Sohraab
Prime Minister (20k+ posts)
پارلیمنٹ کے منہ پرطمانچہ
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف آخرکار دبئی چلے گئے۔ کوئی اسے ڈیل کا نتیجہ تو کوئی نظریہ ضرورت قرار دے رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں حکومت وقت نے سہولت کار کا کردارادا کیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے 2000ءمیں پرویز مشرف، میاں نواز شریف کے سہولت کار بنے تھے، جب وہ پرویزمشرف کے ساتھ دس سالہ خود ساختہ جلاوطنی کا معاہدہ کر کے جدہ چلے گئے تھے
اور جلاوطنی کے معاہدے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔ میاں نواز شریف نے اس احسان کا بدلہ یوں چکایا ہے کہ انہوں نے عدالت کی آڑ لے کر رات کے اندھیرے میں پرویز مشرف کو دبئی بھجوا دیا۔ یہ وہی پرویز مشرف ہیں جو آٹھ سالہ حکومت کے بعد مزید دس سال تک حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے جبکہ شہید بےنظیر بھٹو نے اپنی حکمت عملی سے پرویز مشرف کو فوجی یونیفارم اتارنے پر مجبور کر دیا تھا،
جنہوں نے یونیفارم اتارنے سے پہلے اپنے حامیوں سے یہ نعرے لگوائے تھے کہ ”ہم پرویز مشرف کو فوجی وردی میں عمر بھر کےلئے صدر قبول کرنے کوتیار ہیں۔“ شہید بینظیر بھٹو نے شہادت قبول کرلی مگر انہیں وردی میں قبول نہیں کیا۔ انہوں نے جلاوطنی کےلئے ڈکٹیٹر سے کوئی معاہدہ کیا نہ وہ کسی معاہدے کے تحت واپس پاکستان آئیں۔ 2008ءکے انتخابات کے بعد صدر پرویز مشرف بدستور عہدہ صدارت پر براجمان رہنا چاہتے تھے۔ نواز شریف انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکے تھے،
مگر سیاست میں نئی روایات کے بانی اور ”مفاہمت“ کے علمبردار آصف علی زرداری نے نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا تاکہ متحدہ سیاسی قوت کے ذریعے پرویز مشرف کو ایوانِ صدر سے نکالا جا سکے۔ آصف زرداری کی حکمت عملی سے پرویز مشرف استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے اور انہیں ایوانِ صدر سے رخصت ہونا پڑا۔
انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو پرویز مشرف کے ساتھیوں نے مسلم لیگ(ن) کے دامن میں پناہ لینی شروع کر دی، انہوں نے ہی آج نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان ”ڈیل“ کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یوں جمعرات کی بجائے جمعہ کی صبح پرویزمشرف دبئی روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچتے ہی انہوں نے فوری طور پر اپنا طے شدہ طبی معائنہ ”منسوخ“ کردیا۔کراچی سے دبئی جانے کیلئے جہاز میں سوار ہوتے ہی پرویز مشرف کی تمام بیماریاں ”ہوا“ ہوگئی تھیں۔ دبئی ایئرپورٹ پر ایک عینی شاہد کے مطابق کراچی ایئرپورٹ پر پرویز مسرف سیڑھیوں کے ذریعے بغیر کسی سہارے جہاز میں سوار ہوئے تھے۔ اسی طرح وہ دبئی ایئرپورٹ پر بھی خود سیڑھیوں سے اترے۔ دو گھنٹے کے فضائی سفر کے باوجود وہ ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے۔
پرویز مشرف کے قریبی ساتھی اور آل پاکستان مسلم لیک کے کوآرڈینیٹر احمد رضا قصوری نے پرویز مشرف کے پراسرار طریقے سے ر ات کے اندھیرے میں بیرون ملک جانے کے پس پردہ محرکات کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے انگریزی اخبار ”ایکسپریس ٹربیون“ سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی حکومت سے ڈیل کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رات دو بجے میرے فون کی گھنٹی بجی تو دوسری طرف سابق صدر لائن پر تھے۔ انہوں نے اپنی روانگی سے قبل مجھے اعتماد میں لیا
اور حکومت سے معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ معاہدے پر عملدرآمد کے پہلے مرحلے میں اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے سپریم کورٹ میں اس درخواست کی مخالفت نہیں کی جس میں سابق صدر کی جانب سے یہ استدعا کی گئی تھی کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔ احمد رضا قصوری کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ معاہدے میں یہ بھی شامل ہے کہ حکومت غداری کیس کو لپیٹ دے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ معاہدے کا مواد مناسب وقت پر سامنے لائیں گے۔
ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت بڑے معنی خیز انداز میں کی ہے کہ ”پرویز مشرف کی ملک سے روانگی کی اجازت آف شو “ فیصلہ ہے۔ شیر کی دُم پر گینڈے کا پیر آگیا تھا جس پر اُس کی چیخیں نکل گئیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے دوست اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کراچی بار ایسو سی ایشن کی تقریب میں وکلاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا
کہ پرویزمشرف کو سمجھوتے کے تحت باہر بھیجا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان نیشنل پارٹی کے صدر سینیٹر میر حاصل بزنجو نے بھی مبینہ طور پر حکومت اور پرویز مشرف کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تصدیق کی ہے۔

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف آخرکار دبئی چلے گئے۔ کوئی اسے ڈیل کا نتیجہ تو کوئی نظریہ ضرورت قرار دے رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں حکومت وقت نے سہولت کار کا کردارادا کیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے 2000ءمیں پرویز مشرف، میاں نواز شریف کے سہولت کار بنے تھے، جب وہ پرویزمشرف کے ساتھ دس سالہ خود ساختہ جلاوطنی کا معاہدہ کر کے جدہ چلے گئے تھے
اور جلاوطنی کے معاہدے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔ میاں نواز شریف نے اس احسان کا بدلہ یوں چکایا ہے کہ انہوں نے عدالت کی آڑ لے کر رات کے اندھیرے میں پرویز مشرف کو دبئی بھجوا دیا۔ یہ وہی پرویز مشرف ہیں جو آٹھ سالہ حکومت کے بعد مزید دس سال تک حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے جبکہ شہید بےنظیر بھٹو نے اپنی حکمت عملی سے پرویز مشرف کو فوجی یونیفارم اتارنے پر مجبور کر دیا تھا،
جنہوں نے یونیفارم اتارنے سے پہلے اپنے حامیوں سے یہ نعرے لگوائے تھے کہ ”ہم پرویز مشرف کو فوجی وردی میں عمر بھر کےلئے صدر قبول کرنے کوتیار ہیں۔“ شہید بینظیر بھٹو نے شہادت قبول کرلی مگر انہیں وردی میں قبول نہیں کیا۔ انہوں نے جلاوطنی کےلئے ڈکٹیٹر سے کوئی معاہدہ کیا نہ وہ کسی معاہدے کے تحت واپس پاکستان آئیں۔ 2008ءکے انتخابات کے بعد صدر پرویز مشرف بدستور عہدہ صدارت پر براجمان رہنا چاہتے تھے۔ نواز شریف انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکے تھے،
مگر سیاست میں نئی روایات کے بانی اور ”مفاہمت“ کے علمبردار آصف علی زرداری نے نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا تاکہ متحدہ سیاسی قوت کے ذریعے پرویز مشرف کو ایوانِ صدر سے نکالا جا سکے۔ آصف زرداری کی حکمت عملی سے پرویز مشرف استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے اور انہیں ایوانِ صدر سے رخصت ہونا پڑا۔
انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو پرویز مشرف کے ساتھیوں نے مسلم لیگ(ن) کے دامن میں پناہ لینی شروع کر دی، انہوں نے ہی آج نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان ”ڈیل“ کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پرویز مشرف گزشتہ تین سال سے بیرون ملک جانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ انہوں نے ان تین برسوں میں بیماری کا تسلسل کے ساتھ ڈرامہ رچایا۔ ان پہ سب سے پہلے دل کے دورے کا حملہ اُس وقت ہوا جب وہ عدالت میں پیش ہونے کےلئے اسلام آباد میں اپنے گھر سے روانہ ہوئے تھے اور اچانک ان کی گاڑی کا رخ راولپنڈی کی جانب مڑ گیا۔
پرویز مشرف سی ایم ایچ پہنچے اور وہاں کئی روز تک داخل رہے۔ اس بیماری کے بعد پرویز مشرف کو اسلام آباد سے کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، یوں وہ کراچی منتقل ہوئے۔ اس دوران اسلام آباد، انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت، کوئٹہ کی خصوصی عدالت اور سنگین غداری کیس کےلئے سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ہونے والی خصوصی عدالت کی جانب سے انہیں پیش ہونے کےلئے سمن اور وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے رہے۔ لال مسجد کے غازی عبدالرشید قتل کیس میں عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے اور حکم دیا تھا کہ انہیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔
کراچی آنے کے بعد پرویز مشرف کو کئی بیماریاں لاحق ہونے کا انکشاف ہوا۔ کبھی ان کا بلڈ پریشر ہائی اورکبھی کم ہوجاتا۔ سابق آرمی چیف کی حیثیت سے انہیں علاج کی اعلیٰ ترین سہولیات حاصل تھیں۔ وہ کراچی پاک عربیہ کے بہترین ہسپتال ”الشفائ“ میں زیرعلاج رہے۔ ان کی بیماری کا تعین کرنے کےلئے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا، جس نے ان کا طبی معائنہ کرنے کے بعد ابتدائی طور پر اپنی رپورٹ پیش کی کہ پرویز مشرف کو کسی قسم کی کوئی بیماری نہیں۔
اس کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر نیا میڈیکل بورڈ بنایا گیا جس نے پرویز مشرف کے جسم میں نصف درجن کے قریب بیماریاں ڈھونڈ نکالیں، کہا گیا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر اور بائیں ٹانگ میں درد ہے جس کی وجہ سے وہ چل پھر نہیں سکتے، نہ وہ سفر کے قابل ہیں۔ ان کا فوری طور پر آپریشن ہونا چاہئے، جو اس قدر پیچیدہ ہے کہ پاکستان میں نہیں ہوسکتا،
اس لئے انہیں بیرون ملک بھجوانا پڑے گا۔ اس رپورٹ کے بعد پرویز مشرف کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں داخل ہوگئے اور تسلسل کے
ساتھ میڈیا پر یہ خبریں چلوائی گئیں کہ ان کی حالت تشویشناک ہے۔
نواز شریف حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ پرویز مشرف کا نام چونکہ سپریم کورٹ کے حکم پر ای سی ایل میں شامل کیا گیا، اس لئے وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ پرویز مشرف کے وکلا نے ایک درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی جس میں یہ استدعا کی گئی کہ شدید علالت کے باعث پرویز مشرف علاج کےلئے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں اس لئے ان کا نام ای سی ایل کی فہرست سے خارج کیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کا حکم دیتے ہوئے
خود اپنا حکم 5 روز کےلئے معطل کر دیا اور کہا کہ حکومت چاہے تو اس فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتی ہے۔ وفاق نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ عدالت عظمیٰ نے لارجر بنچ تشکیل دیا، عدالت میں پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹس پیش کی گئیں مگر معزز جج صاحبان نے میڈیکل رپورٹ کو جواز بنانے کی بجائے قرار دیا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم جاری نہیں کیا، اٹارنی جنرل جس حکم کو جواز بنا رہے ہیں وہ اس وقت جاری ہوا تھا
جب پرویز مشرف کےخلاف سنگین غداری کا حکم نہیں دیا گیا۔ کسی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنا انتظامی معاملہ ہے، اس لئے عدالت سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے اور حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ پرویز مشرف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے یا نہ دے۔ سارے کام سپریم کورٹ کے کندھے پر چڑھ کر نہ کروائے جائیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ حکومت اور خصوصی عدالت (سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی عدالت) پرویز مشرف کی نقل و حرکت کے حوالے سے فیصلوں میں بااختیار ہے،
سپریم کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں بنے گا۔ اگر حکومت نے پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دینی تو حکومت قانونی نوٹس جاری کرے۔
ایک جانب عدالت عظمیٰ قانونی پوزیشن واضح کر رہی تھی اور فیصلہ سامنے آتے ہی پرویز مشرتین روز سے نجی ہسپتال میں زیرعلاج تھے، بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور آناً فاناً اپنے گھر روانہ ہوگئے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 16 مارچ کو ہوا مگر میڈیا رپورٹس کے مطابق اسی روز پرویز مشرف نے 17 مارچ بروز جمعرات صبح چار بجے دبئی جانے کی تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔ ٹکٹ خریدا جا چکا تھا اور نشست بھی بُک ہو چکی تھی مگر وزارتِ داخلہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ وزارت داخلہ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ موصول نہیں ہوا
اس لئے پرویز مشرف کا نام تاحال ای سی ایل سے خارج نہیں ہوا، اس لئے وہ بیرونِ ملک روانہ نہیں ہوسکتے۔ یہاں تک کہ ایف آئی اے امیگریشن ڈیسک کراچی کو یہ ہدایات جاری کر دی گئیں کہ وزیراعظم کا حکم ہے کہ پرویز مشرف کو کسی صورت میں ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے۔ رات گئے میڈیا پر یہ خبریں چلنے لگیں کہ پرویز مشرف اب سے کچھ دیر بعد بیرونِ ملک روانہ ہو جائیں گے اور ان کی پہلی منزل دبئی ہوگی۔ یہ وہ وقت تھا جب تمام فیصلہ ساز اپنی خوابگاہوں میں جاکر سوچکے تھے۔
اسی اثناءمیں وزیراعظم کی انتہائی قریبی شخصیت نے خوابگاہ میں جاکر انہیں صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے ہدایت کی کہ تمام ایئرپورٹس پر حکم جاری کرادیں کہ پرویز مشرف کیسی صورت ملک سے باہر جانے نہ پائیں۔ پرویز مشرف کی روانگی کا وقت قریب آگیا، پرواز کی روانگی سے آدھا گھنٹہ قبل پرویز مشرف کا عملہ ایئرپورٹ پر آیا تو انہیں ایف آئی اے اور ایئر پورٹ انتظامیہ نے واضح بتادیا
کہ وزیراعظم کا حکم ہے کہ پرویز مشرف کیسی صورت ملک سے باہر نہیں جاسکتے، کیونکہ ان کا نام ای سی ایل میں موجود ہے، تاہم کسی جانب سے نواز شریف کو یہ باور کرایا گیا کہ پرویز مشرف راستے کا پتھر نہیں، اس میں الجھنے کے بجائے ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ تب وزیراعظم نے پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔
پرویز مشرف سی ایم ایچ پہنچے اور وہاں کئی روز تک داخل رہے۔ اس بیماری کے بعد پرویز مشرف کو اسلام آباد سے کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، یوں وہ کراچی منتقل ہوئے۔ اس دوران اسلام آباد، انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت، کوئٹہ کی خصوصی عدالت اور سنگین غداری کیس کےلئے سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ہونے والی خصوصی عدالت کی جانب سے انہیں پیش ہونے کےلئے سمن اور وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے رہے۔ لال مسجد کے غازی عبدالرشید قتل کیس میں عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے اور حکم دیا تھا کہ انہیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔
کراچی آنے کے بعد پرویز مشرف کو کئی بیماریاں لاحق ہونے کا انکشاف ہوا۔ کبھی ان کا بلڈ پریشر ہائی اورکبھی کم ہوجاتا۔ سابق آرمی چیف کی حیثیت سے انہیں علاج کی اعلیٰ ترین سہولیات حاصل تھیں۔ وہ کراچی پاک عربیہ کے بہترین ہسپتال ”الشفائ“ میں زیرعلاج رہے۔ ان کی بیماری کا تعین کرنے کےلئے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا، جس نے ان کا طبی معائنہ کرنے کے بعد ابتدائی طور پر اپنی رپورٹ پیش کی کہ پرویز مشرف کو کسی قسم کی کوئی بیماری نہیں۔
اس کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر نیا میڈیکل بورڈ بنایا گیا جس نے پرویز مشرف کے جسم میں نصف درجن کے قریب بیماریاں ڈھونڈ نکالیں، کہا گیا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر اور بائیں ٹانگ میں درد ہے جس کی وجہ سے وہ چل پھر نہیں سکتے، نہ وہ سفر کے قابل ہیں۔ ان کا فوری طور پر آپریشن ہونا چاہئے، جو اس قدر پیچیدہ ہے کہ پاکستان میں نہیں ہوسکتا،
اس لئے انہیں بیرون ملک بھجوانا پڑے گا۔ اس رپورٹ کے بعد پرویز مشرف کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں داخل ہوگئے اور تسلسل کے
ساتھ میڈیا پر یہ خبریں چلوائی گئیں کہ ان کی حالت تشویشناک ہے۔
نواز شریف حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ پرویز مشرف کا نام چونکہ سپریم کورٹ کے حکم پر ای سی ایل میں شامل کیا گیا، اس لئے وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ پرویز مشرف کے وکلا نے ایک درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی جس میں یہ استدعا کی گئی کہ شدید علالت کے باعث پرویز مشرف علاج کےلئے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں اس لئے ان کا نام ای سی ایل کی فہرست سے خارج کیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کا حکم دیتے ہوئے
خود اپنا حکم 5 روز کےلئے معطل کر دیا اور کہا کہ حکومت چاہے تو اس فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتی ہے۔ وفاق نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ عدالت عظمیٰ نے لارجر بنچ تشکیل دیا، عدالت میں پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹس پیش کی گئیں مگر معزز جج صاحبان نے میڈیکل رپورٹ کو جواز بنانے کی بجائے قرار دیا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم جاری نہیں کیا، اٹارنی جنرل جس حکم کو جواز بنا رہے ہیں وہ اس وقت جاری ہوا تھا
جب پرویز مشرف کےخلاف سنگین غداری کا حکم نہیں دیا گیا۔ کسی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنا انتظامی معاملہ ہے، اس لئے عدالت سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے اور حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ پرویز مشرف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے یا نہ دے۔ سارے کام سپریم کورٹ کے کندھے پر چڑھ کر نہ کروائے جائیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ حکومت اور خصوصی عدالت (سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی عدالت) پرویز مشرف کی نقل و حرکت کے حوالے سے فیصلوں میں بااختیار ہے،
سپریم کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں بنے گا۔ اگر حکومت نے پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دینی تو حکومت قانونی نوٹس جاری کرے۔
ایک جانب عدالت عظمیٰ قانونی پوزیشن واضح کر رہی تھی اور فیصلہ سامنے آتے ہی پرویز مشرتین روز سے نجی ہسپتال میں زیرعلاج تھے، بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور آناً فاناً اپنے گھر روانہ ہوگئے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 16 مارچ کو ہوا مگر میڈیا رپورٹس کے مطابق اسی روز پرویز مشرف نے 17 مارچ بروز جمعرات صبح چار بجے دبئی جانے کی تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔ ٹکٹ خریدا جا چکا تھا اور نشست بھی بُک ہو چکی تھی مگر وزارتِ داخلہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ وزارت داخلہ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ موصول نہیں ہوا
اس لئے پرویز مشرف کا نام تاحال ای سی ایل سے خارج نہیں ہوا، اس لئے وہ بیرونِ ملک روانہ نہیں ہوسکتے۔ یہاں تک کہ ایف آئی اے امیگریشن ڈیسک کراچی کو یہ ہدایات جاری کر دی گئیں کہ وزیراعظم کا حکم ہے کہ پرویز مشرف کو کسی صورت میں ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے۔ رات گئے میڈیا پر یہ خبریں چلنے لگیں کہ پرویز مشرف اب سے کچھ دیر بعد بیرونِ ملک روانہ ہو جائیں گے اور ان کی پہلی منزل دبئی ہوگی۔ یہ وہ وقت تھا جب تمام فیصلہ ساز اپنی خوابگاہوں میں جاکر سوچکے تھے۔
اسی اثناءمیں وزیراعظم کی انتہائی قریبی شخصیت نے خوابگاہ میں جاکر انہیں صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے ہدایت کی کہ تمام ایئرپورٹس پر حکم جاری کرادیں کہ پرویز مشرف کیسی صورت ملک سے باہر جانے نہ پائیں۔ پرویز مشرف کی روانگی کا وقت قریب آگیا، پرواز کی روانگی سے آدھا گھنٹہ قبل پرویز مشرف کا عملہ ایئرپورٹ پر آیا تو انہیں ایف آئی اے اور ایئر پورٹ انتظامیہ نے واضح بتادیا
کہ وزیراعظم کا حکم ہے کہ پرویز مشرف کیسی صورت ملک سے باہر نہیں جاسکتے، کیونکہ ان کا نام ای سی ایل میں موجود ہے، تاہم کسی جانب سے نواز شریف کو یہ باور کرایا گیا کہ پرویز مشرف راستے کا پتھر نہیں، اس میں الجھنے کے بجائے ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ تب وزیراعظم نے پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔
یوں جمعرات کی بجائے جمعہ کی صبح پرویزمشرف دبئی روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچتے ہی انہوں نے فوری طور پر اپنا طے شدہ طبی معائنہ ”منسوخ“ کردیا۔کراچی سے دبئی جانے کیلئے جہاز میں سوار ہوتے ہی پرویز مشرف کی تمام بیماریاں ”ہوا“ ہوگئی تھیں۔ دبئی ایئرپورٹ پر ایک عینی شاہد کے مطابق کراچی ایئرپورٹ پر پرویز مسرف سیڑھیوں کے ذریعے بغیر کسی سہارے جہاز میں سوار ہوئے تھے۔ اسی طرح وہ دبئی ایئرپورٹ پر بھی خود سیڑھیوں سے اترے۔ دو گھنٹے کے فضائی سفر کے باوجود وہ ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے۔
پرویز مشرف کے قریبی ساتھی اور آل پاکستان مسلم لیک کے کوآرڈینیٹر احمد رضا قصوری نے پرویز مشرف کے پراسرار طریقے سے ر ات کے اندھیرے میں بیرون ملک جانے کے پس پردہ محرکات کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے انگریزی اخبار ”ایکسپریس ٹربیون“ سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی حکومت سے ڈیل کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رات دو بجے میرے فون کی گھنٹی بجی تو دوسری طرف سابق صدر لائن پر تھے۔ انہوں نے اپنی روانگی سے قبل مجھے اعتماد میں لیا
اور حکومت سے معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ معاہدے پر عملدرآمد کے پہلے مرحلے میں اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے سپریم کورٹ میں اس درخواست کی مخالفت نہیں کی جس میں سابق صدر کی جانب سے یہ استدعا کی گئی تھی کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔ احمد رضا قصوری کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ معاہدے میں یہ بھی شامل ہے کہ حکومت غداری کیس کو لپیٹ دے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ معاہدے کا مواد مناسب وقت پر سامنے لائیں گے۔
ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت بڑے معنی خیز انداز میں کی ہے کہ ”پرویز مشرف کی ملک سے روانگی کی اجازت آف شو “ فیصلہ ہے۔ شیر کی دُم پر گینڈے کا پیر آگیا تھا جس پر اُس کی چیخیں نکل گئیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے دوست اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کراچی بار ایسو سی ایشن کی تقریب میں وکلاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا
کہ پرویزمشرف کو سمجھوتے کے تحت باہر بھیجا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان نیشنل پارٹی کے صدر سینیٹر میر حاصل بزنجو نے بھی مبینہ طور پر حکومت اور پرویز مشرف کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تصدیق کی ہے۔
پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور مستقبل میں تاریخ نواز شریف سے جواب طلب کرے گی، کیونکہ پارلیمنٹ سے بالا ہونے والے فیصلوں پر آج نہیں تو کل جواب دینا ہی ہوگا۔ آج مجھے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کا وہ بیان یاد آ رہا ہے جو انہوں نے 3 مارچ کو اسلام آباد میں فافین (فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک) کے زیر اہتمام خواتین پارلیمینٹرین سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔
آرٹیکل6 کا ملزم عدالت جانے سے انکاری ہے اور قانون خاموش ہے جبکہ آرٹیکل6 آئین و پارلیمنٹ کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔ میں یہاں ایک بات اور یاد دلادوں، 17 نومبر 2013ءاتوار کا دن تھا جب وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے اعلان کیا تھا کہ ”پرویز مشرف قومی مجرم ہیں، ان کےخلاف آرٹیکل6 کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔“
اگر حکومت میں اتنا دل گردہ نہیں تھا تو فوج کے ایک سابق سربراہ، جس نے آئین کو بوٹوں تلے روندتے ہوئے نہ صرف اقتدار پر قبضہ کیا بلکہ اس نے عدلیہ پر بھی شب خون مارا، اس سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے ٹھیک ہی کہا کہ پرویز مشرف نے پارلیمنٹ کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ کہاں گیا آئین کا آرٹیکل6؟ حکومت کو جواب دینا ہوگا۔
http://www.dailykhabrain.com.pk/archives/8541آرٹیکل6 کا ملزم عدالت جانے سے انکاری ہے اور قانون خاموش ہے جبکہ آرٹیکل6 آئین و پارلیمنٹ کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔ میں یہاں ایک بات اور یاد دلادوں، 17 نومبر 2013ءاتوار کا دن تھا جب وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے اعلان کیا تھا کہ ”پرویز مشرف قومی مجرم ہیں، ان کےخلاف آرٹیکل6 کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔“
اگر حکومت میں اتنا دل گردہ نہیں تھا تو فوج کے ایک سابق سربراہ، جس نے آئین کو بوٹوں تلے روندتے ہوئے نہ صرف اقتدار پر قبضہ کیا بلکہ اس نے عدلیہ پر بھی شب خون مارا، اس سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے ٹھیک ہی کہا کہ پرویز مشرف نے پارلیمنٹ کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ کہاں گیا آئین کا آرٹیکل6؟ حکومت کو جواب دینا ہوگا۔
Last edited by a moderator: