ووٹ کسے دینا چاہیے؟ کیا آپ کنفیوزڈ ہیں؟ ایک بار اس تھریڈ کو پڑھیں

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
بسم الله الرحمن الرحیم

ووٹ دینے سے پہلے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف باتیں ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر ایک ووٹر فیصلہ کرتا ہے ...زبان، برادری، مسلکی تعصب، شخصیت پسندی، امیدوار یا پارٹی کی ماں یا باپ یا خاندان سے محبت، علاقے میں کرایے جانے والے کام، مستقبل سے متعلق امیدیں. موجودہ پرفارمنس پر ناراضگی. امیدوار کی ایمانداری. الکٹبلز سے تعلق. پارٹی پالیسی سے اتفاق. اسلامی انقلاب کی چاہت، سیکولر حکومت کی خواہش وغیرہ وغیرہ

میں یہاں صرف اس سوال پر بات کرونگا کہ ووٹ دیتے وقت پارٹی کو دیکھنا چاہیے یا امیدوار کو؟؟؟
یہ ایک ایسی گتھی ہے جو اگر سلجھ جایے تو بہت سے لوگوں کو ووٹ دینے میں آسانی ہوگی


میرا پہلے ماننا یہ تھا کہ پارٹی کو دیکھنا چاہیے مگر امیدوار بھی اہمیت رکھتا ہے...مگر اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ نظریہ درست نہیں...ہمارے نظام میں امیدوار محظ ایک زینہ ہے اقتدار تک پنہچنے کا....اس لئے ہمیشہ پارٹی لیڈر اور پارٹی پالیسی کو دیکھ کر ہی ووٹ دینا چاہیے اور یہی لوجیکل اور نتیجے کے اعتبار سے درست فیصلہ ہوگا

آپکو چاہیے کہ سب سے پہلےآپ اپنے علاقے میں دیکھیں کہ کونسے امیدوار جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور کن کے درمیان اصل مقابلہ ہے...ایسے امیدوار ہر علاقے میں ٢ یا تین ہوتے ہیں..آپ انکا تعین کریں..اور اگر انمیں سے کوئی ایک امیدوار اس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے جسے آپ اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس امیدوار کو ووٹ دے دیں جو اس پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑا ہے..یاد رکھیں...وہ امیدوار آپکی نمائندگی نہیں کر رہا وہ اپنی پارٹی کی نمائیندگی کر رہا ہے...اس لئے آپکا ٹارگٹ پارٹی ہونی چاہیے
بلفرض جن امیدواروں میں مقابلہ سخت ہو اور انمیں سے کوی بھی اس پارٹی سے تعلق نا رکھتا ہو جس پارٹی کو آپ ووٹ دینا چاہتے ہیں تو پھر آپ ان دونوں پارٹیوں میں سے اس پارٹی کو ووٹ دیں جو ان دونوں میں آپ کو زیادہ بہتر یا کم بری لگے


اس پارٹی کو بلکل ووٹ نا دیں جو مقابلے میں کہیں نظر ہی نا آئے...اس طرح آپکا ووٹ ضائع ہوجائیگا
چاہے دیگر پارٹیاں مسلک یا اسلامی انقلاب یا امیدواروں کی ایمانداری یا دیگر قسم کے جھانسے دیں
کوئی امیدوار کتنا ہی ایماندار ہو اپنی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا اور یہ ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں ہر پارٹی کے ساتھ دیکھا ہے... مثال کے طور پر ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ختم نبوت کا قانون ہو یا دیگر قوانین اور ترامیم امیدواروں نے وہی کچھ کیا جو پارٹی پالیسی تھی. باوجود اسکے کے اس حلقے کے عوام جنہوں نے اس امیدوار کو منتخب کیا ان قوانین پر راضی نا تھے


مزید یہ کہ اعلی سطح پر پالیسیاں پارٹی بناتی ہے اور وہی پھر نیچے عوام تک اثر انداز ہوتی ہیں..اگر ایسے میں کسی حلقے کا امیدوار کمزور ہو یا اچھی شہرت کا حامل نا بھی ہو تو اوپر بنائی گئی پالیسیز خود بخود عوام تک پنہچ جاتی ہیں.... امیدوار صرف ایک مہرہ ہے جو جسے جہاں چلایا جاتا ہے چل جاتا ہے

مثلا: سینیٹ انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں نے اے این پی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیئے، وہ اے این پی جو جماعت اسلامی کی روایتی مخالف پارٹی رہی ہے، جسے سیکولر اور لا دین سمجھا جاتا ہے اور جس نے ہمیشہ جماعت اسلامی کے اسلامی نظریات کی مخالفت کی....اب کیا جماعت اسلامی کے وہ امیدوار جنہوں نے اے این پی کو ووٹ دیا یہ امیدوار حلقے کی عوام کی نمائندگی کر رہے تھے یا پارٹی کی؟؟ در حقیقت یہ امیدوار پارٹی کے نمائندہ کر رہے تھے ....اس لئے آپ پارٹی کو ووٹ دیں امیدوار کو نہیں

ایک اور بات یہ کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ اپنے نمائندہ آپ چنو....جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امیدوار جسے ہم ووٹ دیتے ہیں یہ ہمارا نمائندہ نہیں...بلکہ پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے.....آپ مجبور ہیں کسی نا کسی کو ووٹ دینا ہی ہے...اور یہ ووٹ براستہ امیدوار پارٹی کو پہنچتا ہے....اس وقت فاٹا میں جے یو آئ اور جماعت اسلامی سیٹوں کی بندر بانٹ پر متفق نا ہوسکے جس کی وجہ سے دونوں اپنے اپنے الگ امیدوار کھڑے کر رہی ہیں...یعنی پورے پاکستان میں تو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے اسلامی انقلاب لایا جا رہا ہے مگر فاٹا میں دونوں کا انقلاب الگ الگ ہے...اب انمیں سے کس کا امیدوار زیادہ ایماندار ہے؟؟ دونوں عالم ہونگے دونوں دیندار دونوں نمازی ہونگے دونوں اسلامی انقلاب کی باتیں کرینگے...ظاہر ہے لوگ پارٹی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں گیے...اور یہی میرا موقف ہے کہ ووٹ پارٹی بنیادوں پر ڈالیں امیدواروں کو مت دیکھیں

یہ یاد رکھیں پارٹی بھی ایک طرح سے آپکی نمائندہ نہیں....اور پارٹی میری نمائندہ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟؟ نمایندے کا کام تو اپنے باس سے پوچھ کر کام کرنا ہوتا ہے...پارٹیاں آپ سے کب پوچھتی ہیں؟
آپ تو انھیں آزماتے ہو...آپکا فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے

اس لئے ووٹ کو اسی سوچ کے ساتھ ڈالیں کہ آپ آزما رہے ہیں..آپ پارٹی کے ہر اچھے برے کے ذمہ دار نہیں...آپکے پاس ایک ہتھیار تھا جسے آپ نے استعمال کیا..بس

ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ حاکم وقت جو پالیسی بنائیگا اس سے ہم مستفید ہونگے یا متاثر...اگر پالیسی اچھی ہوئی تو آپکے علاقے کا نا اہل نمائندہ اس پالیسی کے فوائد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اور اگر حاکم خراب پالیسی بناتا ہے تو آپکے حلقے کا اہل ترین اور ایماندار بھی اس پالیسی کے برے اثرات سے آپکو نہیں بچا سکتا

باقی مذہبی جماعتیں آپکو مذہبی طور پر بلیک میل کرینگی کہ ووٹ امانت ہے گواہی ہے شہادت ہے
بھائی کیسی امانت؟ کیسی شہادت؟
میں کیا جانوں کون ایماندار ہے کون نہیں، کون کونسا قانون بنائیگا کونسا نہیں؟ کس نے مال کیسے بنایا کیسے نہیں؟ کون اپنے گھر والوں سے کیسا ہے؟ باہر والوں سے کیسا ہے؟ کس کی نیت کیا ہے؟کون حلال کماتا ہے کون حرام؟
بھائی ہم اس طرح کی کسی امانت کے اہل نہیں نا ہی ہم کسی بات کے شاھد ہیں تو شہادت کیا دیں؟
ہم تو اس جمہوری نظام کے آگے مجبور اور لاچار محظ ہیں جس میں ہمیں چند مخصوص لوگوں کی چوائس دے دی جاتی ہے چاہتے اور نا چاہتے ہووے بھی...اور انھیں میں ہمیں کسی کو ووٹ دینا ہوتا ہے


ووٹ ایک ہتھیار ہے...اسے عقلمندی کے ساتھ استعمال کریں
جو آپکو اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لحاظ سے پارٹی بہتر لگے اسے ووٹ دیں


امید ہے بات واضح ہوچکی ہوگی

الله ہمارا حامی و ناصر ہو
 
Last edited:

با شعور

Senator (1k+ posts)
بسم الله الرحمن الرحیم

ووٹ دینے سے پہلے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف باتیں ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر ایک ووٹر فیصلہ کرتا ہے ...زبان، برادری، مسلکی تعصب، شخصیت پسندی، امیدوار یا پارٹی کی ماں یا باپ یا خاندان سے محبت، علاقے میں کرایے جانے والے کام، مستقبل سے متعلق امیدیں. موجودہ پرفارمنس پر ناراضگی. امیدوار کی ایمانداری. الکٹبلز سے تعلق. پارٹی پالیسی سے اتفاق. اسلامی انقلاب کی چاہت، سیکولر حکومت کی خواہش وغیرہ وغیرہ

میں یہاں صرف اس سوال پر بات کرونگا کہ ووٹ دیتے وقت پارٹی کو دیکھنا چاہیے یا امیدوار کو؟؟؟
یہ ایک ایسی گتھی ہے جو اگر سلجھ جایے تو بہت سے لوگوں کو ووٹ دینے میں آسانی ہوگی


میرا پہلے ماننا یہ تھا کہ پارٹی کو دیکھنا چاہیے مگر امیدوار بھی اہمیت رکھتا ہے...مگر اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ نظریہ درست نہیں...ہمارے نظام میں امیدوار محظ ایک زینہ ہے اقتدار تک پنہچنے کا....اس لئے ہمیشہ پارٹی لیڈر اور پارٹی پالیسی کو دیکھ کر ہی ووٹ دینا چاہیے اور یہی لوجیکل اور نتیجے کے اعتبار سے درست فیصلہ ہوگا

آپکو چاہیے کہ سب سے پہلےآپ اپنے علاقے میں دیکھیں کہ کونسے امیدوار جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور کن کے درمیان اصل مقابلہ ہے...ایسے امیدوار ہر علاقے میں ٢ یا تین ہوتے ہیں..آپ انکا تعین کریں..اور اگر انمیں سے کوئی ایک امیدوار اس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے جسے آپ اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس امیدوار کو ووٹ دے دیں جو اس پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑا ہے..یاد رکھیں...وہ امیدوار آپکی نمائندگی نہیں کر رہا وہ اپنی پارٹی کی نمائیندگی کر رہا ہے...اس لئے آپکا ٹارگٹ پارٹی ہونی چاہیے
بلفرض جن امیدواروں میں مقابلہ سخت ہو اور انمیں سے کوی بھی اس پارٹی سے تعلق نا رکھتا ہو جس پارٹی کو آپ ووٹ دینا چاہتے ہیں تو پھر آپ ان دونوں پارٹیوں میں سے اس پارٹی کو ووٹ دیں جو ان دونوں میں آپ کو زیادہ بہتر یا کم بری لگے


اس پارٹی کو بلکل ووٹ نا دیں جو مقابلے میں کہیں نظر ہی نا آئے...اس طرح آپکا ووٹ ضائع ہوجائیگا
چاہے دیگر پارٹیاں مسلک یا اسلامی انقلاب یا امیدواروں کی ایمانداری یا دیگر قسم کے جھانسے دیں
کوئی امیدوار کتنا ہی ایماندار ہو اپنی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا اور یہ ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں ہر پارٹی کے ساتھ دیکھا ہے... مثال کے طور پر ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ختم نبوت کا قانون ہو یا دیگر قوانین اور ترامیم امیدواروں نے وہی کچھ کیا جو پارٹی پالیسی تھی. باوجود اسکے کے اس حلقے کے عوام جنہوں نے اس امیدوار کو منتخب کیا ان قوانین پر راضی نا تھے


مزید یہ کہ اعلی سطح پر پالیسیاں پارٹی بناتی ہے اور وہی پھر نیچے عوام تک اثر انداز ہوتی ہیں..اگر ایسے میں کسی حلقے کا امیدوار کمزور ہو یا اچھی شہرت کا حامل نا بھی ہو تو اوپر بنائی گئی پالیسیز خود بخود عوام تک پنہچ جاتی ہیں.... امیدوار صرف ایک مہرہ ہے جو جسے جہاں چلایا جاتا ہے چل جاتا ہے

مثلا: سینیٹ انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں نے اے این پی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیئے، وہ اے این پی جو جماعت اسلامی کی روایتی مخالف پارٹی رہی ہے، جسے سیکولر اور لا دین سمجھا جاتا ہے اور جس نے ہمیشہ جماعت اسلامی کے اسلامی نظریات کی مخالفت کی....اب کیا جماعت اسلامی کے وہ امیدوار جنہوں نے اے این پی کو ووٹ دیا یہ امیدوار حلقے کی عوام کی نمائندگی کر رہے تھے یا پارٹی کی؟؟ در حقیقت یہ امیدوار پارٹی کے نمائندہ کر رہے تھے ....اس لئے آپ پارٹی کو ووٹ دیں امیدوار کو نہیں

ایک اور بات یہ کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ اپنے نمائندہ آپ چنو....جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امیدوار جسے ہم ووٹ دیتے ہیں یہ ہمارا نمائندہ نہیں...بلکہ پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے.....آپ مجبور ہیں کسی نا کسی کو ووٹ دینا ہی ہے...اور یہ ووٹ براستہ امیدوار پارٹی کو پہنچتا ہے....اس وقت فاٹا میں جے یو آئ اور جماعت اسلامی سیٹوں کی بندر بانٹ پر متفق نا ہوسکے جس کی وجہ سے دونوں اپنے اپنے الگ امیدوار کھڑے کر رہی ہیں...یعنی پورے پاکستان میں تو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے اسلامی انقلاب لایا جا رہا ہے مگر فاٹا میں دونوں کا انقلاب الگ الگ ہے...اب انمیں سے کس کا امیدوار زیادہ ایماندار ہے؟؟ دونوں عالم ہونگے دونوں دیندار دونوں نمازی ہونگے دونوں اسلامی انقلاب کی باتیں کرینگے...ظاہر ہے لوگ پارٹی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں گیے...اور یہی میرا موقف ہے کہ ووٹ پارٹی بنیادوں پر ڈالیں امیدواروں کو مت دیکھیں

یہ یاد رکھیں پارٹی بھی ایک طرح سے آپکی نمائندہ نہیں....اور پارٹی میری نمائندہ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟؟ نمایندے کا کام تو اپنے باس سے پوچھ کر کام کرنا ہوتا ہے...پارٹیاں آپ سے کب پوچھتی ہیں؟
آپ تو انھیں آزماتے ہو...آپکا فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے

اس لئے ووٹ کو اسی سوچ کے ساتھ ڈالیں کہ آپ آزما رہے ہیں..آپ پارٹی کے ہر اچھے برے کے ذمہ دار نہیں...آپکے پاس ایک ہتھیار تھا جسے آپ نے استعمال کیا..بس

ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ حاکم وقت جو پالیسی بنائیگا اس سے ہم مستفید ہونگے یا متاثر...اگر پالیسی اچھی ہوئی تو آپکے علاقے کا نا اہل نمائندہ اس پالیسی کے فوائد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اور اگر حاکم خراب پالیسی بناتا ہے تو آپکے حلقے کا اہل ترین اور ایماندار بھی اس پالیسی کے برے اثرات سے آپکو نہیں بچا سکتا

باقی مذہبی جماعتیں آپکو مذہبی طور پر بلیک میل کرینگی کہ ووٹ امانت ہے گواہی ہے شہادت ہے
بھائی کیسی امانت؟ کیسی شہادت؟
میں کیا جانوں کون ایماندار ہے کون نہیں، کون کونسا قانون بنائیگا کونسا نہیں؟ کس نے مال کیسے بنایا کیسے نہیں؟ کون اپنے گھر والوں سے کیسا ہے؟ باہر والوں سے کیسا ہے؟ کس کی نیت کیا ہے؟کون حلال کماتا ہے کون حرام؟
بھائی ہم اس طرح کی کسی امانت کے اہل نہیں نا ہی ہم کسی بات کے شاھد ہیں تو شہادت کیا دیں؟
ہم تو اس جمہوری نظام کے آگے مجبور اور لاچار محظ ہیں جس میں ہمیں چند مخصوص لوگوں کی چوائس دے دی جاتی ہے چاہتے اور نا چاہتے ہووے بھی...اور انھیں میں ہمیں کسی کو ووٹ دینا ہوتا ہے


ووٹ ایک ہتھیار ہے...اسے عقلمندی کے ساتھ استعمال کریں
جو آپکو اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لحاظ سے پارٹی بہتر لگے اسے ووٹ دیں


امید ہے بات واضح ہوچکی ہوگی

الله ہمارا حامی و ناصر ہو
Very nice and logical post
 

Sazeen Balooch

Voter (50+ posts)
Pakistan men vote soch kr kon deta he......sub Taasub krte hen.........Urdu speacking karachi ko Sindhi sindhion ko Punjabi panjabion ke
 

Yasir Kiani

MPA (400+ posts)
DhQFHuRXcAIFyhm.jpg
 

Hira Maroof

Politcal Worker (100+ posts)
کسی کالے چور کوووٹ دیں مگر الطاف حسین جیسے کالے کمینے غلیظ بدکردار کو نہ دیں۔
جس نے نازیہ حسن جیسی ہیرے جیسی لڑکی کو اغوا اور جنسی طور پر پامال کیا۔
اس کے بعد دو سال تک اسے اپنی ملازمہ کی طرح استعما ل کیا جب الطاف کا موڈ ہوتا
وہ نازیہ کو کال کر کے بلوا لیا کرتا اور نازیہ سے جنسی مزہ لیتا۔ لندن تک میں الطاف نے
نازیہ کو بری طرح استعما ل کیا اور تین بار ماں بنایا۔ دو بار ابارشن کے بعد نازیہ کسی
پر یگننسی کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی اس نے الطاف کو یہ بات بتا بھی دی تھی لیکن
اس کے باوجود الطاف نے نشے کی حالت میں نازیہ سے اپنی بھوک مٹائی اور نازک نازیہ
کو موت کی دہلیز پہ پہنچا دیا جہاں وہ مسلسل تیسری بار کنواری ماں بنی تھی اور ڈاکٹر نے
اس قدر جلد تیسرے ابارشن سے منع کر دیا تو نازیہ پیٹ میں الطاف کا حمل لئے الطاف سے
التجا کرتی رہی کہ الطاف اس سے نکاح کر لے لیکن الطاف نے اس کی بات نہ مانی اور
جب یہ پتہ چلا کہ نازیہ الطاف کی بچی جنم دینے کو ہے تو الطاف بالکل ہی ہتھے سے اکھڑ گیا
اور نازیہ کو برابھلا کہہ کے اپنے فلیٹ سے نکال دیا۔
 

Uns Sheikh

Politcal Worker (100+ posts)
کسی کالے چور کوووٹ دیں مگر الطاف حسین جیسے کالے کمینے غلیظ بدکردار کو نہ دیں۔
جس نے نازیہ حسن جیسی ہیرے جیسی لڑکی کو اغوا اور جنسی طور پر پامال کیا۔
اس کے بعد دو سال تک اسے اپنی ملازمہ کی طرح استعما ل کیا جب الطاف کا موڈ ہوتا
وہ نازیہ کو کال کر کے بلوا لیا کرتا اور نازیہ سے جنسی مزہ لیتا۔ لندن تک میں الطاف نے
نازیہ کو بری طرح استعما ل کیا اور تین بار ماں بنایا۔ دو بار ابارشن کے بعد نازیہ کسی
پر یگننسی کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی اس نے الطاف کو یہ بات بتا بھی دی تھی لیکن
اس کے باوجود الطاف نے نشے کی حالت میں نازیہ سے اپنی بھوک مٹائی اور نازک نازیہ
کو موت کی دہلیز پہ پہنچا دیا جہاں وہ مسلسل تیسری بار کنواری ماں بنی تھی اور ڈاکٹر نے
اس قدر جلد تیسرے ابارشن سے منع کر دیا تو نازیہ پیٹ میں الطاف کا حمل لئے الطاف سے
التجا کرتی رہی کہ الطاف اس سے نکاح کر لے لیکن الطاف نے اس کی بات نہ مانی اور
جب یہ پتہ چلا کہ نازیہ الطاف کی بچی جنم دینے کو ہے تو الطاف بالکل ہی ہتھے سے اکھڑ گیا
اور نازیہ کو برابھلا کہہ کے اپنے فلیٹ سے نکال دیا۔
ہائے بے چاری نازیہ حسن اف کیسی ننھی معصوم تھی کہ اپنے بدن کی گرمی سے
جہانگیر خان سے چودھری نثار اور چودھری نثار سے الطاف حسین تک کو گرماتی
رہی۔ سب کو اپنے بدن کے نشیب و فراز کی سیریں کراتی رہی اور پھر ان سب سے
بے شمار مالی اور سمجای فائدے حاصل کرنے کے بعد ایک عدد اعلانیہ شادی کی
جس میں دلہا پہلی رات چیخ اٹھا کہ لڑکی کے نکاح نامے پہ کنواری لکھا ہے مگر اس
کا بدن کنوارا نہیں ہے۔ پھر بھی نازیہ بے چاری ہی رہی۔
چار مردوں سے اس کا ناجائز تعلق تو اخبارات کی زینت بنا ۔ منگنی بھی ایک ١٩٨١
میں کسی علی نامی لندن کے بزنس فیملی کے لڑکے سے کی تھی اس سے بھی ملتی تھی
اس نے ان ہی حرکتوں پہ منگنی توڑ دی۔ پھر انڈیا کے فیروز خان سے ایک بریک تھرو
کی خاطر جسمانی لطف پہنچایا۔ واپس لوٹی تو جہانگیر خان اسکوا ش کے آسمان کا تارا
تھا اس کو بدن کا تحفہ دیا پھر نواز شریف کی حکومت میں چودھری نثار کے اختیارات
دیکھ کے اس گنجے وگ والے کو نازیہ نے اپنے بدن پہ اختیار دے دیا۔ وہاں سے فائدے
اٹھا کے نکلی تو ١٩٩٠ میں شہر پہ راج کرتا راجہ الطا ف بھائی نظروں میں جچ گیا۔
اسے دن رات اپنے بدن کی تسکین پہنچانے پہ کمر بستہ ہوگئی۔
بس اتنی ہی معصوم تھی نازیہ۔​
 

Hira Maroof

Politcal Worker (100+ posts)
ہائے بے چاری نازیہ حسن اف کیسی ننھی معصوم تھی کہ اپنے بدن کی گرمی سے
جہانگیر خان سے چودھری نثار اور چودھری نثار سے الطاف حسین تک کو گرماتی
رہی۔ سب کو اپنے بدن کے نشیب و فراز کی سیریں کراتی رہی اور پھر ان سب سے
بے شمار مالی اور سمجای فائدے حاصل کرنے کے بعد ایک عدد اعلانیہ شادی کی
جس میں دلہا پہلی رات چیخ اٹھا کہ لڑکی کے نکاح نامے پہ کنواری لکھا ہے مگر اس
کا بدن کنوارا نہیں ہے۔ پھر بھی نازیہ بے چاری ہی رہی۔
چار مردوں سے اس کا ناجائز تعلق تو اخبارات کی زینت بنا ۔ منگنی بھی ایک ١٩٨١
میں کسی علی نامی لندن کے بزنس فیملی کے لڑکے سے کی تھی اس سے بھی ملتی تھی
اس نے ان ہی حرکتوں پہ منگنی توڑ دی۔ پھر انڈیا کے فیروز خان سے ایک بریک تھرو
کی خاطر جسمانی لطف پہنچایا۔ واپس لوٹی تو جہانگیر خان اسکوا ش کے آسمان کا تارا
تھا اس کو بدن کا تحفہ دیا پھر نواز شریف کی حکومت میں چودھری نثار کے اختیارات
دیکھ کے اس گنجے وگ والے کو نازیہ نے اپنے بدن پہ اختیار دے دیا۔ وہاں سے فائدے
اٹھا کے نکلی تو ١٩٩٠ میں شہر پہ راج کرتا راجہ الطا ف بھائی نظروں میں جچ گیا۔
اسے دن رات اپنے بدن کی تسکین پہنچانے پہ کمر بستہ ہوگئی۔
بس اتنی ہی معصوم تھی نازیہ۔​
اف اف اف میرے تو کان اور ناک سرخ ہوگئے اس گندی باتوں سے بھری پوسٹ پڑھ کے۔
انس شیخ تم تو الطاف حسین کے ایسے عاشق ہو کہ اس کومظلوم ثابت کرنے کو ایک
معصوم اور مرحوم لڑکی کو ایسا گندا کر سکتے ہو کہ کانپ جائے پڑھنے والا۔
نازیہ ایسی ہرگز نہیں تھی وہ غریب الطاف کے ظلم کا شکار ہوئی تھی اور بس۔
میں نے ١٩٩١ اور ١٩٩٢ کے سب اخبارات ہی پڑھ لئے ہیں کہیں بھی یہ فضول باتیں
نہیں لکھی ہیں جو آپ یہاں گھڑکے سنا رہے ہیں۔
نازیہ کا کبھی بھی چودھری نثار یا جہانگیر ترین کے ساتھ نام نہیں آیا صرف الطاف حسین کے ساتھ
آیا تھا اور وہ بھی اس وجہ سے کہ الطاف نے نازیہ کو اپنا غلام بنا لیا تھا بلیک میلنگ کے زور پہ۔​
 

Hira Maroof

Politcal Worker (100+ posts)
Nahi janab koi confusion nahi PTI ko dena chaheye aur denge
جی بالکل اور کیا؟؟؟
الطاف جیسے غنڈے کو تو ووٹ دینے سے رہے جس نے نازیہ حسن کو پامال کیا۔
یہاں الطاف کے ایک دیوانے کے کمنٹس پڑھ کے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
خود لیڈر کس قدر گھٹیا ہوگا جب اس کو فالو کرنے والا اس کو ڈیفنڈ کرنے کی
خاطر ایک مرحوم لڑکی نازیہ حسن پہ غلیظ گندے الزام لگارہا ہے۔
نازیہ حسن ایک پاک صاف لڑکی تھی اچھے گھر کی اعلی تعلیم یافتہ۔ اور الطاف
ایک غنڈہ بلیک میلر اور کمینہ کم تر انسان تھا جس نے نازیہ کو طاقت کے بل پہ
اغوا کیا ریپ کیا اور وڈیو بنا کے بلیک میل کیا۔ پھر لندن میں بھی اسے اسی
وڈیو کی بنیاد پہ اپنے فلیٹ بلوا کے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور تین بار نازیہ حسن کو
پر یگننٹ کیا وہ غریب دو ابارشن کے بعد میڈیکلی ابارشن سے معذور ہوگئی تو اسے
مجبورا بچی پیدا کرنی پڑی۔ الطاف نے اسے اون کرنے سے انکار کردیا۔​