تحریر۔ حسین خان ۔ ٹوکیو
مردِ آہن،ٹویوٹا کے بانی کی اچیرو تویودا کی زندگی کےسبق آموزواقعات،تجربات اور آہنی فیصلے
یہ کمپنی کبھی کوئی سودی قرض نہ لے،جو بھی کام کرے وہ سو فیصد بلا سودی سرمایہ کاری سے کرے،خواہ اس کے نتیجہ میں تویودا خاندان کوٹویوٹا کےکنٹرول کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔ تویوٹا کے بانی کی آخری وصیت
بانیء ٹویوٹا کا سودی قرض لینےکی مجبوری کا صدمہ،استعفیٰ،علیحد گی اور انتقال
ٹوکیو۔ سنڈے اسپیشل ۔ اس کمپنی کے بانی کی اچی رو تویودا جو موجودہ صدر آکی اُوتویودا کےدادا تھے،انہوں نے قسم کھا لی تھی کہ ان کی کمپنی کبھی بھی سودی قرضےنہیں لےگی۔ انہوں نےاپنےآئندہ آنےوالوں کےلئےبھی ٹویوٹا کمپنی کا یہ ضابطہ بنا چھوڑا تھا کہ یہ کمپنی کبھی سودی قرض نہ لیا کرےاوریہ نصیحت کی تھی کہ اس ضابطہ پرسختی سےعمل کیا جائے۔ انہیں اس طرح کی قسم کھانےکی ضرورت اس لئےپیش آئی کہ انہیں ایک انتہائی تلخ تجربہ سےگزرنا پڑا تھا ۔ ان کے اس تجربہ کی تلخی کا نادازہ اس سے لگائیے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جس دن ان کو مجبورا یہ قرضہ لینا پڑا تھا ، اس دن انہوں نے ٹویوٹا کمپنی کو تو دیوالیہ سے بچا لیا ، لیکن اسی دن اس سے اپنی صدارت سے بھی استعفیٰ دے دیا اور اُسی دن انتھائی صدمہ کی حالت میں اپنے پسینہ اور خون سے سینچی ہوئی اس کمپنی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی ۔ جس پودے کا انہوں نے 1937 ء میں بیج بویا تھا ، وہ جب 13 سال بعد 1950 ء میں ایک تناور درخت بن گیا اور اس درخت کو زندہ رکھنے کیلئے مجبورا اسے سودی قرضوں کی ابیاری کرنی پڑی تو ایسے درخت کو دوسروں کے حوالے کرکے خود بصد رنج و غم 1950 ء میں اس کمپنی سے دور ہوگئے۔ اس کے بعد 2 سال بعد اسی صدمہ سے اچی رو تویودا اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔
دوسری جنگِ عظیم کے فوری بعد کساد بازاری کے سبب ٹویوٹا کمپنی کے دیوالیہ کا اعلان کرنے کی نوبت آگئی تھی ۔ اس پریشانی کے عالم میں ایک دن صبح ہی صبح ملاقات کا وقت طے کئے بغیر کی اچیرا تویودا اچانک بنک آف جاپان کی ناگویا شاخ کے دفتر پہنچ گئے اور اس وقت کے جاپانی حکومت کی اس مرکزی بنک کے برانچ مینیجر کے سر ہوگئے کہ کسی طرح ٹویوٹا کو دیوالیہ ہونے سے بچائیں ۔ اس وقت کی ٹویوٹا ناگویا کے علاقہ کے لوگوں کےلئے سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والی کمپنی تھی ۔ انہوں نے بنک آف جاپان کو بتایا کہ اگر ٹویوٹا دیوالیہ ہوگئی تو ہزاروں افراد بے روزگار ہوجائیں گے اور ان کے گھروں میں چولھا بھی سلگ نہیں سکے گا ۔ اس لئے بنک آف جاپان ٹویوٹا کی مدد کرے اور ہر قیمت پر اسے دیوالیہ ہونے سے بچائے۔ ان کی اس عاجزانہ درخواست پر بنک آف جاپان ناگویا کی چند بڑی بڑی بنکوں کے صدور کو بلا کر ان سب بنکوں کو راضی کیا کہ وہ ٹویوتا کو اتنے قرضے دیں کہ یہ کمپنی دیوالیہ ہونے سے بچ جائے۔
ٹویوٹا کو اس برے حال تک پہنچانے میں دوسری جنگِ عظیم کے وقت جاپان کی فوجی حکومت کی مداخلت کا دخل بھی ہے۔ اس جنگ کے دوران 1943 ء میں جاپان کی فوجی حکومت نے اپنی ضروریات کےلئے ٹویوٹا پر قبضہ کرلیا تھا اور اس کے بانی کی اچیرو تویودا کو اس کے کنٹرول سے بے دخل کردیا گیا تھا ۔ جنگ میں شکست کے بعد جو ٹویوٹا اس کے بانی کے ھاتھ میں دوبارہ آئی ، اس وقت یہ کمپنی ہر لحاظ سے تباہ ہوچکی تھی ۔ اس وقت اس کی گاڑیاں بھی معیار کے اعتبار سے کافی گری ہوئی تھیں ۔ جنگ کے فوری بعد مارکیٹ بھی کساد بازاری کا شکار تھی ۔ ان حالات میں ٹویوٹا کی ناقص اور معیار سے گری ہوئی گاڑیوں کو فرخت کرکے کمپنی کو منافع کے ساتھ چلانا بھی مشکل ہوگیا تھا ، اس کو مسٹر کی اچیرو تویودا نے بہت سنبھالنے کی کوشش کی لیکن 1949 ء کے اواخر میں یہ اس قابل نہیں رہی تھی کہ اپنے ملازمین کی سالانہ بونس ادا کرسکے،جو 1 اوکو 9 ہزار مان بنتی تھی ۔
جاپانی حکومت کی مرکزی بنک یعنی بنک آف جاپان کی ناگویا شاخ کے دباو کے تحت مِتسوئی بنک اور توکائی بنک کی قیادت میں ساری بنکوں نے مل کر اپریل 1950 ء میں ٹویوٹا کو 12 اوکو این سودی قرضہ دینے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن شرط یہ لگائی کہ ٹویوٹا اس وقت کے اپنی کمپنی کے 1600 ملازمین کو نوکری سے نکال دے۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی جس کے سبب ٹویوٹا کے بانی اچیرو تویودا کو سودی قرضوں سے سخت نفرت ہوگئی تھی اور ان کے ایسے قرضوں سے پرہیز سے قسم کھانے کی بھی ۔
ٹویوٹا کے بانی کی سوچ شروع ہی سے یہ رہی ہے کہ ٹویوٹا کی شرح منافع کم ہوجائے یا اس کو خواہ نقصان بھگتنا پڑجائے لیکن یہ اپنے مستقل ملازمین کو کبھی ملازمت سے فارغ نہیں کرے گی ۔ اسی وجہ سے ٹویوٹا نے گزشتہ 73 سال سے اس پالیسی پر عمل پیرا رہنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ لیکن موجودہ عالمی بحران کی کساد بازاری ، 90 لاکھ گاڑیوں کی واپسی ، امریکی حکومت کے جرمانے ، مختلف اسمبلی پلانٹ کو بند کرنے ، یا ان میں گاڑیاں بنانے کی تعداد کم کرنے جیسے ناگہانی حالات کی مجبوری میں اسے بہت سارے عارضی ملازمین کو فارغ کرنا پڑا ، لیکن اس کو بھی اس نے انتھائی کم سے کم حد تک رکھنے کی کوشش کی ۔
اپریل 1950 ء میں بنکوں نے ٹویوٹا کو 2 اوکو جاپانی این سودی قرض دینے کی منظوری تو دیدی تھی لیکن 1600 ملازمین کو فارغ کرنے کی شرط مسٹر کی اچیرو تویودا کےلئے انتھائی تکلیف دہ تھی ۔ ملازمین ٹویوٹا کے سلسلہ میں اب تک کی اپنی پالیسی سے ہٹنا انہیں کسی بھی قیمت پر گوارا نہیں تھا ۔ مغربی ماہرینِ مینیجمنٹ اپنی کتابوں میں کمپنیوں کو چلانے کے چند جاپانی طور طریق کی اچھائیوں کو اچھالتے ہیں ، ان میں ایک اہم اچھائی اپنے ملازمین کے ساتھ جاپانی کمپنیوں کا زندگی بھر ملازمت کا رواج ہے ۔ جاپانی کمپنیوں کے مالکان اپنے ملازمین کو اپنے خاندان کا ایک فرد سمجھتے ہیں ۔ اس لئے کسی جاپانی کمپنی کے روائتی مالک کے لئے یہ بات کس قدر ذہنی کرب کا سبب بن سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا کسی غیر جاپانی کے بس کی بات نہیں ہے ۔
اپریل 1950 ء میں جب بنکوں نے 1600 ملازمین کو نکالنے کی شرط لگائی تو ٹویوتا کی مزدور یونین نے مطالبہ کیا کہ مسٹر کی اچی رو اپنے پرانے وعدے پر قائم رہتے ہوئے اس کا اعلان کریں کہ وہ کسی کو بھی ٹویوٹا کی ملازمت سے فارغ نہیں کریں گے ، کیونکہ بنکوں کی طرف سے اس شرط کے سامنے آنے سے پہلے مسٹر کی ایچیرو یہ وعدہ کرچکے تھے کہ وہ کسی ٹویوٹا کے ملازم کو نوکری سے فارغ نہیں کریں گے۔ اس مطالبہ کے جواب میں انتھائی افسوس کے ساتھ انہوں نے یہ جواب دیا میں کسی کو ملازمت سے نہیں نکالوں گا ۔ کا وعدہ کرنے کے باوجود ایسی صورتحال میں پھنس گیا ہوں کہ اپنی وعدہ خلافی پر مجبور ہوگیا ہوں ۔ میں اپنی اس وعدہ خلافی کی معافی مانگتا ہوں ۔ اب یونین کے اس مطالبہ کے جواب میں اگر دوبارہ یہ وعدہ کرلوں کہ کسی کو ملازمت سے نہیں نکالوں گا ، تو میرا یہ وعدہ جھوٹ ہوگا ۔ اس لئے مجھے معاف کریں کیونکہ اس مرحلہ پر اب میں ایسا کوئی وعدہ یا یقین دہانی کرنے کی پوزیشن مین نہیں رہا ہوں
اس مرحلہ پر ٹویوٹا کی انتظامیہ مجبور تھی کہ بنکوں کی ہر جائز و ناجائز شرط کے آگے سرِ تسلیم خم کرلے،ورنہ سودی قرضہ نہیں ملتا ، جس کے نتیجہ میں تویوٹا کے پاس اپنا دیوالیہ نکالنے کے علاوہ اور چارہ کار باقی نہیں رہتا ۔ چناچہ جون 1950 ء میں جس دن یہ قرض ملا ، اُسی دن مسٹر کی اچیرو نے ٹویوٹا سے استعفیٰ دے کر اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی اور اس کے 2 سال بعد اسی صدمہ میں مر گئے،لیکن ٹویوٹا کے لئے یہ ظابطہ چھوڑ گئے کہ یہ کمپنی کبھی کوئی سودی قرض نہ لے۔ جو بھی کام کرے وہ سو فیصد بلا سودی سرمایہ کاری سے کرے ، خواہ اس کے نتیجہ میں تویودا خاندان کو ٹویوٹا کےکنٹرول کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔
ٹویوٹا کے بانی کی اچیرو اس کمپنی سے حسرت و یاس کے ساتھ علیحدہ ہونے کے بعد زندگی بھر یہی سوچتے رہے ہوں گے اتنے ارمانوں کے ساتھ میں نے ساری زندگی جس کمپنی کے لئے کھپائی تھی ، مجھے اس سے دور کیوں ہونا پڑا ؟ انہیں جواب یہی نظر آیا کہ یہ سودی قرضوں کی پھٹکار تھی جو مجھ پر پڑی تھی ۔ ایسا شخص اپنے بعد والوں کیلئے اپنی زندگی کا نچوڑ یہی چھوڑ سکتا تھا کہ سودی لعنت سے بچ کر بلا سودی سرمایہ کاری کے ہر امکان کو روبہ عمل لایا جائے۔
جنگِ عظیم دوم کے بعد اس کے جاپانی معیشت پر پڑنے والے برے اثرات ختم ہوئے ۔ 1951 ء میں جب جنگِ کوریا شروع ہوئی تو جاپان کی مارکیٹ بحال ہوئی اور خوب چمکی ۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کوریا کی جنگ چِھڑ جانا جاپان کیلئے فالِ نیک ثابت ہوا ۔ جاپان کی معیشت بحیثیتِ مجموعی خوب بحال ہوئی ۔ اس جنگ کی وجہ سے اشیاء کی مانگ میں جو زبردست اجافہ ہوا،اس سے جاپان کی معیشت کا ہر شعبہ خوب چمکا ۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ٹویوٹا نے ان بنکوں کے سارے قعضے جلد از جلد ادا کرکے سودی قرجوں سے اپنی جان چھڑائی ۔
اس طرح دیوالیہ سے دوچار ہونے کے انتھائی تلخ تجربہ سے گزرنے کے بعد ٹویوٹا کمپنی کے بانی مسٹر کی اچیرو تویودا کی بتائی ہوئی اسی پالیسی پر آج 60 سال بعد اسی طرح گامزن ہے جیسے پہلے تھی کہ یہ کمپنی کبھی بھی سودی قرضے لینے کی غلطی نہیں کرے گی اور غیر سودی سرمایہ کاری کی ہر صورت کو خوش آمدید کہے گی
مردِ آہن،ٹویوٹا کے بانی کی اچیرو تویودا کی زندگی کےسبق آموزواقعات،تجربات اور آہنی فیصلے
یہ کمپنی کبھی کوئی سودی قرض نہ لے،جو بھی کام کرے وہ سو فیصد بلا سودی سرمایہ کاری سے کرے،خواہ اس کے نتیجہ میں تویودا خاندان کوٹویوٹا کےکنٹرول کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔ تویوٹا کے بانی کی آخری وصیت
بانیء ٹویوٹا کا سودی قرض لینےکی مجبوری کا صدمہ،استعفیٰ،علیحد گی اور انتقال
ٹوکیو۔ سنڈے اسپیشل ۔ اس کمپنی کے بانی کی اچی رو تویودا جو موجودہ صدر آکی اُوتویودا کےدادا تھے،انہوں نے قسم کھا لی تھی کہ ان کی کمپنی کبھی بھی سودی قرضےنہیں لےگی۔ انہوں نےاپنےآئندہ آنےوالوں کےلئےبھی ٹویوٹا کمپنی کا یہ ضابطہ بنا چھوڑا تھا کہ یہ کمپنی کبھی سودی قرض نہ لیا کرےاوریہ نصیحت کی تھی کہ اس ضابطہ پرسختی سےعمل کیا جائے۔ انہیں اس طرح کی قسم کھانےکی ضرورت اس لئےپیش آئی کہ انہیں ایک انتہائی تلخ تجربہ سےگزرنا پڑا تھا ۔ ان کے اس تجربہ کی تلخی کا نادازہ اس سے لگائیے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جس دن ان کو مجبورا یہ قرضہ لینا پڑا تھا ، اس دن انہوں نے ٹویوٹا کمپنی کو تو دیوالیہ سے بچا لیا ، لیکن اسی دن اس سے اپنی صدارت سے بھی استعفیٰ دے دیا اور اُسی دن انتھائی صدمہ کی حالت میں اپنے پسینہ اور خون سے سینچی ہوئی اس کمپنی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی ۔ جس پودے کا انہوں نے 1937 ء میں بیج بویا تھا ، وہ جب 13 سال بعد 1950 ء میں ایک تناور درخت بن گیا اور اس درخت کو زندہ رکھنے کیلئے مجبورا اسے سودی قرضوں کی ابیاری کرنی پڑی تو ایسے درخت کو دوسروں کے حوالے کرکے خود بصد رنج و غم 1950 ء میں اس کمپنی سے دور ہوگئے۔ اس کے بعد 2 سال بعد اسی صدمہ سے اچی رو تویودا اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔
دوسری جنگِ عظیم کے فوری بعد کساد بازاری کے سبب ٹویوٹا کمپنی کے دیوالیہ کا اعلان کرنے کی نوبت آگئی تھی ۔ اس پریشانی کے عالم میں ایک دن صبح ہی صبح ملاقات کا وقت طے کئے بغیر کی اچیرا تویودا اچانک بنک آف جاپان کی ناگویا شاخ کے دفتر پہنچ گئے اور اس وقت کے جاپانی حکومت کی اس مرکزی بنک کے برانچ مینیجر کے سر ہوگئے کہ کسی طرح ٹویوٹا کو دیوالیہ ہونے سے بچائیں ۔ اس وقت کی ٹویوٹا ناگویا کے علاقہ کے لوگوں کےلئے سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والی کمپنی تھی ۔ انہوں نے بنک آف جاپان کو بتایا کہ اگر ٹویوٹا دیوالیہ ہوگئی تو ہزاروں افراد بے روزگار ہوجائیں گے اور ان کے گھروں میں چولھا بھی سلگ نہیں سکے گا ۔ اس لئے بنک آف جاپان ٹویوٹا کی مدد کرے اور ہر قیمت پر اسے دیوالیہ ہونے سے بچائے۔ ان کی اس عاجزانہ درخواست پر بنک آف جاپان ناگویا کی چند بڑی بڑی بنکوں کے صدور کو بلا کر ان سب بنکوں کو راضی کیا کہ وہ ٹویوتا کو اتنے قرضے دیں کہ یہ کمپنی دیوالیہ ہونے سے بچ جائے۔
ٹویوٹا کو اس برے حال تک پہنچانے میں دوسری جنگِ عظیم کے وقت جاپان کی فوجی حکومت کی مداخلت کا دخل بھی ہے۔ اس جنگ کے دوران 1943 ء میں جاپان کی فوجی حکومت نے اپنی ضروریات کےلئے ٹویوٹا پر قبضہ کرلیا تھا اور اس کے بانی کی اچیرو تویودا کو اس کے کنٹرول سے بے دخل کردیا گیا تھا ۔ جنگ میں شکست کے بعد جو ٹویوٹا اس کے بانی کے ھاتھ میں دوبارہ آئی ، اس وقت یہ کمپنی ہر لحاظ سے تباہ ہوچکی تھی ۔ اس وقت اس کی گاڑیاں بھی معیار کے اعتبار سے کافی گری ہوئی تھیں ۔ جنگ کے فوری بعد مارکیٹ بھی کساد بازاری کا شکار تھی ۔ ان حالات میں ٹویوٹا کی ناقص اور معیار سے گری ہوئی گاڑیوں کو فرخت کرکے کمپنی کو منافع کے ساتھ چلانا بھی مشکل ہوگیا تھا ، اس کو مسٹر کی اچیرو تویودا نے بہت سنبھالنے کی کوشش کی لیکن 1949 ء کے اواخر میں یہ اس قابل نہیں رہی تھی کہ اپنے ملازمین کی سالانہ بونس ادا کرسکے،جو 1 اوکو 9 ہزار مان بنتی تھی ۔
جاپانی حکومت کی مرکزی بنک یعنی بنک آف جاپان کی ناگویا شاخ کے دباو کے تحت مِتسوئی بنک اور توکائی بنک کی قیادت میں ساری بنکوں نے مل کر اپریل 1950 ء میں ٹویوٹا کو 12 اوکو این سودی قرضہ دینے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن شرط یہ لگائی کہ ٹویوٹا اس وقت کے اپنی کمپنی کے 1600 ملازمین کو نوکری سے نکال دے۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی جس کے سبب ٹویوٹا کے بانی اچیرو تویودا کو سودی قرضوں سے سخت نفرت ہوگئی تھی اور ان کے ایسے قرضوں سے پرہیز سے قسم کھانے کی بھی ۔
ٹویوٹا کے بانی کی سوچ شروع ہی سے یہ رہی ہے کہ ٹویوٹا کی شرح منافع کم ہوجائے یا اس کو خواہ نقصان بھگتنا پڑجائے لیکن یہ اپنے مستقل ملازمین کو کبھی ملازمت سے فارغ نہیں کرے گی ۔ اسی وجہ سے ٹویوٹا نے گزشتہ 73 سال سے اس پالیسی پر عمل پیرا رہنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ لیکن موجودہ عالمی بحران کی کساد بازاری ، 90 لاکھ گاڑیوں کی واپسی ، امریکی حکومت کے جرمانے ، مختلف اسمبلی پلانٹ کو بند کرنے ، یا ان میں گاڑیاں بنانے کی تعداد کم کرنے جیسے ناگہانی حالات کی مجبوری میں اسے بہت سارے عارضی ملازمین کو فارغ کرنا پڑا ، لیکن اس کو بھی اس نے انتھائی کم سے کم حد تک رکھنے کی کوشش کی ۔
اپریل 1950 ء میں بنکوں نے ٹویوٹا کو 2 اوکو جاپانی این سودی قرض دینے کی منظوری تو دیدی تھی لیکن 1600 ملازمین کو فارغ کرنے کی شرط مسٹر کی اچیرو تویودا کےلئے انتھائی تکلیف دہ تھی ۔ ملازمین ٹویوٹا کے سلسلہ میں اب تک کی اپنی پالیسی سے ہٹنا انہیں کسی بھی قیمت پر گوارا نہیں تھا ۔ مغربی ماہرینِ مینیجمنٹ اپنی کتابوں میں کمپنیوں کو چلانے کے چند جاپانی طور طریق کی اچھائیوں کو اچھالتے ہیں ، ان میں ایک اہم اچھائی اپنے ملازمین کے ساتھ جاپانی کمپنیوں کا زندگی بھر ملازمت کا رواج ہے ۔ جاپانی کمپنیوں کے مالکان اپنے ملازمین کو اپنے خاندان کا ایک فرد سمجھتے ہیں ۔ اس لئے کسی جاپانی کمپنی کے روائتی مالک کے لئے یہ بات کس قدر ذہنی کرب کا سبب بن سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا کسی غیر جاپانی کے بس کی بات نہیں ہے ۔
اپریل 1950 ء میں جب بنکوں نے 1600 ملازمین کو نکالنے کی شرط لگائی تو ٹویوتا کی مزدور یونین نے مطالبہ کیا کہ مسٹر کی اچی رو اپنے پرانے وعدے پر قائم رہتے ہوئے اس کا اعلان کریں کہ وہ کسی کو بھی ٹویوٹا کی ملازمت سے فارغ نہیں کریں گے ، کیونکہ بنکوں کی طرف سے اس شرط کے سامنے آنے سے پہلے مسٹر کی ایچیرو یہ وعدہ کرچکے تھے کہ وہ کسی ٹویوٹا کے ملازم کو نوکری سے فارغ نہیں کریں گے۔ اس مطالبہ کے جواب میں انتھائی افسوس کے ساتھ انہوں نے یہ جواب دیا میں کسی کو ملازمت سے نہیں نکالوں گا ۔ کا وعدہ کرنے کے باوجود ایسی صورتحال میں پھنس گیا ہوں کہ اپنی وعدہ خلافی پر مجبور ہوگیا ہوں ۔ میں اپنی اس وعدہ خلافی کی معافی مانگتا ہوں ۔ اب یونین کے اس مطالبہ کے جواب میں اگر دوبارہ یہ وعدہ کرلوں کہ کسی کو ملازمت سے نہیں نکالوں گا ، تو میرا یہ وعدہ جھوٹ ہوگا ۔ اس لئے مجھے معاف کریں کیونکہ اس مرحلہ پر اب میں ایسا کوئی وعدہ یا یقین دہانی کرنے کی پوزیشن مین نہیں رہا ہوں
اس مرحلہ پر ٹویوٹا کی انتظامیہ مجبور تھی کہ بنکوں کی ہر جائز و ناجائز شرط کے آگے سرِ تسلیم خم کرلے،ورنہ سودی قرضہ نہیں ملتا ، جس کے نتیجہ میں تویوٹا کے پاس اپنا دیوالیہ نکالنے کے علاوہ اور چارہ کار باقی نہیں رہتا ۔ چناچہ جون 1950 ء میں جس دن یہ قرض ملا ، اُسی دن مسٹر کی اچیرو نے ٹویوٹا سے استعفیٰ دے کر اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی اور اس کے 2 سال بعد اسی صدمہ میں مر گئے،لیکن ٹویوٹا کے لئے یہ ظابطہ چھوڑ گئے کہ یہ کمپنی کبھی کوئی سودی قرض نہ لے۔ جو بھی کام کرے وہ سو فیصد بلا سودی سرمایہ کاری سے کرے ، خواہ اس کے نتیجہ میں تویودا خاندان کو ٹویوٹا کےکنٹرول کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔
ٹویوٹا کے بانی کی اچیرو اس کمپنی سے حسرت و یاس کے ساتھ علیحدہ ہونے کے بعد زندگی بھر یہی سوچتے رہے ہوں گے اتنے ارمانوں کے ساتھ میں نے ساری زندگی جس کمپنی کے لئے کھپائی تھی ، مجھے اس سے دور کیوں ہونا پڑا ؟ انہیں جواب یہی نظر آیا کہ یہ سودی قرضوں کی پھٹکار تھی جو مجھ پر پڑی تھی ۔ ایسا شخص اپنے بعد والوں کیلئے اپنی زندگی کا نچوڑ یہی چھوڑ سکتا تھا کہ سودی لعنت سے بچ کر بلا سودی سرمایہ کاری کے ہر امکان کو روبہ عمل لایا جائے۔
جنگِ عظیم دوم کے بعد اس کے جاپانی معیشت پر پڑنے والے برے اثرات ختم ہوئے ۔ 1951 ء میں جب جنگِ کوریا شروع ہوئی تو جاپان کی مارکیٹ بحال ہوئی اور خوب چمکی ۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کوریا کی جنگ چِھڑ جانا جاپان کیلئے فالِ نیک ثابت ہوا ۔ جاپان کی معیشت بحیثیتِ مجموعی خوب بحال ہوئی ۔ اس جنگ کی وجہ سے اشیاء کی مانگ میں جو زبردست اجافہ ہوا،اس سے جاپان کی معیشت کا ہر شعبہ خوب چمکا ۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ٹویوٹا نے ان بنکوں کے سارے قعضے جلد از جلد ادا کرکے سودی قرجوں سے اپنی جان چھڑائی ۔
اس طرح دیوالیہ سے دوچار ہونے کے انتھائی تلخ تجربہ سے گزرنے کے بعد ٹویوٹا کمپنی کے بانی مسٹر کی اچیرو تویودا کی بتائی ہوئی اسی پالیسی پر آج 60 سال بعد اسی طرح گامزن ہے جیسے پہلے تھی کہ یہ کمپنی کبھی بھی سودی قرضے لینے کی غلطی نہیں کرے گی اور غیر سودی سرمایہ کاری کی ہر صورت کو خوش آمدید کہے گی