واقعہ مباہلہ

khan_sultan

Banned
ZezyL46.png


واقعہ مباہلہ.
فتح مکہ کے بعد غلبہ اسلام کا دور شروع ہوا اور اسلام نے جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلنا شروع کیا۔ چنانچہ ہرقل روم، کسرائے ایران، مقوقس، حارث شاہ حیرہ، شاہ یمن اور شاہ حبشہ تک اسلام کی دعوت پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی ان حالات سے نہایت پریشان تھے۔ اتنے میں ان کے پاس رسول اللہ (ص) کی طرف سے دعوت اسلام پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی پادریوں میں بے چینی پھیل گئی۔ ان کے ارباب حل و عقد اور سرداران قبائل ایک جگہ جمع ہو گئے اور اسلام سے بچنے کی تجاویز زیر غور آئیں۔ اس گرما گرم بحث میں کچھ لوگ اسلام کے حق میں مؤقف رکھتے تھے، لیکن اکثر لوگ اسلام کے خلاف سخت مؤقف رکھتے تھے۔ آخر میں اپنے رہنماؤں السید اور العاقب کی رائے معلوم کی تو ان دونوں نے کہا: دین محمد (ص) کی حقیقت معلوم ہونے تک اپنے دین پر قائم رہیں۔ ہم خود یثرب جا کر قریب سے دیکھتے ہیں کہ محمد (ص) کیا دین لائے ہیں۔ چنانچہ السید اور العاقب اپنے مذہبی پیشواء ابو حاتم کی معیت میں چودہ رکنی وفد اور ستر افراد کے ہمراہ یثرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ لوگ نہایت نفیس لباس زیب تن کیے، نہایت تزک و احتشام کے ساتھ شہرمدینہ میں داخل ہوئے۔ اہل مدینہ کا کہنا ہے:

ما رأینا وفداً اجمل من ھؤلاء

ہم نے ان سے زیبا ترین وفد نہیں دیکھا تھا۔

چنانچہ جب وہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ان کی عبادت کا وقت آگیا۔ ناقوس بجا اور انہوں نے مشرق کی طرف رخ کر کے عبادت شروع کر دی۔ لوگوں نے روکنا چاہا، لیکن حضور (ص) نے منع فرمایا۔ یہ آزادیٔ عقیدہ و عمل کا بے مثال نمونہ ہے کہ مسجد نبوی (ص) کی چار دیواری کے اندر بھی غیر مسلموں کو اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کرنے اور اعمال بجا لانے کی آزادی دی گئی، جب کہ یہ لوگ رسالت محمدی (ص) کے منکر تھے۔ عقیدے کے معمولی اختلاف پر دیگر مسلمانوں کو واجب القتل قرار دینے والے دہشت گردوں کی پالیسی اور رسول رحمت (ص) کی پالیسی میں کس قدر فاصلہ نظر آتا ہے۔

انہیں تین دن تک مہلت دے دی گئی۔ تین روز کے بعد حضور (ص) نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے کہا: مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی سے متعلق توریت میں موجود تمام اوصاف آپ (ص) کے اندر موجود ہیں، سوائے ایک صفت کے، جو سب سے اہم ہے۔ وہ یہ کہ آپ مسیح علیہ السلام کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کی تکذیب کرتے ہیں، انہیں بندۂ خدا کہتے ہیں۔ حضور (ص) نے فرمایا: میں مسیح علیہ السلام کی تصدیق کرتا ہوں، ان پر ایمان لاتا ہوں اور گواہی دیتاہوں کہ وہ نبی مرسل اور عبد خدا تھے۔

وفد: کیا وہ مردوں کو زندہ نہیں کرتے تھے، مادر زاد اندھوں کو بینائی نہیں دیتے تھے اور برص کے مریضوں کو شفا نہیں دیتے تھے؟

حضور(ص): یہ سب باذن خدا انجام دیتے تھے۔

وفد: مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ بھلا کوئی بندہ بغیر باپ کے پیدا ہوتا ہے؟

حضور(ص): اللہ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح ہے کہ اسے مٹی سے خلق فرمایا پھر حکم دیا: بن جاؤ، وہ بن گیا۔

نجران کا وفد اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ انہوں نے دلیل و برہان کو قبول نہیں کیا۔

اس وقت حضور (ص) پر وحی نازل ہوئی:

فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَـنَا وَاَنْفُسَكُمْ۝۰ۣ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ......سورہ العمران آیت 61

حضور (ص) نے یہ آیت پڑھ کر حاضرین کو سنائی اور فرمایا: اگر تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے ساتھ مباہلہ کروں۔

وفد والے اپنے ٹھکانے پر واپس چلے گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ محمد (ص) نے ہمیں ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ کل دیکھو وہ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ مباہلے کے لیے نکلتے ہیں۔ اپنے سارے پیروکاروں کے ساتھ؟ یا اپنے بڑے اصحاب کے ساتھ؟ یا اپنے قریبی رشتہ داروں اور تھوڑے دیندار لوگوں کے ساتھ؟ اگر یہ بڑی جمعیت کی معیت میں جاہ و جلالت کے ساتھ شاہانہ انداز میں نکلتے ہیں تو کامیابی تمہاری ہے۔ اگر تواضع کے ساتھ چند ہی لوگوں کے ساتھ نکلتے ہیں تو یہ انبیاء کی سیرت اور ان کے مباہلے کا انداز ہے۔ اس صورت میں تمہیں مباہلے سے گریز کرنا چاہیے۔

دوسری طرف رات بھر مسلمان آپس میں قیاس آرائیاں کرتے رہے کہ کل رسول خدا (ص) اَبْنَاۗءَنَا، نِسَاۗءَنَا اور اَنْفُسَـنَا میں کن کن ہستیوں کو شامل کریں گے؟

۲۴ ذی الحجۃ کی صبح طلوع ہوئی اور حق و باطل میں ہمیشہ کے لیے فیصلہ کن دن آ گیا۔ رسول خدا (ص) نے حکم دیاکہ دو درختوں کو کاٹ کر ان کی درمیانی جگہ کو جھاڑو دے کر صاف کیا جائے۔ صبح ہوئی تو ان دونوں درختوں پر ایک سیاہ کساء (چادر) خیمے کی شکل میں ڈال دی گئی۔

نجرانی وفد میں السید اور العاقب اپنے دونوں بیٹوں کی معیت میں نکلے۔ وفد کے دیگر ارکان یعنی قبائل کے سردار بھی بہترین لباس زیب تن کیے نہایت تزک و احتشا م کے ساتھ ہمراہ تھے۔

دوسری طرف رسول اللہ (ص) حسنین (ع) کا ہاتھ پکڑے نکلے۔ پیچھے حضرت فاطمہ (س) اور ان کے پیچھے علی (ع) تھے۔ اس کساء کے نیچے پانچوں تن تشریف فرما ہوئے اور حضور (ص) نے فرمایا: میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ اس کے بعد حضور (ص) نے السید اور العاقب کو مباہلے کی دعوت دی۔ ان دونوں نے عرض کی: آپ (ص) کن لوگوں کو ساتھ لے کر ہمارے ساتھ مباہلہ کر رہے ہیں؟ حضور (ص) نے فرمایا: باھلکم بخیر اھل الارض ۔ میں اہل زمین میں سب سے افضل لوگوں کو ساتھ لے کر تمہارے ساتھ مباہلہ کر رہا ہوں۔

یہ دونوں اپنے اسقف (پادری) کے پاس لوٹ گئے اور اس سے پوچھا: آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ پادری نے کہا: انی لأری وجوھاً لوسئل اللہ بہا ان یزیل جبلاً من مکانہ لازالہ ۔ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ شخص (محمدؐ) ان کو وسیلہ بنا کر خداسے دعا کرے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ضرور ہٹ جائے گا۔ خبردار ان کے ساتھ ہرگز مباہلہ نہ کرنا، ورنہ روئے زمین پر قیامت تک کوئی نصرانی نہیں رہے گا۔ چنانچہ وہ مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے اور جزیہ دینے کا معاہدہ کر کے واپس چلے گئے۔ (سید ابن طاؤسؒ کی الاقبال)

محدثین، مفسرین، مورخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور (ص) نے مباہلے کے موقع پر حسنین، فاطمہ اور علی علیہم السلام کو ساتھ لیا۔ چنانچہ چوتھی صدی کے مقتدر عالم ابوبکر جصاص لکھتے ہیں:

رواۃ السیر و نقلۃ الاثر لم یختلفوا فی ان النبی صلی اللّٰہ علیہ (و آلہ) وسلم اخذ بید الحسن و الحسین و علی و فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہم ثم دعا النصاری الذین حاجوہ الی المباہلۃ ۔ (احکام القرآن ۲:۱۵)

سیرت نگاروں اور مورخین میں سے کسی نے بھی اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ (و آلہ) و سلم نے حسن، حسین، فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہم کا ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی۔

ہم ذیل میں چند اصحاب کا ذکر کرتے ہیں۔ جنہوں نے مباہلے میں صرف اہل البیت(ع) کی شرکت کا ذکر کیا ہے۔

i۔ سعد بن ابی وقاص۔ ان کی روایت صحیح مسلم ۷: ۱۲۰ طبع مصر۔ مسند احمد بن حنبل ۱: ۱۸۵ اور المستدرک للحاکم ۳: ۱۵۰ میں ملاحظہ ہو۔

ii۔ عبد اللہ بن عباس۔ ملاحظہ ہو معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص ۵۰۔ الدر المنثور۔

iii۔جابر بن عبد اللہ انصاری۔ ملاحظہ ہو دلائل النبوۃ ص ۲۹۷ اور اسباب النزول ص ۷۴۔

iv۔ سلمۃ بن یسوع عن ابیہ عن جدہ۔ دیکھیے البدایۃ و النھایۃ ۵: ۵۲
 

khan_sultan

Banned
آیتِ مباھلہ پانچ ہستیوں کے بارےمیں نازل ہوئی

یومِ مباھلہ عالم عیسائیت پر فتح کا دن ہے اور پوری عالم عیسائیت کے مقابل اسلام کے فاتحین اہل کساء ہیں ۔

اور یہی عظیم واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے کے کائنات کے سب کاذبین کے مقابل اگر تمغہ صداقت ملا تو انہیں پانچ ہستیوں کو ملا ۔۔۔ یعنی جو بھی جہاں بھی ان پانچ کے مقابل آیا سمجھ لو اس کے مقدر میں سوائے لعنت کے اور کچھ نہیں کیونکہ قرآن کے مطابق لعنۃ اللہ علی الکاذبین ھی ان کے مقابل کے کذب پر دلیلِ اتم ہے

آئیے دیکھتے ہیں اہل سنت کے علماء کی اس آیت اور اس کے مصادیق کے بارے میں کیا رائے ہے۔۔۔۔

اس مختصر تحقیق میں کوشش کی گئی ہے کہ احادیث بھی ذکر کر دی جائیں اور ساتھ ھی علماء اہل سنت نے ان پر جو حکم لگایا وہ بھی بیان کر دیا جائے۔۔

مسلم شریف میں ذکر ہوا کہ

ولما نزلت هذه الآية :‏ ‏فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ‏، ‏دعا رسول الله ‏ (ص) ‏ ‏علياًً ‏ ‏وفاطمة ‏ ‏وحسناًً ‏ ‏وحسيناًًً (ع) ‏، ‏فقال : اللهم هؤلاء أهلي.

جب یہ آیت نازل ہوئی (‏ ‏فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم) تو رسول اللہ ص نے علی ع فاطمہ ع اور حسن و حسین ع کو بلایا پس رسول اللہ ص نے فرمایا ؛ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ع ہیں (۱)

امام حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں:

عن إبن عباس في قوله عز وجل : فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم ، إلى قوله : الكاذبين ، نزلت على رسول الله (ص) وعلي (ع) نفسه ، ونساءنا ونساءكم : في فاطمة (ع) ، وأبناءنا وأبناءكم : في حسن وحسين (ع)

ابن عباس سے مروی ہے آیت (فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم) الکاذبین تک رسول اللہ ص پر نازل ہوئی اور علی نفس رسول ہیں نسائنا ونسائکم فاطمہ کے بارے میں اور ابنائنا وابنائکم حسن و حسین کے بارے میں اتری

اس کے بعد امام حاکم رقمطراز ہیں:

وقد تواترت الأخبار في التفاسير ، عن عبد الله بن عباس ، وغيره أن رسول الله (ص) أخذ يوم المباهلة بيد علي وحسن وحسين (ع) وجعلوا فاطمة (ع) وراءهم ، ثم قال : هؤلاء أبناؤنا وأنفسنا ونساؤنا ، فهلموا أنفسكم وأبناءكم ونساءكم ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين.

تفاسیر میں روایات متواتر ہیں ابن عباس و غیرہ سے کہ رسول اللہ ص نے مباھلہ کے روز علی حسن و حسین ع کا ہاتھ میں تھاما اور فاطمہ ع کو ان کے پیچھے رکھا پھر کہا۔ یہی میرے نفوس ، ابناء اور نساء ہیں اب تم اپنے نفوس اور ابناء و نساء کو لے آو پھر ہم مباھلہ کریں اور اللہ کی لعنت کاذبین پر قرار دیں (۲)

ایک اور مقام پر امام حاکم نے لکھا :

لما نزلت هذه الآية : ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم ، دعا رسول الله (ص) علياًً وفاطمة وحسناًً وحسيناًًً (ع) ، فقال : اللهم هؤلاء أهلي ، هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه.

ترجمہ بعینہ مسلم والی روایت میں گزر گیا فراجع

حدیث کا حکم : امام حاکم کہتے ہیں یہ روایت شیخین کی شرط پر صحیح ہے ۔۔(۳)

امام ترمذی نے بھی دو روایات درج کیں پہلی روایت کا حکم :هذا ‏ ‏حديث حسن غريب صحيح. لکھا

جبکہ دوسری کے بارے کہا :‏ ‏هذا ‏ ‏حديث حسن صحيح غريب ‏ ‏من هذا الوجه.

نوٹ ؛ جب امام ترمذی صحیح کیساتھ غریب کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو انکی خاص مراد ہوتی ہے جس کی تفصیل اہل سنت کتب درایه میں ملاحظہ کی جائے (۴)

ابن کثیر نے بھی لکھا کے یہ روایت پانچ تن کی شان میں اتری پھر حکم بھی بیان کیا کہ :صحيح على شرط مسلم (۵)

مزید کتب اہل سنت کے حوالہ جات (۶)

حوالہ جات از منابع اہل سنت


(۱)صحيح مسلم - فضائل الصحابة - من فضائل علي (ع) - رقم الحديث : ( 4420 )

(۲) معرفة علوم الحديث - ذكر النوع السابع من علوم الحديث

(۳) مستدرك الحاكم - كتاب معرفة الصحابة - رقم الحديث : ( 4719 )

(۴) سنن الترمذي - تفسير القرآن - ومن سورة آل عمران - رقم الحديث : ( 2925 )

سنن الترمذي - المناقب عن الرسول (ص) - مناقب علي (ع) - رقم الحديث : ( 3658 )


(۵) تفسير إبن كثير - الجزء : ( 1 ) - رقم الصفحة : ( 378 )

ابن کثیر کی کتب کے مزید حوالہ جات :

البداية والنهاية - الجزء : ( 5 ) - رقم الصفحة : ( 65 )

تفسير إبن كثير - الجزء : ( 7 ) - رقم الصفحة : ( 376 )

السيرة النبوية - الجزء : ( 4 ) - رقم الصفحة : ( 103 )


(۶) دیگر حوالہ جات :

السيوطي - الدر المنثور - الجزء : ( 2 ) - رقم الصفحة : ( 38 )

السيوطي - الدر المنثور - الجزء : ( 2 ) - رقم الصفحة : ( 39 )

إبن حجر - فتح الباري - الجزء : ( 7 ) - رقم الصفحة : ( 60 )

إبن حجر - الإصابة - الجزء : ( 4 ) - رقم الصفحة : ( 468 )

الطبري - جامع البيان - الجزء : ( 3 ) - رقم الصفحة : ( 408 )

الطبري - جامع البيان - الجزء : ( 3 ) - رقم الصفحة : ( 408 )

الطبري - جامع البيان - الجزء : ( 3 ) - رقم الصفحة : ( 409 )

الطبري - ذخائر العقبى - رقم الصفحة : ( 25 )

تفسير أبي حاتم - سورة البقرة - قولة تعالى : وأنفسنا وأنفسكم

الشوكاني - فتح القدير - الجزء : ( 1 ) - رقم الصفحة : ( 347 )

الشوكاني - فتح القدير - الجزء : ( 1 ) - رقم الصفحة : ( 348 )

أبي نعيم الإصبهاني - دلائل النبوة - ذكر ما روي في قصة السيد

الآجري - الشريعة - كتاب جامع فضائل أهل البيت (ع) رقم الحدیث 1643

الحاكم الحسكاني - شواهد التنزيل - الجزء : ( 1 ) - رقم الصفحة : ( 158 )

القندوزي - ينابيع المودة - الجزء : ( 1 ) - رقم الصفحة : ( 42 )

محمد بيومي - السيدة فاطمة الزهراء (ع) - رقم الصفحة : ( 32 )

الواحدي النيسابوري - أسباب نزول الآيات - رقم الصفحة : ( 67 )

مسند أحمد - مسند العشرة .. - مسند أبي إسحاق - رقم الحديث : ( 1522 )

أحمد بن حنبل - فضائل الصحابة - فضائل الحسن والحسين رقم الحدیث 1332
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْۖ ثُـمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّـٰهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ (61)
سورۃ آل عمران کی آیت 61 کو مفسرین آیت مباہلہ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں مباہلہ کا ذکر آیا ہے۔آیت کا ترجمہ
” پھر اے حبیب! تمہارے پاس علم آ جانے کے بعد جو تم سے عیسی کے بارے میں جھگڑا کریں تو تم ان سے فرما دو:آو ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو (مقابلے میں) بلا لیتے ہیں پھر مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔ “
اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے نواسوںحسن ؓاور حسین ؓاپنی بیٹی سیدہ فاطمہ ؓاور دامادحضرت علی ؓ کو لے کے گھر سے نکلے، دوسری طرف عیسائیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ﷺہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے۔اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔اسی واقعہ کی نسبت سے شعیہ اوراکثر سنی بھی پنجتن پاک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس سے وہابی حضرات اختلاف کرتے ہیں۔
قرآن کی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مباہلہ صرف کافر کے ساتھ ہو سکتا ہے، مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ عام مسائل میں مباہلہ نہیں کر سکتے۔ یہ صرف اسلام کی حقانیت کے لیے ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ واقعہ مباہلہ کی بنیاد پر مسلمانوں میں فرقہ واریت کازہر گھولا جائے۔ ۔ ۔ ۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور تمام صحابہ کرام ؓ امہات المومنین کا مقام بہت افضل ہے، اگر کوئی دشنام طرازی کی گئی تو پھر حیدری بولے گا۔


 

akinternational

Minister (2k+ posts)
Aapki niyat men futur hai.....yaani in mo'tbar aur pak hastiyon ke alwa deeger ehl e bait nahin.....hazrat fatima RA ki degger behnen aur ummahatulmominin RA ajmaeen...
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
Aapki niyat men futur hai.....yaani in mo'tbar aur pak hastiyon ke alwa deeger ehl e bait nahin.....hazrat fatima RA ki degger behnen aur ummahatulmominin RA ajmaeen...
????? ??????? ?? ?? ??? ?? ?? ?????. ???? ???? ?? ???? ???? ?????? ???? ???? ???? ???? ????? ?????? ???
 
Last edited:

khan_sultan

Banned
????? ??????? ?? ?? ??? ?? ?? ?????. ???? ???? ?? ???? ???? ?????? ???? ???? ???? ???? ????? ?????? ???

????? ?? ???? ?????? ?? ?? ?? ?? ?? ??? ???? ?? ???? ????? ?? ???? ??? ????? ??? ?? ??? ???? ????? ?? ??? ?? ??? ???? ??? ????? ?? ??? ?? ????? ?? ????? ?? ?????? ???? ???? ?? ?? ?? ?? ?????? ?? ??? ?? ??? ?? ?? ???? ???? ????
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
قرآن نے سچوں اور جھوٹوں کو بلکل الگ الگ کر دیا ، اب یہ بندے پر ہے کہ وہ سچوں کے ساتھ ہو جاتا ہے یا جھوٹے بھی اس کے دل میں رہتے ہیں
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
Aapki niyat men futur hai.....yaani in mo'tbar aur pak hastiyon ke alwa deeger ehl e bait nahin.....hazrat fatima RA ki degger behnen aur ummahatulmominin RA ajmaeen...

????? ??????? ?? ?? ??? ?? ?? ?????. ???? ???? ?? ???? ???? ?????? ???? ???? ???? ???? ????? ?????? ???

[FONT=&quot]?? ????? ????! ???? ?? ??? ??? ???? ?? ???? ?? ????
9:119

[/FONT]
??? ?? ?? ??? ??? ?? ??? ??? ?? ???? ????? ?? ? ???? ???? ????? ?? ????? ?????? ?? ???? ?? ??? ??
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
جنرل ضیاء کے دور میں ایک مسلمان اور عیسائی عالم کے درمیان مناظرہ ہوا ، جو کہ مسلمان عالم نے جیت لیا . یہ مناظرہ کئی ممالک میں براہراست دکھایا گیا اور کئی ممالک میں ریکارڈنگ دکھائی گئی ، لیکن پاکستان میں جنرل ضیاء نشر نہیں ہونے دیا اور وجہ یہ بتائی کہ


اس سے عیسائی لوگوں کے جذبات مجروح ہوں گے
:lol:[hilar]:lol:
[hilar]:lol:[hilar]
:)

 
Last edited:

khan_sultan

Banned

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْۖ ثُـمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّـٰهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ (61)
سورۃ آل عمران کی آیت 61 کو مفسرین آیت مباہلہ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں مباہلہ کا ذکر آیا ہے۔آیت کا ترجمہ
” پھر اے حبیب! تمہارے پاس علم آ جانے کے بعد جو تم سے عیسی کے بارے میں جھگڑا کریں تو تم ان سے فرما دو:آو ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو (مقابلے میں) بلا لیتے ہیں پھر مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔ “
اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے نواسوںحسن ؓاور حسین ؓاپنی بیٹی سیدہ فاطمہ ؓاور دامادحضرت علی ؓ کو لے کے گھر سے نکلے، دوسری طرف عیسائیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ﷺہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے۔اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔اسی واقعہ کی نسبت سے شعیہ اوراکثر سنی بھی پنجتن پاک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس سے وہابی حضرات اختلاف کرتے ہیں۔
قرآن کی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مباہلہ صرف کافر کے ساتھ ہو سکتا ہے، مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ عام مسائل میں مباہلہ نہیں کر سکتے۔ یہ صرف اسلام کی حقانیت کے لیے ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ واقعہ مباہلہ کی بنیاد پر مسلمانوں میں فرقہ واریت کازہر گھولا جائے۔ ۔ ۔ ۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور تمام صحابہ کرام ؓ امہات المومنین کا مقام بہت افضل ہے، اگر کوئی دشنام طرازی کی گئی تو پھر حیدری بولے گا۔


حیدری صاحب یہ تھریڈ واقعہ مباہلہ پر ہےر اس میں جن کی فضیلت ہے انکا ہی ذکر ہوا ہے باقی کون افضل ترین ہے آپ کے نزدیک مجھے اس سے کوئی مسلہ نہیں ہے میرے نزدیک پنجتن بعد از نبی افضل ترین ہیں اور مباہلہ میں بھی آپ سرور کونین نفس کی منزل پر مولاے کائنات کو لیکر گئے پر ادھر کسی بحث کی گنجائش نہیں نکلتی ہے مباہلہ پر کچھ تحریر کریں تو بہت خوشی ہو گی
 

khan_sultan

Banned
قرآن نے سچوں اور جھوٹوں کو بلکل الگ الگ کر دیا ، اب یہ بندے پر ہے کہ وہ سچوں کے ساتھ ہو جاتا ہے یا جھوٹے بھی اس کے دل میں رہتے ہیں
آپ سے بھی گزارش ہے کے صرف اور صرف واقعہ مباہلہ پر کچھ شئیر کریں تو بہتر ہو گا باقی کسی بھی موضوع پر کسی کا جواب مت دیں فضائل آل محمد ہر کسی کو ہضم نہیں ہوتے ہیں اور وہ کون ہوتے ہیں احادیث نبوی میں ان کا ذکر ہے
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
یار یہ ایک عجیب فرقہ ہے۔ اسکی عیدیں ہی نہیں ختم ہوتیں۔ ہر مہینے ایک عید ہوتی ہے۔ اور اتنی عیدیں ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ماتمیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