Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
وسیلہ کی اہمیت قرآن اور احادیث کی روشنی میں
وسیلہ کی اہمیت قرآن اور احادیث کی روشنی میں بہت زیادہ ہے اور تمام امت اسلامی میں جیسا کہ تاریخ گواہ ہے ساتویں ہجری تک کوئی بھی اعتراض توسل پر نہیں ہوتا تھا لیکن جب وھابیت کے افکار کے بانی ابن تیمیہ( جو سنہ 661 ہجری کو دنیا میں آیا اور 727 ہجری کو ان کے افکار باطلہ کی وجہ سے شام میں کسی زندان میں اس دنیا سے چلا گیا ) سب سے پہلا شخص ہےجس نے توحید کے نام پر معاذا للہ توحید کا بیڑا غرق کیا اس کی سب سے بڑی وجہ توحید اور اسکی اقسام کوصحیح طریقے سے نہیں سمجھنا اور ادرا ک نہیں کرنا ہے
وہ بہت سارے شعائر دینی سے" شرک یا بدعت "کہہ کرمنکرہوگئا اور بعد میں اسکے شاگرد نامدار محمد ابن عبدالوھاب نے بھی اسلام کو اختلاف وسیلہ کے فتنہ سے دوچار کردیا۔ آج بھی ایسے افراد نظر آنے لگے ہیں جو توحید کے معنی ومفہوم کو صحیح ادراک نہ کرنے کے سبب " توسل" سے اگرصراحتا انکار نہ کرے تو کم ازکم شبہات رکھتے ہیں لہذا آج ہم توسل کے بارے کچھ مطالب آپ کی خدمت میں پیش کرینگے۔
وسیلہ انتخاب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور وسیلہ اس چیز کو کہاجاتا ہے جو انسان کوکسی دوسرے سے قریب کرے
خدا کی طرف توسّل کرنا اور وسیلہ منتخب کرنا یہ ہے کہ انسان ایسا عمل انجام دے جس سے اسے خدا کا قرب نصیب ہو ، اور وسیلہ اس چیز کے معنی میںبھیہے جس کے ذریعے انسان دوسری چیز سے نزدیک ہوتا ہے ''
وسیلہ، تقرب حاصل کرنے کے معنی میں بھی ہے اور اس چیز کے معنی بھی ہے جس کے ذریعے انسان دوسری شے کا قرب حاصل کرتا ہے _ اور یہ ایک وسیع مفہوم ہے
دینی اصطلاح میں اس کی مختصر تعریف یہ ہوسکتی ہے " بارگاہ الہی میں اولیائے الہی (حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرفہرست )سے توسّل کے ذریعہ مادّی اور معنوی مشکلات حل کرانا"
وسیلہ کی کئی اقسام ہیں لیکن ہمارا مورد بحث قسم توسل انبیاء اوراولیائے الہی کے ذریعے سے ہے
توسل قرآن مجید میں
1:-( يَا أَيُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَیهِ الْوَسِیلَةَ وَجَاهدُواْ فِی سَبِیلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ) سوره مائده آیت 35 " اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو " اس آیت میں وسیلہ کے ضمن میں علماء اور مفسرین مختلف اقوال بیان کرتے ہیں لیکن ان سب اقسام کو جمع کیا جاسکتا ہے لیکن ان میں اولیائے الہی کو وسیلہ بنانا سب سے زیادہ واضح اور روشن ہے جو روایات سے ثابت ہے
( وَلَوْ اٴَنَّهمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَهمْ جَاوٴُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِیمًا) سوره نساء ایت 64" اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے"
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں لوگ آکر آپ سے توسل کرتے تھے اور یہ سلسلہ تا قیام قیامت تک جاری رہے گا