چھٹیوں کی آمد آمد تھی اور پچھلے دو دن سے سفر کی تیاری ہورہی تھی۔ فیملی کے پر فرد نے اپنی ضرورت کے سامان کی شاپنگ لسٹ مرتب کررکھی تھی اور ڈرائیور کا ایک پاؤں گاڑی کے ایکسیلیریٹر اور دوسرا پاؤں ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں تھا۔آج پورے کنبے نے سفر پر نکلنا تھا۔ ایک بڑی وین میں سامان لاد دیا گیا اور فیملی کیلئے سرکاری لینڈ کروزر منگوائی گئی۔ جب سب لوگ گاڑی میں بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے گاڑی چلانی شروع کردی۔ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بڑے جج صاحب خود بیٹھ گئے۔ ابھی گاڑی تھوڑی دور ہی گئی ہوگی کہ اچانک بڑے صاحب نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا اس نے گھر کا مین گیٹ لاک کردیا تھا؟روانگی کے وقت چونکہ افراتفری کا عالم تھا، ڈرائیور کو لگا کہ شاید وہ گیٹ کا تالا لگانا بھول گیا تھا۔ اس نے ہچکچاہٹ کے عالم میں صاحب کی طرف دیکھا اور کچھ جواب نہ دیا۔
جج صاحب نے تقریباً چیختے ہوئے ڈرائیور سے کہا کہ اس سے اتنی بڑی بھول کیسے ہوگئی؟ اس کی غفلت کی وجہ سے کتنا بڑا نقصان ہوسکتا تھا ۔ ۔ ۔۔ یہ کہہ کر جج صاحب نے ڈرائیور کو فوراً گاڑی موڑ کر واپس گھر چلنے کو کہا۔
چند منٹ بعد وہ گھر کے گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔ جج صاحب اور ڈرائیور نیچے اترے، گیٹ کو چیک کیا تو پتہ چلا کہ لاک لگا ہوا تھا۔ جج صاحب نے بے اختیار ایک اطمینان بھرا سانس لیا اور ڈرائیور سے واپس چلنے کو کہا۔
ڈرائیور بجائے گاڑی کی طرف چلنے کے، جج صاحب کے پاس آیا، اپنی کپتان چپل اتاری اور گن کر سپریم کورٹ کے جج کے سر پر 11 جوتے رسید کردیئے۔
جج کو مار پڑتے دیکھ کر اس کے گھر والے اور راہگیر بھی اکٹھے ہوگئے۔ جج صاحب نے غصے کے عالم میں اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ انہیں کیوں مارا؟
ڈرائیور نے جواب دیا:
آپ کو صرف شک ہوا کہ آپ کے گھر کا مین گیٹ کھلا رہ گیا ہوگا تو آپ سفر کے بیچ میں واپس گھر آگئے تاکہ تالا لگا کر تسلی کرلیں، اور دوسری طرف پاکستان کے حکمران اربوں روپے لوٹ کر کھا گئے، پانامہ کا کیس صرف 10 منٹ کی پیشی کی مار تھا، لیکن آپ سب جج لوگ کیس ادھورا چھوڑ کر چھٹیاں منانے چلے گئے ۔ ۔ ۔ اور یہ بھی نہ سوچا کہ ملک کی حکمرانی خون آشام بھیڑیوں کے ہاتھ ھے۔ ایک طرف تو گھر کا دروازہ کھلا رہنے کی اتنی پریشانی اور دوسری طرف ملکی خزانے پر ایک ڈاکو بیٹھا ھے اور اس کی کوئی پرواہ نہیں؟؟؟
یہ سن کر وہاں موجود راہگیروں نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔ جج صاحب کو بھی اس ڈرائیور کی بات کی سمجھ لگ گئی اور انہوں نے سر سہلاتے ہوئے شرمندگی کے احساس سے ڈوبے لہجے میں ڈرائیور سے کہا:
تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے سوچا ھے کہ اب میں چھٹیاں منانے لندن نہیں بلکہ نزدیک میں واقع دبئی جاؤں گا۔ ۔ ۔
یہ سن کر ڈرائیور نے 11 جوتے مزید جج صاحب کے سر پر رسید کردیئے
چھٹیوں کی آمد آمد تھی اور پچھلے دو دن سے سفر کی تیاری ہورہی تھی۔ فیملی کے پر فرد نے اپنی ضرورت کے سامان کی شاپنگ لسٹ مرتب کررکھی تھی اور ڈرائیور کا ایک پاؤں گاڑی کے ایکسیلیریٹر اور دوسرا پاؤں ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں تھا۔آج پورے کنبے نے سفر پر نکلنا تھا۔ ایک بڑی وین میں سامان لاد دیا گیا اور فیملی کیلئے سرکاری لینڈ کروزر منگوائی گئی۔ جب سب لوگ گاڑی میں بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے گاڑی چلانی شروع کردی۔ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بڑے جج صاحب خود بیٹھ گئے۔ ابھی گاڑی تھوڑی دور ہی گئی ہوگی کہ اچانک بڑے صاحب نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا اس نے گھر کا مین گیٹ لاک کردیا تھا؟روانگی کے وقت چونکہ افراتفری کا عالم تھا، ڈرائیور کو لگا کہ شاید وہ گیٹ کا تالا لگانا بھول گیا تھا۔ اس نے ہچکچاہٹ کے عالم میں صاحب کی طرف دیکھا اور کچھ جواب نہ دیا۔
جج صاحب نے تقریباً چیختے ہوئے ڈرائیور سے کہا کہ اس سے اتنی بڑی بھول کیسے ہوگئی؟ اس کی غفلت کی وجہ سے کتنا بڑا نقصان ہوسکتا تھا ۔ ۔ ۔۔ یہ کہہ کر جج صاحب نے ڈرائیور کو فوراً گاڑی موڑ کر واپس گھر چلنے کو کہا۔
چند منٹ بعد وہ گھر کے گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔ جج صاحب اور ڈرائیور نیچے اترے، گیٹ کو چیک کیا تو پتہ چلا کہ لاک لگا ہوا تھا۔ جج صاحب نے بے اختیار ایک اطمینان بھرا سانس لیا اور ڈرائیور سے واپس چلنے کو کہا۔
ڈرائیور بجائے گاڑی کی طرف چلنے کے، جج صاحب کے پاس آیا، اپنی کپتان چپل اتاری اور گن کر سپریم کورٹ کے جج کے سر پر 11 جوتے رسید کردیئے۔
جج کو مار پڑتے دیکھ کر اس کے گھر والے اور راہگیر بھی اکٹھے ہوگئے۔ جج صاحب نے غصے کے عالم میں اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ انہیں کیوں مارا؟
ڈرائیور نے جواب دیا:
آپ کو صرف شک ہوا کہ آپ کے گھر کا مین گیٹ کھلا رہ گیا ہوگا تو آپ سفر کے بیچ میں واپس گھر آگئے تاکہ تالا لگا کر تسلی کرلیں، اور دوسری طرف پاکستان کے حکمران اربوں روپے لوٹ کر کھا گئے، پانامہ کا کیس صرف 10 منٹ کی پیشی کی مار تھا، لیکن آپ سب جج لوگ کیس ادھورا چھوڑ کر چھٹیاں منانے چلے گئے ۔ ۔ ۔ اور یہ بھی نہ سوچا کہ ملک کی حکمرانی خون آشام بھیڑیوں کے ہاتھ ھے۔ ایک طرف تو گھر کا دروازہ کھلا رہنے کی اتنی پریشانی اور دوسری طرف ملکی خزانے پر ایک ڈاکو بیٹھا ھے اور اس کی کوئی پرواہ نہیں؟؟؟
یہ سن کر وہاں موجود راہگیروں نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔ جج صاحب کو بھی اس ڈرائیور کی بات کی سمجھ لگ گئی اور انہوں نے سر سہلاتے ہوئے شرمندگی کے احساس سے ڈوبے لہجے میں ڈرائیور سے کہا:
تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے سوچا ھے کہ اب میں چھٹیاں منانے لندن نہیں بلکہ نزدیک میں واقع دبئی جاؤں گا۔ ۔ ۔
یہ سن کر ڈرائیور نے 11 جوتے مزید جج صاحب کے سر پر رسید کردیئے
جج صاحب نے تقریباً چیختے ہوئے ڈرائیور سے کہا کہ اس سے اتنی بڑی بھول کیسے ہوگئی؟ اس کی غفلت کی وجہ سے کتنا بڑا نقصان ہوسکتا تھا ۔ ۔ ۔۔ یہ کہہ کر جج صاحب نے ڈرائیور کو فوراً گاڑی موڑ کر واپس گھر چلنے کو کہا۔
چند منٹ بعد وہ گھر کے گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔ جج صاحب اور ڈرائیور نیچے اترے، گیٹ کو چیک کیا تو پتہ چلا کہ لاک لگا ہوا تھا۔ جج صاحب نے بے اختیار ایک اطمینان بھرا سانس لیا اور ڈرائیور سے واپس چلنے کو کہا۔
ڈرائیور بجائے گاڑی کی طرف چلنے کے، جج صاحب کے پاس آیا، اپنی کپتان چپل اتاری اور گن کر سپریم کورٹ کے جج کے سر پر 11 جوتے رسید کردیئے۔
جج کو مار پڑتے دیکھ کر اس کے گھر والے اور راہگیر بھی اکٹھے ہوگئے۔ جج صاحب نے غصے کے عالم میں اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ انہیں کیوں مارا؟
ڈرائیور نے جواب دیا:
آپ کو صرف شک ہوا کہ آپ کے گھر کا مین گیٹ کھلا رہ گیا ہوگا تو آپ سفر کے بیچ میں واپس گھر آگئے تاکہ تالا لگا کر تسلی کرلیں، اور دوسری طرف پاکستان کے حکمران اربوں روپے لوٹ کر کھا گئے، پانامہ کا کیس صرف 10 منٹ کی پیشی کی مار تھا، لیکن آپ سب جج لوگ کیس ادھورا چھوڑ کر چھٹیاں منانے چلے گئے ۔ ۔ ۔ اور یہ بھی نہ سوچا کہ ملک کی حکمرانی خون آشام بھیڑیوں کے ہاتھ ھے۔ ایک طرف تو گھر کا دروازہ کھلا رہنے کی اتنی پریشانی اور دوسری طرف ملکی خزانے پر ایک ڈاکو بیٹھا ھے اور اس کی کوئی پرواہ نہیں؟؟؟
یہ سن کر وہاں موجود راہگیروں نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔ جج صاحب کو بھی اس ڈرائیور کی بات کی سمجھ لگ گئی اور انہوں نے سر سہلاتے ہوئے شرمندگی کے احساس سے ڈوبے لہجے میں ڈرائیور سے کہا:
تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے سوچا ھے کہ اب میں چھٹیاں منانے لندن نہیں بلکہ نزدیک میں واقع دبئی جاؤں گا۔ ۔ ۔
یہ سن کر ڈرائیور نے 11 جوتے مزید جج صاحب کے سر پر رسید کردیئے
چھٹیوں کی آمد آمد تھی اور پچھلے دو دن سے سفر کی تیاری ہورہی تھی۔ فیملی کے پر فرد نے اپنی ضرورت کے سامان کی شاپنگ لسٹ مرتب کررکھی تھی اور ڈرائیور کا ایک پاؤں گاڑی کے ایکسیلیریٹر اور دوسرا پاؤں ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں تھا۔آج پورے کنبے نے سفر پر نکلنا تھا۔ ایک بڑی وین میں سامان لاد دیا گیا اور فیملی کیلئے سرکاری لینڈ کروزر منگوائی گئی۔ جب سب لوگ گاڑی میں بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے گاڑی چلانی شروع کردی۔ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بڑے جج صاحب خود بیٹھ گئے۔ ابھی گاڑی تھوڑی دور ہی گئی ہوگی کہ اچانک بڑے صاحب نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا اس نے گھر کا مین گیٹ لاک کردیا تھا؟روانگی کے وقت چونکہ افراتفری کا عالم تھا، ڈرائیور کو لگا کہ شاید وہ گیٹ کا تالا لگانا بھول گیا تھا۔ اس نے ہچکچاہٹ کے عالم میں صاحب کی طرف دیکھا اور کچھ جواب نہ دیا۔
جج صاحب نے تقریباً چیختے ہوئے ڈرائیور سے کہا کہ اس سے اتنی بڑی بھول کیسے ہوگئی؟ اس کی غفلت کی وجہ سے کتنا بڑا نقصان ہوسکتا تھا ۔ ۔ ۔۔ یہ کہہ کر جج صاحب نے ڈرائیور کو فوراً گاڑی موڑ کر واپس گھر چلنے کو کہا۔
چند منٹ بعد وہ گھر کے گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔ جج صاحب اور ڈرائیور نیچے اترے، گیٹ کو چیک کیا تو پتہ چلا کہ لاک لگا ہوا تھا۔ جج صاحب نے بے اختیار ایک اطمینان بھرا سانس لیا اور ڈرائیور سے واپس چلنے کو کہا۔
ڈرائیور بجائے گاڑی کی طرف چلنے کے، جج صاحب کے پاس آیا، اپنی کپتان چپل اتاری اور گن کر سپریم کورٹ کے جج کے سر پر 11 جوتے رسید کردیئے۔
جج کو مار پڑتے دیکھ کر اس کے گھر والے اور راہگیر بھی اکٹھے ہوگئے۔ جج صاحب نے غصے کے عالم میں اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ انہیں کیوں مارا؟
ڈرائیور نے جواب دیا:
آپ کو صرف شک ہوا کہ آپ کے گھر کا مین گیٹ کھلا رہ گیا ہوگا تو آپ سفر کے بیچ میں واپس گھر آگئے تاکہ تالا لگا کر تسلی کرلیں، اور دوسری طرف پاکستان کے حکمران اربوں روپے لوٹ کر کھا گئے، پانامہ کا کیس صرف 10 منٹ کی پیشی کی مار تھا، لیکن آپ سب جج لوگ کیس ادھورا چھوڑ کر چھٹیاں منانے چلے گئے ۔ ۔ ۔ اور یہ بھی نہ سوچا کہ ملک کی حکمرانی خون آشام بھیڑیوں کے ہاتھ ھے۔ ایک طرف تو گھر کا دروازہ کھلا رہنے کی اتنی پریشانی اور دوسری طرف ملکی خزانے پر ایک ڈاکو بیٹھا ھے اور اس کی کوئی پرواہ نہیں؟؟؟
یہ سن کر وہاں موجود راہگیروں نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔ جج صاحب کو بھی اس ڈرائیور کی بات کی سمجھ لگ گئی اور انہوں نے سر سہلاتے ہوئے شرمندگی کے احساس سے ڈوبے لہجے میں ڈرائیور سے کہا:
تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے سوچا ھے کہ اب میں چھٹیاں منانے لندن نہیں بلکہ نزدیک میں واقع دبئی جاؤں گا۔ ۔ ۔
یہ سن کر ڈرائیور نے 11 جوتے مزید جج صاحب کے سر پر رسید کردیئے