بسم الله الرحمن الرحیم
ووٹ دینے سے پہلے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف باتیں ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر ایک ووٹر فیصلہ کرتا ہے ...زبان، برادری، مسلکی تعصب، شخصیت پسندی، امیدوار یا پارٹی کی ماں یا باپ یا خاندان سے محبت، علاقے میں کرایے جانے والے کام، مستقبل سے متعلق امیدیں. موجودہ پرفارمنس پر ناراضگی. امیدوار کی ایمانداری. الکٹبلز سے تعلق. پارٹی پالیسی سے اتفاق. اسلامی انقلاب کی چاہت، سیکولر حکومت کی خواہش وغیرہ وغیرہ
میں یہاں صرف اس سوال پر بات کرونگا کہ ووٹ دیتے وقت پارٹی کو دیکھنا چاہیے یا امیدوار کو؟؟؟
یہ ایک ایسی گتھی ہے جو اگر سلجھ جایے تو بہت سے لوگوں کو ووٹ دینے میں آسانی ہوگی
میرا پہلے ماننا یہ تھا کہ پارٹی کو دیکھنا چاہیے مگر امیدوار بھی اہمیت رکھتا ہے...مگر اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ نظریہ درست نہیں...ہمارے نظام میں امیدوار محظ ایک زینہ ہے اقتدار تک پنہچنے کا....اس لئے ہمیشہ پارٹی لیڈر اور پارٹی پالیسی کو دیکھ کر ہی ووٹ دینا چاہیے اور یہی لوجیکل اور نتیجے کے اعتبار سے درست فیصلہ ہوگا
آپکو چاہیے کہ سب سے پہلےآپ اپنے علاقے میں دیکھیں کہ کونسے امیدوار جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور کن کے درمیان اصل مقابلہ ہے...ایسے امیدوار ہر علاقے میں ٢ یا تین ہوتے ہیں..آپ انکا تعین کریں..اور اگر انمیں سے کوئی ایک امیدوار اس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے جسے آپ اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس امیدوار کو ووٹ دے دیں جو اس پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑا ہے..یاد رکھیں...وہ امیدوار آپکی نمائندگی نہیں کر رہا وہ اپنی پارٹی کی نمائیندگی کر رہا ہے...اس لئے آپکا ٹارگٹ پارٹی ہونی چاہیے
بلفرض جن امیدواروں میں مقابلہ سخت ہو اور انمیں سے کوی بھی اس پارٹی سے تعلق نا رکھتا ہو جس پارٹی کو آپ ووٹ دینا چاہتے ہیں تو پھر آپ ان دونوں پارٹیوں میں سے اس پارٹی کو ووٹ دیں جو ان دونوں میں آپ کو زیادہ بہتر یا کم بری لگے
اس پارٹی کو بلکل ووٹ نا دیں جو مقابلے میں کہیں نظر ہی نا آئے...اس طرح آپکا ووٹ ضائع ہوجائیگا
چاہے دیگر پارٹیاں مسلک یا اسلامی انقلاب یا امیدواروں کی ایمانداری یا دیگر قسم کے جھانسے دیں
کوئی امیدوار کتنا ہی ایماندار ہو اپنی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا اور یہ ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں ہر پارٹی کے ساتھ دیکھا ہے... مثال کے طور پر ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ختم نبوت کا قانون ہو یا دیگر قوانین اور ترامیم امیدواروں نے وہی کچھ کیا جو پارٹی پالیسی تھی. باوجود اسکے کے اس حلقے کے عوام جنہوں نے اس امیدوار کو منتخب کیا ان قوانین پر راضی نا تھے
مزید یہ کہ اعلی سطح پر پالیسیاں پارٹی بناتی ہے اور وہی پھر نیچے عوام تک اثر انداز ہوتی ہیں..اگر ایسے میں کسی حلقے کا امیدوار کمزور ہو یا اچھی شہرت کا حامل نا بھی ہو تو اوپر بنائی گئی پالیسیز خود بخود عوام تک پنہچ جاتی ہیں.... امیدوار صرف ایک مہرہ ہے جو جسے جہاں چلایا جاتا ہے چل جاتا ہے
مثلا: سینیٹ انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں نے اے این پی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیئے، وہ اے این پی جو جماعت اسلامی کی روایتی مخالف پارٹی رہی ہے، جسے سیکولر اور لا دین سمجھا جاتا ہے اور جس نے ہمیشہ جماعت اسلامی کے اسلامی نظریات کی مخالفت کی....اب کیا جماعت اسلامی کے وہ امیدوار جنہوں نے اے این پی کو ووٹ دیا یہ امیدوار حلقے کی عوام کی نمائندگی کر رہے تھے یا پارٹی کی؟؟ در حقیقت یہ امیدوار پارٹی کے نمائندہ کر رہے تھے ....اس لئے آپ پارٹی کو ووٹ دیں امیدوار کو نہیں
ایک اور بات یہ کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ اپنے نمائندہ آپ چنو....جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امیدوار جسے ہم ووٹ دیتے ہیں یہ ہمارا نمائندہ نہیں...بلکہ پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے.....آپ مجبور ہیں کسی نا کسی کو ووٹ دینا ہی ہے...اور یہ ووٹ براستہ امیدوار پارٹی کو پہنچتا ہے....اس وقت فاٹا میں جے یو آئ اور جماعت اسلامی سیٹوں کی بندر بانٹ پر متفق نا ہوسکے جس کی وجہ سے دونوں اپنے اپنے الگ امیدوار کھڑے کر رہی ہیں...یعنی پورے پاکستان میں تو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے اسلامی انقلاب لایا جا رہا ہے مگر فاٹا میں دونوں کا انقلاب الگ الگ ہے...اب انمیں سے کس کا امیدوار زیادہ ایماندار ہے؟؟ دونوں عالم ہونگے دونوں دیندار دونوں نمازی ہونگے دونوں اسلامی انقلاب کی باتیں کرینگے...ظاہر ہے لوگ پارٹی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں گیے...اور یہی میرا موقف ہے کہ ووٹ پارٹی بنیادوں پر ڈالیں امیدواروں کو مت دیکھیں
یہ یاد رکھیں پارٹی بھی ایک طرح سے آپکی نمائندہ نہیں....اور پارٹی میری نمائندہ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟؟ نمایندے کا کام تو اپنے باس سے پوچھ کر کام کرنا ہوتا ہے...پارٹیاں آپ سے کب پوچھتی ہیں؟
آپ تو انھیں آزماتے ہو...آپکا فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے
اس لئے ووٹ کو اسی سوچ کے ساتھ ڈالیں کہ آپ آزما رہے ہیں..آپ پارٹی کے ہر اچھے برے کے ذمہ دار نہیں...آپکے پاس ایک ہتھیار تھا جسے آپ نے استعمال کیا..بس
ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ حاکم وقت جو پالیسی بنائیگا اس سے ہم مستفید ہونگے یا متاثر...اگر پالیسی اچھی ہوئی تو آپکے علاقے کا نا اہل نمائندہ اس پالیسی کے فوائد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اور اگر حاکم خراب پالیسی بناتا ہے تو آپکے حلقے کا اہل ترین اور ایماندار بھی اس پالیسی کے برے اثرات سے آپکو نہیں بچا سکتا
باقی مذہبی جماعتیں آپکو مذہبی طور پر بلیک میل کرینگی کہ ووٹ امانت ہے گواہی ہے شہادت ہے
بھائی کیسی امانت؟ کیسی شہادت؟
میں کیا جانوں کون ایماندار ہے کون نہیں، کون کونسا قانون بنائیگا کونسا نہیں؟ کس نے مال کیسے بنایا کیسے نہیں؟ کون اپنے گھر والوں سے کیسا ہے؟ باہر والوں سے کیسا ہے؟ کس کی نیت کیا ہے؟کون حلال کماتا ہے کون حرام؟
بھائی ہم اس طرح کی کسی امانت کے اہل نہیں نا ہی ہم کسی بات کے شاھد ہیں تو شہادت کیا دیں؟
ہم تو اس جمہوری نظام کے آگے مجبور اور لاچار محظ ہیں جس میں ہمیں چند مخصوص لوگوں کی چوائس دے دی جاتی ہے چاہتے اور نا چاہتے ہووے بھی...اور انھیں میں ہمیں کسی کو ووٹ دینا ہوتا ہے
ووٹ ایک ہتھیار ہے...اسے عقلمندی کے ساتھ استعمال کریں
جو آپکو اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لحاظ سے پارٹی بہتر لگے اسے ووٹ دیں
امید ہے بات واضح ہوچکی ہوگی
الله ہمارا حامی و ناصر ہو
ووٹ دینے سے پہلے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف باتیں ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر ایک ووٹر فیصلہ کرتا ہے ...زبان، برادری، مسلکی تعصب، شخصیت پسندی، امیدوار یا پارٹی کی ماں یا باپ یا خاندان سے محبت، علاقے میں کرایے جانے والے کام، مستقبل سے متعلق امیدیں. موجودہ پرفارمنس پر ناراضگی. امیدوار کی ایمانداری. الکٹبلز سے تعلق. پارٹی پالیسی سے اتفاق. اسلامی انقلاب کی چاہت، سیکولر حکومت کی خواہش وغیرہ وغیرہ
میں یہاں صرف اس سوال پر بات کرونگا کہ ووٹ دیتے وقت پارٹی کو دیکھنا چاہیے یا امیدوار کو؟؟؟
یہ ایک ایسی گتھی ہے جو اگر سلجھ جایے تو بہت سے لوگوں کو ووٹ دینے میں آسانی ہوگی
میرا پہلے ماننا یہ تھا کہ پارٹی کو دیکھنا چاہیے مگر امیدوار بھی اہمیت رکھتا ہے...مگر اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ نظریہ درست نہیں...ہمارے نظام میں امیدوار محظ ایک زینہ ہے اقتدار تک پنہچنے کا....اس لئے ہمیشہ پارٹی لیڈر اور پارٹی پالیسی کو دیکھ کر ہی ووٹ دینا چاہیے اور یہی لوجیکل اور نتیجے کے اعتبار سے درست فیصلہ ہوگا
آپکو چاہیے کہ سب سے پہلےآپ اپنے علاقے میں دیکھیں کہ کونسے امیدوار جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور کن کے درمیان اصل مقابلہ ہے...ایسے امیدوار ہر علاقے میں ٢ یا تین ہوتے ہیں..آپ انکا تعین کریں..اور اگر انمیں سے کوئی ایک امیدوار اس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے جسے آپ اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس امیدوار کو ووٹ دے دیں جو اس پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑا ہے..یاد رکھیں...وہ امیدوار آپکی نمائندگی نہیں کر رہا وہ اپنی پارٹی کی نمائیندگی کر رہا ہے...اس لئے آپکا ٹارگٹ پارٹی ہونی چاہیے
بلفرض جن امیدواروں میں مقابلہ سخت ہو اور انمیں سے کوی بھی اس پارٹی سے تعلق نا رکھتا ہو جس پارٹی کو آپ ووٹ دینا چاہتے ہیں تو پھر آپ ان دونوں پارٹیوں میں سے اس پارٹی کو ووٹ دیں جو ان دونوں میں آپ کو زیادہ بہتر یا کم بری لگے
اس پارٹی کو بلکل ووٹ نا دیں جو مقابلے میں کہیں نظر ہی نا آئے...اس طرح آپکا ووٹ ضائع ہوجائیگا
چاہے دیگر پارٹیاں مسلک یا اسلامی انقلاب یا امیدواروں کی ایمانداری یا دیگر قسم کے جھانسے دیں
کوئی امیدوار کتنا ہی ایماندار ہو اپنی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا اور یہ ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں ہر پارٹی کے ساتھ دیکھا ہے... مثال کے طور پر ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ختم نبوت کا قانون ہو یا دیگر قوانین اور ترامیم امیدواروں نے وہی کچھ کیا جو پارٹی پالیسی تھی. باوجود اسکے کے اس حلقے کے عوام جنہوں نے اس امیدوار کو منتخب کیا ان قوانین پر راضی نا تھے
مزید یہ کہ اعلی سطح پر پالیسیاں پارٹی بناتی ہے اور وہی پھر نیچے عوام تک اثر انداز ہوتی ہیں..اگر ایسے میں کسی حلقے کا امیدوار کمزور ہو یا اچھی شہرت کا حامل نا بھی ہو تو اوپر بنائی گئی پالیسیز خود بخود عوام تک پنہچ جاتی ہیں.... امیدوار صرف ایک مہرہ ہے جو جسے جہاں چلایا جاتا ہے چل جاتا ہے
مثلا: سینیٹ انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں نے اے این پی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیئے، وہ اے این پی جو جماعت اسلامی کی روایتی مخالف پارٹی رہی ہے، جسے سیکولر اور لا دین سمجھا جاتا ہے اور جس نے ہمیشہ جماعت اسلامی کے اسلامی نظریات کی مخالفت کی....اب کیا جماعت اسلامی کے وہ امیدوار جنہوں نے اے این پی کو ووٹ دیا یہ امیدوار حلقے کی عوام کی نمائندگی کر رہے تھے یا پارٹی کی؟؟ در حقیقت یہ امیدوار پارٹی کے نمائندہ کر رہے تھے ....اس لئے آپ پارٹی کو ووٹ دیں امیدوار کو نہیں
ایک اور بات یہ کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ اپنے نمائندہ آپ چنو....جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امیدوار جسے ہم ووٹ دیتے ہیں یہ ہمارا نمائندہ نہیں...بلکہ پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے.....آپ مجبور ہیں کسی نا کسی کو ووٹ دینا ہی ہے...اور یہ ووٹ براستہ امیدوار پارٹی کو پہنچتا ہے....اس وقت فاٹا میں جے یو آئ اور جماعت اسلامی سیٹوں کی بندر بانٹ پر متفق نا ہوسکے جس کی وجہ سے دونوں اپنے اپنے الگ امیدوار کھڑے کر رہی ہیں...یعنی پورے پاکستان میں تو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے اسلامی انقلاب لایا جا رہا ہے مگر فاٹا میں دونوں کا انقلاب الگ الگ ہے...اب انمیں سے کس کا امیدوار زیادہ ایماندار ہے؟؟ دونوں عالم ہونگے دونوں دیندار دونوں نمازی ہونگے دونوں اسلامی انقلاب کی باتیں کرینگے...ظاہر ہے لوگ پارٹی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں گیے...اور یہی میرا موقف ہے کہ ووٹ پارٹی بنیادوں پر ڈالیں امیدواروں کو مت دیکھیں
یہ یاد رکھیں پارٹی بھی ایک طرح سے آپکی نمائندہ نہیں....اور پارٹی میری نمائندہ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟؟ نمایندے کا کام تو اپنے باس سے پوچھ کر کام کرنا ہوتا ہے...پارٹیاں آپ سے کب پوچھتی ہیں؟
آپ تو انھیں آزماتے ہو...آپکا فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے
اس لئے ووٹ کو اسی سوچ کے ساتھ ڈالیں کہ آپ آزما رہے ہیں..آپ پارٹی کے ہر اچھے برے کے ذمہ دار نہیں...آپکے پاس ایک ہتھیار تھا جسے آپ نے استعمال کیا..بس
ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ حاکم وقت جو پالیسی بنائیگا اس سے ہم مستفید ہونگے یا متاثر...اگر پالیسی اچھی ہوئی تو آپکے علاقے کا نا اہل نمائندہ اس پالیسی کے فوائد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اور اگر حاکم خراب پالیسی بناتا ہے تو آپکے حلقے کا اہل ترین اور ایماندار بھی اس پالیسی کے برے اثرات سے آپکو نہیں بچا سکتا
باقی مذہبی جماعتیں آپکو مذہبی طور پر بلیک میل کرینگی کہ ووٹ امانت ہے گواہی ہے شہادت ہے
بھائی کیسی امانت؟ کیسی شہادت؟
میں کیا جانوں کون ایماندار ہے کون نہیں، کون کونسا قانون بنائیگا کونسا نہیں؟ کس نے مال کیسے بنایا کیسے نہیں؟ کون اپنے گھر والوں سے کیسا ہے؟ باہر والوں سے کیسا ہے؟ کس کی نیت کیا ہے؟کون حلال کماتا ہے کون حرام؟
بھائی ہم اس طرح کی کسی امانت کے اہل نہیں نا ہی ہم کسی بات کے شاھد ہیں تو شہادت کیا دیں؟
ہم تو اس جمہوری نظام کے آگے مجبور اور لاچار محظ ہیں جس میں ہمیں چند مخصوص لوگوں کی چوائس دے دی جاتی ہے چاہتے اور نا چاہتے ہووے بھی...اور انھیں میں ہمیں کسی کو ووٹ دینا ہوتا ہے
ووٹ ایک ہتھیار ہے...اسے عقلمندی کے ساتھ استعمال کریں
جو آپکو اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لحاظ سے پارٹی بہتر لگے اسے ووٹ دیں
امید ہے بات واضح ہوچکی ہوگی
الله ہمارا حامی و ناصر ہو