صحرائی
Chief Minister (5k+ posts)
اڑتیس برس بعد بھی اگر کوئی کہے کہ آج پاکستان کی جو شکل ہے اس کی ذمہ داری پانچ جولائی 1977 پر ہے تو پھر مجھے بھی یہ کہنے کا حق دیجیے کہ پانچ جولائی
1977 کو جو کچھ ہوا اس کا سبب 14 اگست 1947 ہے اور 14 اگست 1947 کو جوکچھ ہوا اس کا ذمہ دار دس مئی 1857 ہے جب منگل پانڈے نے میرٹھ چھاؤنی میں پہلی گولی چلائی۔
یہ گولی نہ چلتی اگر برطانوی ایلچی سر ٹامس رو سنہ 1615 میں جہانگیر کے دربار میں حاضری نہ دیتا اور جہانگیر ہی نہ ہوتا اگر بابر کو فرغانہ کی امارت مل جاتی اور اگر ، اور اگر ، اور اگر حضرت آدم ہی نہ ہوتے وغیرہ وغیرہ۔
آج بھی اگر مردے اتنے طاقتور ہیں کہ انھوں نے زندگی کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے تو پھر تو جو کچھ بھی ہو رہا ہے برحق ہے۔
تو کیا دورِ ضیا سے سبق لینے کا راستہ بھی ضیا الحق نے بند کردیا؟
مانا کہ ضیا الحق نے مجاہدین متعارف کرائے مگر مجاہدین کو طالبانی پروموشن کس نے دیا؟
ضیا نے تو قومی سیاسی جماعتوں کا قدگھٹانے کے لیے سیاسی بونوں کی کاشتکاری کی لیکن بعد از ضیا قدآور قومی جماعتیں کیوں بونی ہوتی چلی گئیں۔
ضیا نے تو دس برس قوم کی مشکیں کس کے حکومت کرلی مگر پرویز مشرف نے بغیر مشکیں کسے دس برس کیسے ہنس کھیل کے گزار لیے اور آج بھی ہمارے یہ دولہا بھائی آرٹیکل سکس کے جھولے پر ہلکورے لیتے مترنم سیٹی کیسے بجا رہے ہیں۔
تو کیا ضیا الحق نے 17 اگست 1988 کو سی ون تھرٹی پر سوار ہونے سے پہلے یہ حکم بھی جاری کیا تھا کہ خبردار میرے بعد کسی نے اگر گڈ گورننس کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی تو۔
یقیناً ضیا دور میں عدلیہ کو بھی لسی پلا کے تھپک دیا گیا تھا مگر آج تو جوڈیشل پھرتیوں کا زمانہ ہے۔ کوئی بتائے گا پچھلے 38 برس میں خصوصی و عمومی انصاف کی صحت کتنی بہتر ہوئی؟ تو کیا ضیا الحق کو اس لیے برا کہا جائے کہ اس کی قائم کردہ فوجی عدالتیں پارلیمانی غسل لیے بغیر کام کر رہی تھیں؟
ہاں ضیا الحق نے ڈنکے کی چوٹ پر مذہبی، سماجی اور ثقافتی حقوق اور وسیع المشرب اثاثے کو تعزیری گیس چیمبر میں دھکیل دیا، تو کیا گیس چیمبر کی چابی بھی وہ اپنے ساتھ ہی لے گیا۔
ہاں ضیا نے آواز کے لبوں پر ٹیپ لگا دیا تھا لیکن اب تو لب آزاد ہیں، پھر بھی غوغائے سگاں میں آواز کہاں ہے؟
ہاں ضیا نے ایم آر ڈی کی تحریک میں آگے آگے رہنے کی سب سے زیادہ سزا سندھ کو دی اور کراچی کے نسلی کوڑے سےگرفتارِ عشقِ بھٹو سندھیوں کی کمر نیلی کردی۔
پھر بھی پیپلز پارٹی قید خانے سے سیدھی کمر لیے فاتحانہ نکلی اور آج وہی ضیا الحق زرداری کی چلم
بھرتے ہوئے دوزانو شکرگزار ہے۔
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے ! یااستاد ( میر )
ہر فصل ہر زمین میں نہیں اگ سکتی، ورنہ تو بنگلہ دیش گندم میں اور پاکستان پٹ سن میں خود کفیل ہوتا۔
اسی طرح کچھ زمینیں آمریت کے لیے زرخیز ہوتی ہیں بھلے آمریت کسی بھی شکل میں ہو، اور بعض
زمینوں کا مزاج جمہوری ہوتا ہے بھلے فصل کی کوئی بھی شکل ہو۔
جس خطے میں کسی سیاسی کارکن کو ٹکٹکی پر سرِ عام کوڑے مارنے کا منظر دیکھنے والے ہزاروں تماشائی افسردہ، ساکت یا غصیلے ہونے کے بجائے تالیاں بجائیں، زندگی کے نسخے میں موت لکھنے والے عطائیوں کو مسیحا اور بعد از واقعہ ماتم کو دوا جانیں۔
جب ریاست طے کر لے کہ نظام کی فوٹو کاپی پر بس تصویر ہی بدلی جائےگی تو پھر یہ تصویر ہو کہ وہ تصویر، زندگی تو پانچ جولائی کے طوطے میں ہی بند رہے گی۔
