یہ پچھلے الیکشن کی بات ہے جب ایسے ہی فورمز پر تحریک انصاف کے ٹائگروں سے بحث ہوا کرتی تھی . ایک ٹائگر اتنا سیریس ہو گیا کہ الله رسول کے واسطوں سے لے کر بد دعاؤں تک اتر آیا بس عمران خان کو ہی ووٹ دو وہ ہی ولی الله ہے اس کے علاوہ کسی اور کو ووٹ دینا حرام ہے ایسا کرنے والے پر الله کا عذاب ہو وغیرہ وغیرہ . کچھ لوگ تو لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں . ایک ٹائگر کو مذاق مذاق میں الو بتاتے بتایا رحم خان کی کتاب میں عمران خان کی قابل اعتراض تصویریں ہیں بس اب تو عمران خان گیا .... وہ وہیں پر رونے لگ گیا بڑی مشکل سے سمجھایا کہ یار مذاق کر رہے تھے ایسی کوئی بات نہیں تو چپ ہوا . بس عمران خان کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے خاص طور پر کچی عمر کے ٹائگر . ایسے لوگوں کی ذہنی حالت دیکھ کر اتنا افسوس ہوتا ہے کہ جس اندھی تقلید میں یہ لوگ پاگل ہو چکے ہیں اگر ان کا لیڈر ناکام ہو گیا یا ان کی امیدوں پر پورا نہ اترا تو ان کا پتا نہیں کیا ہو گا
ہماری بات تو ایک سیاسی مبصر کی سی ہے ایک پارٹی سے صرف ہمدردی کا تعلق ہے نہ ہم کسی جماعت کے کارکن ہیں نہ کسی سے کوئی سیاسی مفاد وابستہ ہے . کسی کے جیتنے یا ہارنے سے کوئی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا .ہماری زندگی میں تبدیلی صرف ہماری ذاتی ترقی سے ہی وابستہ ہے . یہ حال شائد پوری قوم کا ہے . اس قوم کے انتہائی قلیل حصے کا واسطہ پولیس ، ہسپتال یا سرکاری سکولوں سے پڑتا ہے . اگر کوئی فرق ڈالنے والی بات ہے تو مہنگائی ہے جس سے براہ راست زندگی متاثر ہوتی ہے اور اس سے مقابلہ بھی انسان کی ذاتی محنت اور آمدنی پر منحصر ہے مہنگائی کی بات شہروں میں تو ٹھیک ہے لیکن دیہاتوں میں یہ اتنا بڑا اشو نہیں ہے . لوگوں کے الیکشن میں دلچسپی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ووٹنگ ٹرن آوٹ تیس فیصد اور بعض علاقوں میں دس فیصد تک بھی کم ہوتا ہے . مطلب زیادہ تر لوگ سیاسی تبدیلیوں یا سیاسی حالات سے بے خبر ہوتے ہیں یا ان بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتے .
پاکستان میں ووٹنگ میں حصہ لینے کی بڑی وجہ ذاتی مخالفتیں اور دشمنیاں ہوتی ہیں نظریات کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا . ہر جگہ لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور یہ ہی تقسیم ووٹوں کی تقسیم کی وجہ بنتی ہے . ایک گروپ ایک پارٹی کی طرف جاتا ہے تو لازمی طور دوسرا گروپ اس کی مخالفت میں جاتا ہے . یہاں جیت صرف بدمعاش گروپ کی ہوتی ہے جو لوگوں سے زبردستی اسٹبلشمنٹ کی شہ ووٹ لے سکتے ہیں اس کے علاوہ اسٹبلشمنٹ کے مخالف بھی بدمعاش گروپ کامیاب ہوتے ہیں . جو بندہ بھی اپنے حلقے میں اپنی بدمعاشی قائم کر لیتا ہے اس کے مخالف جانا ریاست سے بغاوت جیسا عمل ہوتا ہے . بعض علاقوں میں تو ایک پارٹی کے علاوہ دوسری پارٹی کے پاس پولنگ ایجنٹ ہی نہیں ہوتے اور ایک ہی نشان پر ٹھپے لگتے رہتے ہیں سو فیصد ٹرن آوٹ کے ساتھ .
اس لیے سیاسی تبدیلیوں کو کبھی سیریس نہیں لینا چاہئیے .کسی بھی سیاسی شخصیت کے لیے اپنے خاندان ، برادری اور دوستوں سے لڑائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا . اور کسی بھی شخص پر اندھا اعتماد نہیں کیا جا سکتا .انسان کی ترقی اس کی ذات کی ترقی سے ہی وابستہ ہے حکومتیں نہ کسی غریب کو امیر کر سکتی ہیں اور نہ دودھ اور شہد کی نہریں بھا سکتی ہیں . حقیقی تبدیلی قومی سوچ کی تبدیلی سے ہی اۓ گی . تب تک انتظار کرنا چاہئیے جذباتی ہو کر انسان صرف اپنی ذات کو ہی نقصان پہنچا سکتا ہے . جذباتی باتوں سے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی