خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ 15 جنوری 2023 کو انتخابات بغیر حلقہ بندیوں کے تحت ہوئے، وفاق اور صوبے کی حکومتیں فیصلہ کریں بلدیاتی انتخابات کیسے قانونی ہوئے، ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو وہ الیکشن نہیں کہلائے گا۔
ایم کیو ایم رہنما نے مزید کہا کہ حکومت میں چلے گئے تو کیا ہر چیز کو جائز کہنا شروع کردیں ؟، وفاقی حکومت بنائی ہے خود کو بیچا نہیں ہے، جن کے پاس ہمارے آفسز ہیں، وہ اپنے پاس رکھیں، ہمیں ہمارے آفسز کے بغیر جینے کا حوصلہ اور طریقہ آگیا ہے۔
دوسر جانب متحدہ قومی موومنٹ ماہ فروری سے احتجاجی جلسوں کا آغاز کرے گی ۔ ذرائع کے مطابق کراچی، حیدرآباد بلدیاتی انتخابات سے پہلے ہونے والی مردم شماری، متنازع حلقہ بندیوں، ووٹر لسٹوں کے علاوہ متعدد دیگر معاملات پر اعتراضات کے حوالے سے ایم کیوایم طرف سے سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ ماہ فروری سے احتجاجی جلسوں کا آغاز کرے گا جس کا حتمی طور پر فیصلہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں ہو گا۔
ایم کیو ایم ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں درست رائے شماری نہیں کی گئی جبکہ حلقہ بندیاں بھی غلط کی گئی ہیں اس لیے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں بھی جلسے کیے جائیں گے اور پہلا جلسہ باغ جناح مزارِ قائد کراچی میں کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں مزار قائد پر پہلے جلسے کی تاریخ کا فیصلہ کرنے کیلئے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دیہی علاقوں کو حیدرآباد شہر کے ساتھ ملا دیا گیا اس لیے میئر اب کبھی بھی شہری علاقوں سے نہیں آ سکتا جبکہ 90،90 ہزار پر ایک یوسی قائم کی گئی ہے جس سے محرومی بڑھے گی اور نوجوانوں کے گروپ بنیں گے جو ہم کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ کا ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے بائیکاٹ کر دیا گیا تھا۔
چند دن پہلے ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کیلئے عدالت میں دائر کرنے کیلئے پٹیشن بھی تیار کر لی گئی ہے۔ یاد رہے کہ 15 جنوری کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ بندیوں پر تحفظات دور کرنے کو کہا تھا جس سندھ حکومت کی طرف سے نہیں کیے گئے جس پر بلدیاتی الیکشن سے 2 دن پہلے ہی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ 15 جنوری 2023 کو انتخابات بغیر حلقہ بندیوں کے تحت ہوئے، وفاق اور صوبے کی حکومتیں فیصلہ کریں بلدیاتی انتخابات کیسے قانونی ہوئے، ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو وہ الیکشن نہیں کہلائے گا۔
ایم کیو ایم رہنما نے مزید کہا کہ حکومت میں چلے گئے تو کیا ہر چیز کو جائز کہنا شروع کردیں ؟، وفاقی حکومت بنائی ہے خود کو بیچا نہیں ہے، جن کے پاس ہمارے آفسز ہیں، وہ اپنے پاس رکھیں، ہمیں ہمارے آفسز کے بغیر جینے کا حوصلہ اور طریقہ آگیا ہے۔
دوسر جانب متحدہ قومی موومنٹ ماہ فروری سے احتجاجی جلسوں کا آغاز کرے گی ۔ ذرائع کے مطابق کراچی، حیدرآباد بلدیاتی انتخابات سے پہلے ہونے والی مردم شماری، متنازع حلقہ بندیوں، ووٹر لسٹوں کے علاوہ متعدد دیگر معاملات پر اعتراضات کے حوالے سے ایم کیوایم طرف سے سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ ماہ فروری سے احتجاجی جلسوں کا آغاز کرے گا جس کا حتمی طور پر فیصلہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں ہو گا۔
ایم کیو ایم ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں درست رائے شماری نہیں کی گئی جبکہ حلقہ بندیاں بھی غلط کی گئی ہیں اس لیے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں بھی جلسے کیے جائیں گے اور پہلا جلسہ باغ جناح مزارِ قائد کراچی میں کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں مزار قائد پر پہلے جلسے کی تاریخ کا فیصلہ کرنے کیلئے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دیہی علاقوں کو حیدرآباد شہر کے ساتھ ملا دیا گیا اس لیے میئر اب کبھی بھی شہری علاقوں سے نہیں آ سکتا جبکہ 90،90 ہزار پر ایک یوسی قائم کی گئی ہے جس سے محرومی بڑھے گی اور نوجوانوں کے گروپ بنیں گے جو ہم کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ کا ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے بائیکاٹ کر دیا گیا تھا۔
چند دن پہلے ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کیلئے عدالت میں دائر کرنے کیلئے پٹیشن بھی تیار کر لی گئی ہے۔ یاد رہے کہ 15 جنوری کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ بندیوں پر تحفظات دور کرنے کو کہا تھا جس سندھ حکومت کی طرف سے نہیں کیے گئے جس پر بلدیاتی الیکشن سے 2 دن پہلے ہی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ 15 جنوری 2023 کو انتخابات بغیر حلقہ بندیوں کے تحت ہوئے، وفاق اور صوبے کی حکومتیں فیصلہ کریں بلدیاتی انتخابات کیسے قانونی ہوئے، ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو وہ الیکشن نہیں کہلائے گا۔
ایم کیو ایم رہنما نے مزید کہا کہ حکومت میں چلے گئے تو کیا ہر چیز کو جائز کہنا شروع کردیں ؟، وفاقی حکومت بنائی ہے خود کو بیچا نہیں ہے، جن کے پاس ہمارے آفسز ہیں، وہ اپنے پاس رکھیں، ہمیں ہمارے آفسز کے بغیر جینے کا حوصلہ اور طریقہ آگیا ہے۔
دوسر جانب متحدہ قومی موومنٹ ماہ فروری سے احتجاجی جلسوں کا آغاز کرے گی ۔ ذرائع کے مطابق کراچی، حیدرآباد بلدیاتی انتخابات سے پہلے ہونے والی مردم شماری، متنازع حلقہ بندیوں، ووٹر لسٹوں کے علاوہ متعدد دیگر معاملات پر اعتراضات کے حوالے سے ایم کیوایم طرف سے سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ ماہ فروری سے احتجاجی جلسوں کا آغاز کرے گا جس کا حتمی طور پر فیصلہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں ہو گا۔
ایم کیو ایم ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں درست رائے شماری نہیں کی گئی جبکہ حلقہ بندیاں بھی غلط کی گئی ہیں اس لیے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں بھی جلسے کیے جائیں گے اور پہلا جلسہ باغ جناح مزارِ قائد کراچی میں کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں مزار قائد پر پہلے جلسے کی تاریخ کا فیصلہ کرنے کیلئے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دیہی علاقوں کو حیدرآباد شہر کے ساتھ ملا دیا گیا اس لیے میئر اب کبھی بھی شہری علاقوں سے نہیں آ سکتا جبکہ 90،90 ہزار پر ایک یوسی قائم کی گئی ہے جس سے محرومی بڑھے گی اور نوجوانوں کے گروپ بنیں گے جو ہم کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ کا ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے بائیکاٹ کر دیا گیا تھا۔
چند دن پہلے ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کیلئے عدالت میں دائر کرنے کیلئے پٹیشن بھی تیار کر لی گئی ہے۔ یاد رہے کہ 15 جنوری کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ بندیوں پر تحفظات دور کرنے کو کہا تھا جس سندھ حکومت کی طرف سے نہیں کیے گئے جس پر بلدیاتی الیکشن سے 2 دن پہلے ہی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا تھا۔