jani1
Chief Minister (5k+ posts)

وقت۔
یہ سن ۹۰ کی بات ہے جب میرا کوئی ۱۰ سے ۱۲ سال کی عمر میں نانا جان کے ہمراہ گلگت و ہُنزہ کی دس روزہ سیر پر جانے کا اتفاق ہوا ۔ اُن کے ایک قریبی دوست کے ہمراہ جن کا گلگت میں اپنا ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ سفر صُبح 6 بجے شُروع ہوا اور خطرناک و دُشوار گُزار راستہ طے کرتے ہوئے رات 10 بجے ختم ہوا۔ آجکل شاید اس سے آدھے وقت میں یہی سفر ممکن ہو۔
چند دن ہم نے گلگت میں قیام کیا پھر ھُنزہ کا رُخ کیا۔ جہاں پہاڑ کے دامن پر واقع مٹی، پتھر و لکڑی سے بنے ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں قیام کیا۔مُجھے آج بھی یاد ہے وہ پہلی رات جب اچانک میری آنکھ کھلی۔میں نے آس پاس دیکھا تو کمرے میں نانا جان اور اُن کے دوست آرام فرمارہے تھے۔میں آہستہ سے لکڑی کے بھاری دروازے کو کھولتا ہوا کمرے سے باہر آیا۔
تاریک رات میں سُفید برف کنبل کی مانند پہاڑوں کو ڈھانپے ہوئے تھی۔ چاند کی ہلکی سی چاندنی نے اُس منظر میں چار چاند لگادیئے تھے۔ کہیں دُور پہاڑوں سے ٹکراتی ہلکی سی موسیقی گونج رہی تھی۔گانے کے بول تھے" جب ہم جواں ہونگے"۔ میں کُچھ دیر تک یوں ہی خاموش نگاہوں و ساکت وجود سے اس ماحول میں کھو سا گیا ۔یخ ہوا کی ٹکر کو چہرے و وجود پر محسُوس کیئے بغیر۔
"جب ہم جواں ہونگے "کو آج جب ستائیس سال بعد کہیں سُنتا ہوں تو سوچھتا ہوں کہ کائنات میں اگر کسی چیز کی رفتار سب سے تیز ہے تو وہ وقت ہے۔اگر ظالم ہے تو وقت ہے۔ اگر بے مُروت ہے تو وقت ہے۔ انتہائی بدلحاظ۔ جس نے اسے لگام ڈالے رکھی وہ اسی کی رفتار میں اس کی پیٹھ پر سفر کرنے لگا۔ جس سے اس کی لگام چھوُٹی۔ بے قابُو اور بدمست گھوڑے کی طرح اُسے رونگتے ہوئے آگے نکل گیا۔
کیا ہو رہا ہے بیٹا۔؟
نانا جان کی شفقت بھری آواز سے جیسے میں اس جادُئی منظر کے اثر سے باہر آیا نہی تو کیا معلُوم کتنی دیر یوں ہی ٹھنڈ میں خاموش کھڑے رہ کر اپنی قُلفی بنا ڈالتا۔
جی وہ میری آنکھ کُھل گئی تھی ۔ شاید کمرے میں کُچھ گُھٹن کی وجہ سے۔
اچھا ٹھیک ہے اندر آجاو۔ باہر یوں ہی کھڑے رہے تو بیمار پڑجاو گے۔
ٹھیک ہے ابھی آیا۔ میں نے ادب سے جواب دیا۔
اُن کی عمر ۹۰ سال کے قریب تھی مگر ہمت ابھی جواں تھی۔ہرسال گرمیوں میں اُن کی یہی روٹین تھی کہ نانی جان کے ہمراہ کالام، چھترال و گلگت بلتستان چلے جاتے اور گرمیاں گُزار کر واپس اپنی کتابوں کی دُکان سنبھالتے۔ کھبی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، اپنے بیٹوں کے آگے بھی نہیں۔
پُرانے وقتوں میں اور آج میں جس طرح باقی چیزیں بدل گئیں ہیں ویسے ہی عزت اور ذلت کے پیمانوں میں بھی کافی تبدیلی آگئی ہے۔ اُس وقت آدمی کے پاس اور کُچھ ہوتا یا نہیں مگر عزت و خُداری کے بغیر آدمی کو آدمی تصور نہیں کیا جاتا ۔ اور آج وقت یہ آگیا ہے کہ آدمی صرف خودار و عزت دار ہو تو اُسے آدمی ہی نہیں مانا جاتا۔ساتھ میں چالاک و چور بھی ہونا چاہیئے ، جو جتنا بڑا چالاک و چور وہ اُتنا ہی عزت دار ۔
اُس سفر کے اگلے ہی سال نانا جان کا انتقال ہوگیا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔اللہ اُن کی اور باقی مومنین کی مغفرت فرمائے۔
زندگی کی اس تیز رفتاری میں اور اپنی اس جوانی میں اپنے بڑے بوڑھوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ کھبی وہ بھی جوان تھے اور ہم بچے۔ کھبی ہم بھی بوڑھے ہونگے اور ہمارے بچے جوان۔کھبی اُن کا وقت تھا۔ اب ہمارا ہے۔ کل کسی اور کا ہوگا۔
https://www.facebook.com/JANI1JANI1/
- Featured Thumbs
- https://abuwhy.files.wordpress.com/2012/11/imgpress.jpg
Last edited: