Muslimpower
MPA (400+ posts)
حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف لے گئے ، انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا روۓ مبارک دیکھا ۔دیکھتے ہی انہوں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کا یقین ہو گیا ۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیشانی پر بوسہ دیا اور چہرہ ڈھانپ دیا۔
وہاں سے ابو بکر تشریف لاۓ ۔ آتے ہی اس حلیم الطبع انسان نے ایک ہاتھ بلند کر کے سب سے خاموشی کی درخواست کی ۔انکے لہجے میں ،انکی آواز میں اور انکے الفاظ میں ساری دنیا کا اختیار جھلک رہا تھا۔
"اگر ہم میں سے کویئ ایسا ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو معبود سمجھتا ہے تو وہ جان لے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) انتقال ہو چکا ھے"۔
یہ کہ کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس دردناک حقیقت کے دلوں میں اترنے کے لئے جتنا وقفہ ضروری تھا ،دیا اور پھر اعلان کیا :
"لیکن جو اللہ کو اپنا معبود سمجھتا ھے ، اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رھے گا"۔
اس کے بعد آل عمران کی یہ آیت پڑھی جو جنگ احد کے بعد نازل ہوی تھی :
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ
"اور تو محمد صرف اللہ کے پیغمبر ہیں
ان سے پہلے بھی کیئ پیغمبر ہو گزرے ہیں
بھلا اگر یہ مر جایئں یا مارے جایئں
تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟
اور جو الٹے پاؤں پھر جاۓ گا
تو اللہ کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا
اور اللہ شکر کرنے والوں کو ثواب دے گا"۔
یوں لگتا تھا جیسے لوگوں نے اس آیت کا مفہوم پہلی مرتبہ سمجھا تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا اور زور زور سے رونے لگے ۔گریہ وزاری کے عالم میں کھڑے نہ رہ سکے تو بیٹھ گئے ،اسی طرح چہرہ چھپاۓ زارو قطار روتے رھے۔انکا سارا جسم لرزے کے عالم میں تھا ۔پھر مدینہ اس طرح گریہ کناں ہوا کہ معلوم ہوتا تھا ساری کائنات رو رہی ھے ۔ لوگوں نے آمد رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر مدینے کی خوشی انتہا دیکھی تھی ،آج مدینے کے غم کی انتہا دیکھ رہا تھا۔
تدفین کے بعد قبر پر چھڑکاؤ کرنے کی سعادت بھی حضرت بلال کے حصے میں آیئ ۔وہ ہلکے ہلکے چھڑکاؤ کرتے جاتے تھے اور سوچے جا رھے تھے کہ آج کیسا آفتاب غروب ہو گیا ھے ۔کیا سعادت ہے اس زمین کی ،مٹی کے ان ذروں کی ،جنہوں نے اس آفتاب کو اپنی آغوش میں لیا ھے ۔
وہاں سے ابو بکر تشریف لاۓ ۔ آتے ہی اس حلیم الطبع انسان نے ایک ہاتھ بلند کر کے سب سے خاموشی کی درخواست کی ۔انکے لہجے میں ،انکی آواز میں اور انکے الفاظ میں ساری دنیا کا اختیار جھلک رہا تھا۔
"اگر ہم میں سے کویئ ایسا ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو معبود سمجھتا ہے تو وہ جان لے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) انتقال ہو چکا ھے"۔
یہ کہ کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس دردناک حقیقت کے دلوں میں اترنے کے لئے جتنا وقفہ ضروری تھا ،دیا اور پھر اعلان کیا :
"لیکن جو اللہ کو اپنا معبود سمجھتا ھے ، اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رھے گا"۔
اس کے بعد آل عمران کی یہ آیت پڑھی جو جنگ احد کے بعد نازل ہوی تھی :
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ
"اور تو محمد صرف اللہ کے پیغمبر ہیں
ان سے پہلے بھی کیئ پیغمبر ہو گزرے ہیں
بھلا اگر یہ مر جایئں یا مارے جایئں
تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟
اور جو الٹے پاؤں پھر جاۓ گا
تو اللہ کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا
اور اللہ شکر کرنے والوں کو ثواب دے گا"۔
یوں لگتا تھا جیسے لوگوں نے اس آیت کا مفہوم پہلی مرتبہ سمجھا تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا اور زور زور سے رونے لگے ۔گریہ وزاری کے عالم میں کھڑے نہ رہ سکے تو بیٹھ گئے ،اسی طرح چہرہ چھپاۓ زارو قطار روتے رھے۔انکا سارا جسم لرزے کے عالم میں تھا ۔پھر مدینہ اس طرح گریہ کناں ہوا کہ معلوم ہوتا تھا ساری کائنات رو رہی ھے ۔ لوگوں نے آمد رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر مدینے کی خوشی انتہا دیکھی تھی ،آج مدینے کے غم کی انتہا دیکھ رہا تھا۔
تدفین کے بعد قبر پر چھڑکاؤ کرنے کی سعادت بھی حضرت بلال کے حصے میں آیئ ۔وہ ہلکے ہلکے چھڑکاؤ کرتے جاتے تھے اور سوچے جا رھے تھے کہ آج کیسا آفتاب غروب ہو گیا ھے ۔کیا سعادت ہے اس زمین کی ،مٹی کے ان ذروں کی ،جنہوں نے اس آفتاب کو اپنی آغوش میں لیا ھے ۔