Source
1977 کو جو کچھ ہوا اس کا سبب 14 اگست 1947 ہے اور 14 اگست 1947 کو جوکچھ ہوا اس کا ذمہ دار دس مئی 1857 ہے جب منگل پانڈے نے میرٹھ چھاؤنی میں پہلی گولی چلائی۔
یہ گولی نہ چلتی اگر برطانوی ایلچی سر ٹامس رو سنہ 1615 میں جہانگیر کے دربار میں حاضری نہ دیتا اور جہانگیر ہی نہ ہوتا اگر بابر کو فرغانہ کی امارت مل جاتی اور اگر ، اور اگر ، اور اگر حضرت آدم ہی نہ ہوتے وغیرہ وغیرہ۔
آج بھی اگر مردے اتنے طاقتور ہیں کہ انھوں نے زندگی کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے تو پھر تو جو کچھ بھی ہو رہا ہے برحق ہے۔
تو کیا دورِ ضیا سے سبق لینے کا راستہ بھی ضیا الحق نے بند کردیا؟
مانا کہ ضیا الحق نے مجاہدین متعارف کرائے مگر مجاہدین کو طالبانی پروموشن کس نے دیا؟
ضیا نے تو قومی سیاسی جماعتوں کا قدگھٹانے کے لیے سیاسی بونوں کی کاشتکاری کی لیکن بعد از ضیا قدآور قومی جماعتیں کیوں بونی ہوتی چلی گئیں۔

ضیا نے تو دس برس قوم کی مشکیں کس کے حکومت کرلی مگر پرویز مشرف نے بغیر مشکیں کسے دس برس کیسے ہنس کھیل کے گزار لیے اور آج بھی ہمارے یہ دولہا بھائی آرٹیکل سکس کے جھولے پر ہلکورے لیتے مترنم سیٹی کیسے بجا رہے ہیں۔
تو کیا ضیا الحق نے 17 اگست 1988 کو سی ون تھرٹی پر سوار ہونے سے پہلے یہ حکم بھی جاری کیا تھا کہ خبردار میرے بعد کسی نے اگر گڈ گورننس کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی تو۔
یقیناً ضیا دور میں عدلیہ کو بھی لسی پلا کے تھپک دیا گیا تھا مگر آج تو جوڈیشل پھرتیوں کا زمانہ ہے۔ کوئی بتائے گا پچھلے 38 برس میں خصوصی و عمومی انصاف کی صحت کتنی بہتر ہوئی؟ تو کیا ضیا الحق کو اس لیے برا کہا جائے کہ اس کی قائم کردہ فوجی عدالتیں پارلیمانی غسل لیے بغیر کام کر رہی تھیں؟
ہاں ضیا الحق نے ڈنکے کی چوٹ پر مذہبی، سماجی اور ثقافتی حقوق اور وسیع المشرب اثاثے کو تعزیری گیس چیمبر میں دھکیل دیا، تو کیا گیس چیمبر کی چابی بھی وہ اپنے ساتھ ہی لے گیا۔
ہاں ضیا نے آواز کے لبوں پر ٹیپ لگا دیا تھا لیکن اب تو لب آزاد ہیں، پھر بھی غوغائے سگاں میں آواز کہاں ہے؟
ہاں ضیا نے ایم آر ڈی کی تحریک میں آگے آگے رہنے کی سب سے زیادہ سزا سندھ کو دی اور کراچی کے نسلی کوڑے سےگرفتارِ عشقِ بھٹو سندھیوں کی کمر نیلی کردی۔
پھر بھی پیپلز پارٹی قید خانے سے سیدھی کمر لیے فاتحانہ نکلی اور آج وہی ضیا الحق زرداری کی چلم
بھرتے ہوئے دوزانو شکرگزار ہے۔
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے ! یااستاد ( میر )
ہر فصل ہر زمین میں نہیں اگ سکتی، ورنہ تو بنگلہ دیش گندم میں اور پاکستان پٹ سن میں خود کفیل ہوتا۔
اسی طرح کچھ زمینیں آمریت کے لیے زرخیز ہوتی ہیں بھلے آمریت کسی بھی شکل میں ہو، اور بعض
زمینوں کا مزاج جمہوری ہوتا ہے بھلے فصل کی کوئی بھی شکل ہو۔
جس خطے میں کسی سیاسی کارکن کو ٹکٹکی پر سرِ عام کوڑے مارنے کا منظر دیکھنے والے ہزاروں تماشائی افسردہ، ساکت یا غصیلے ہونے کے بجائے تالیاں بجائیں، زندگی کے نسخے میں موت لکھنے والے عطائیوں کو مسیحا اور بعد از واقعہ ماتم کو دوا جانیں۔
جب ریاست طے کر لے کہ نظام کی فوٹو کاپی پر بس تصویر ہی بدلی جائےگی تو پھر یہ تصویر ہو کہ وہ تصویر، زندگی تو پانچ جولائی کے طوطے میں ہی بند رہے گی۔
Source
Last edited by a moderator: