قرار دیا اور اللہ کے قانون کو گلی گلی بدنام کیا۔ آج اس کا نام بھی بھلا دیا گیا۔
اسکے دسترخوان سے فیض یاب ہونے والے بھی اُسکے ذکر پر یوں منہ بناتے ہیں جیسے نوالے میں کوئی حرام چیز آگئی ہو۔
ضیاء کسی انسان کا نام ہوتا تو شاید ہم بھول گئے ہوتے، لیکن وہ ایک سوچ کا نام تھا، فکر کا نام تھا۔ یا یوں کہیے ایک وبا کا نام تھا جو ہمارے خون میں سراعیت کر گئی اور ہمیں پتہ بھی نہ چلا۔
جب بھی کبھی ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کا نعرہ سنتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ ان دیوانوں کو سمجھاؤں کہ نہیں بھٹو پھانسی پر جھول گیا آؤ تمہیں دکھاتا ہوں کہ کون زندہ ہے۔ دیکھوں تمھاری سڑکوں، چوکوں پر، تمہاری ریڈیائی لہروں پر، تمہارے موبائل فون کی رِنگ ٹون میں، جدھر دیکھو، جدھر سنو، ضیاء زندہ ہے۔
وہ زندہ ہے ہمارے بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں، ان کو سنائی جانے والی لوریوں میں، ہمارے آئین میں، قانون میں، اس قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ضمیر میں، اس قانون کو اللہ کا قانون بنانے کا وعدہ کرنے والے کے دماغ میں۔ وہ زندہ ہے مسجدوں میں پھٹنے والے سرفروش نوجوانوں کے دلوں میں، وہ زندہ ہے ٹی وی کے ڈراموں میں، ٹی وی ٹاک شو کے میزبانوں میں، ہمارے حلق سے نکلی جعلی عربی آوازوں میں، وہ زندہ ہے حجابوں میں، نقابوں میں، ہیروئین کی دولت سے بنے محلوں میں، لگثرری عمروں میں، حرام کو حلال کرتے بینک اکاؤنٹوں میں۔
وہ زندہ ہے شادی پہ چلائی جانے والی کلاشنکوف کی آواز میں، وہ چھپا ہے ہر اُس چوک پہ جہاں ستر سالہ بڑھیا بھیک مانگتی ہے اور آپکو حاجی صاحب کہہ کر پکارتی ہے۔ وہ زندہ ہے ہر اس پولیس والے کے سوال میں جب وہ کہتا ہے نکاح نامہ کہاں ہے۔ وہ اپنا خراج مانگتا ہے جب کہتا ہے کہ دوسروں کو کافر قرار نہیں دوگے تو شناختی کارڈ نہیں ملے گا۔
وہ زندہ ہے اور آسیہ بی بی کی کال کوٹھڑی کا پہرے دار ہے۔ وہ ہر احمدی، ہر شیعہ، ہر ہندو، ہر عیسائی کے سر پہ لٹکی تلوار ہے۔ (ان میں مزار پر دھمال ڈالنے والوں، یارسول اللہ کہنے والوں یا ننگے سر نماز پڑھنے والوں کو بھی شامل کریں)۔
وہ زندہ ہے ہمارے سیاسی ڈھانچے میں، ہماری چادر اور چار دیواری میں، ہمارے احتساب میں، ہمارے مثبت نتائج میں، ہمارے نظام مصطفیٰ کی تلاش میں، ہمارے امتِ مسلمہ کے خواب میں، وہ زندہ ہے ہمارے ہر عذاب میں۔
جب احمد پور شرقیہ کے چنی گوٹھ چوک پر ہزاروں لوگ اکھٹے ہوتے ہیں اور ایک ملنگ پر تیل چھڑکنا شروع کرتے ہیں تو وہ اس ہجوم میں شامل ہر شخص کے دل میں زندہ ہے۔ جب ملنگ کو آگ لگائی جاتی ہے اور وہ چیختا ہے تو لوگوں کی سفاکانہ خاموشی میں سے یہی آواز آتی ہے۔ دیکھو میں زندہ ہوں۔

تحریر محمد حنیف
بی بی سی

 

HSiddiqui

Chief Minister (5k+ posts)
19731967_808668495964955_8742506697550895489_n.jpg


ضیاء زندہ ہے

نہ کہیں ماتمی جلسہ، نہ کوئی یادگاری ٹکٹ، نہ کسی بڑے چوک پر اسکا بت، نہ کسی پارٹی جھنڈے پر اُسکی کی تصویر، نہ اُسکے مزار پر پرستاروں کا ہجوم، نہ کسی کو یہ معلوم کہ مزار کے نیچے کیا دفن ہے۔ نہ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں اُسکے فرمودات، نہ ہر لحظ اُٹھتے سیاسی ہنگاموں میں اسکی بات۔ نہ بڑے لوگوں کے ڈرائنگ روموں میں اُسکے ساتھ کھنچوائی ہوئی کوئی تصویر، نہ کسی کتب خانے میں اُسکے کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کوئی تحریر۔ نہ کوئی سیاستدان چھاتی پر ہاتھ مار کر کہتا ہے میں اسکا مشن پورا کروں گا۔ نہ کوئی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے کہ مولا ہمیں ایک ایسا ہی نجات دہندہ اور دے۔
اگر یہ بچوں کی کہانی ہوتی تو ہم یہاں پر کہہ سکتے تھے کہ پس ثابت ہوا کہ ظلم کو دوام نہیں، ظالم کو کوئی اچھے لفظوں میں یاد نہیں رکھتا اپنے آپکو خدا سمجھنے والے ریت کے بت ہوتے ہیں۔ تاریخ سب سے بڑی منصف ہے اور اُسکی کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ وہ آپ کا نام نشان مٹا دیتی ہے۔ دیکھو، دیکھو کیا عبرت کا نشان ہے کہ جس شخص نے پوری قوم کو ٹکٹکی پر لٹکایا۔ آئین کو کاغذ کا چیتھڑا بتایا، عوامی لیڈروں کو سولی پر لٹکایا، باقی سیاستدانوں کو اپنے در کا کتا قرار دیا، جو اپنے لوگوں کو غلام بنا کر افغانستان، بھارتی پنجاب اور کشمیر کو آزاد کرانے چلا جس نے اپنی طمع کو اللہ کا قانون قرار دیا اور اللہ کے قانون کو گلی گلی بدنام کیا۔ آج اس کا نام بھی بھلا دیا گیا۔
اسکے دسترخوان سے فیض یاب ہونے والے بھی اُسکے ذکر پر یوں منہ بناتے ہیں جیسے نوالے میں کوئی حرام چیز آگئی ہو۔
ضیاء کسی انسان کا نام ہوتا تو شاید ہم بھول گئے ہوتے، لیکن وہ ایک سوچ کا نام تھا، فکر کا نام تھا۔ یا یوں کہیے ایک وبا کا نام تھا جو ہمارے خون میں سراعیت کر گئی اور ہمیں پتہ بھی نہ چلا۔
جب بھی کبھی ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کا نعرہ سنتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ ان دیوانوں کو سمجھاؤں کہ نہیں بھٹو پھانسی پر جھول گیا آؤ تمہیں دکھاتا ہوں کہ کون زندہ ہے۔ دیکھوں تمھاری سڑکوں، چوکوں پر، تمہاری ریڈیائی لہروں پر، تمہارے موبائل فون کی رِنگ ٹون میں، جدھر دیکھو، جدھر سنو، ضیاء زندہ ہے۔
وہ زندہ ہے ہمارے بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں، ان کو سنائی جانے والی لوریوں میں، ہمارے آئین میں، قانون میں، اس قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ضمیر میں، اس قانون کو اللہ کا قانون بنانے کا وعدہ کرنے والے کے دماغ میں۔ وہ زندہ ہے مسجدوں میں پھٹنے والے سرفروش نوجوانوں کے دلوں میں، وہ زندہ ہے ٹی وی کے ڈراموں میں، ٹی وی ٹاک شو کے میزبانوں میں، ہمارے حلق سے نکلی جعلی عربی آوازوں میں، وہ زندہ ہے حجابوں میں، نقابوں میں، ہیروئین کی دولت سے بنے محلوں میں، لگثرری عمروں میں، حرام کو حلال کرتے بینک اکاؤنٹوں میں۔
وہ زندہ ہے شادی پہ چلائی جانے والی کلاشنکوف کی آواز میں، وہ چھپا ہے ہر اُس چوک پہ جہاں ستر سالہ بڑھیا بھیک مانگتی ہے اور آپکو حاجی صاحب کہہ کر پکارتی ہے۔ وہ زندہ ہے ہر اس پولیس والے کے سوال میں جب وہ کہتا ہے نکاح نامہ کہاں ہے۔ وہ اپنا خراج مانگتا ہے جب کہتا ہے کہ دوسروں کو کافر قرار نہیں دوگے تو شناختی کارڈ نہیں ملے گا۔
وہ زندہ ہے اور آسیہ بی بی کی کال کوٹھڑی کا پہرے دار ہے۔ وہ ہر احمدی، ہر شیعہ، ہر ہندو، ہر عیسائی کے سر پہ لٹکی تلوار ہے۔ (ان میں مزار پر دھمال ڈالنے والوں، یارسول اللہ کہنے والوں یا ننگے سر نماز پڑھنے والوں کو بھی شامل کریں)۔
وہ زندہ ہے ہمارے سیاسی ڈھانچے میں، ہماری چادر اور چار دیواری میں، ہمارے احتساب میں، ہمارے مثبت نتائج میں، ہمارے نظام مصطفیٰ کی تلاش میں، ہمارے امتِ مسلمہ کے خواب میں، وہ زندہ ہے ہمارے ہر عذاب میں۔
جب احمد پور شرقیہ کے چنی گوٹھ چوک پر ہزاروں لوگ اکھٹے ہوتے ہیں اور ایک ملنگ پر تیل چھڑکنا شروع کرتے ہیں تو وہ اس ہجوم میں شامل ہر شخص کے دل میں زندہ ہے۔ جب ملنگ کو آگ لگائی جاتی ہے اور وہ چیختا ہے تو لوگوں کی سفاکانہ خاموشی میں سے یہی آواز آتی ہے۔ دیکھو میں زندہ ہوں۔

تحریر محمد حنیف
بی بی سی

BULL SHIT......I agree Bhutto was a genius, but he did poisonous things, that are still haunting Pakistan, it was Bhutto due to whom Pakistan's industrial era came to an end, he nationalized industries to grant his favorite people some non-deserving lucrative positions and prove I can do any thing and grant any one I want, there is no one who can oppose me. He ruined education system in Sindh by hiring illiterates who cannot spell their own names, they are still in the ministry of educations, he had JAHIL ministers who broke every rule of law with pride, he made a joke of Pakistan all over the world he became a power hungry maniac.
He did a very good thing that was Islamic block, Islamic bank, and Islamic bomb and made anti Islamic powers against him and some how they succeeded to bring cases against him on the surface and used a very pious and respected person ZIA UL HAQUE to finish the job of hanging Bhutto for murdering Kasuri, being in jail after his arrest he ordered and killed at least five people who could be the witness of that case, he did what ever he could do with money, but he never had real friends because of his dictator's mentality and no one sincerely stood for him when he got in Jail. Today once again a group of greedy bastards chant ZINDA HAI BHUTTO ZINDA HAI and see what are the doing in the name of dead Bhutto, just looting and corruption of all types.
ZIA was a God fearing person who did what he thought the best for the country, and later was assassinated as a punishment for being Pakistani patriot by the same powers who used him to eliminate Bhutto. It is complicated history, we can not totally reject Bhutto neither we can blame Zia Ul Haque, we can only lern from the past and try not to repeat the same mistakes in future. Pakistan Payindabad
 

Shareef_Aadmi

MPA (400+ posts)
Jis tarah eik group kay liyee Bhutto zinda hai use tarah doosray group kay liyee Zia zinda hai...

Aapas mein lartay rahoo - sabaash.

Jis din donoo groups ney yeh accept kar liya ka Bhutto aur Zia finally mar gay hain, us din yeh debate khatam ho jai gee.
 

ABID QAZI

Politcal Worker (100+ posts)
مریم جب حاملہ ہوئی ، ویڈیو ایک دفعہ ضرور دیکھیں

 

ASQR1

Chief Minister (5k+ posts)
BULL SHIT......I agree Bhutto was a genius, but he did poisonous things, that are still haunting Pakistan, it was Bhutto due to whom Pakistan's industrial era came to an end, he nationalized industries to grant his favorite people some non-deserving lucrative positions and prove I can do any thing and grant any one I want, there is no one who can oppose me. He ruined education system in Sindh by hiring illiterates who cannot spell their own names, they are still in the ministry of educations, he had JAHIL ministers who broke every rule of law with pride, he made a joke of Pakistan all over the world he became a power hungry maniac.
He did a very good thing that was Islamic block, Islamic bank, and Islamic bomb and made anti Islamic powers against him and some how they succeeded to bring cases against him on the surface and used a very pious and respected person ZIA UL HAQUE to finish the job of hanging Bhutto for murdering Kasuri, being in jail after his arrest he ordered and killed at least five people who could be the witness of that case, he did what ever he could do with money, but he never had real friends because of his dictator's mentality and no one sincerely stood for him when he got in Jail. Today once again a group of greedy bastards chant ZINDA HAI BHUTTO ZINDA HAI and see what are the doing in the name of dead Bhutto, just looting and corruption of all types.
ZIA was a God fearing person who did what he thought the best for the country, and later was assassinated as a punishment for being Pakistani patriot by the same powers who used him to eliminate Bhutto. It is complicated history, we can not totally reject Bhutto neither we can blame Zia Ul Haque, we can only lern from the past and try not to repeat the same mistakes in future. Pakistan Payindabad

YOU forgot to mention one very important fact about Bhutto. he was a pivotal force to make Mujeeb for creation of BanglaDesh, not once but twice, first time Mujeeb was arested in Agartala sazish and Bhutto forced Ayyub to release him, had he let the Mujeeb go through judicial system there would have been no Bangladesh or had he given the right that Majeeb earned after elections there would be no Bangladesh today.

So praisers of Bhutto use his name and his demise to make brownie points and ignore the facts that are noted above and in this post.