
صحافی بشیر چوہدری کی ٹویٹ اور اس کے بعد صحافی برادری کا ردعمل ایک سنگین مسئلے کو اجاگر کر رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی میڈیا ٹیم نے مسلسل عدم دستیابی اور اہم مواقع پر لیگی رہنماؤں کی جانب سے عدم توجہ کا سامنا کیا جس کے نتیجے میں صحافیوں نے ن لیگ کے واٹس ایپ گروپ کو چھوڑ دیا۔ اس احتجاج نے واضح طور پر ظاہر کیا کہ جماعت کے اندر میڈیا کے حوالے سے سنجیدہ مسائل موجود ہیں۔
صحافی بشیر چوہدری نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی سرگرمیوں کی کوریج کے لیے دس سال سے زائد عرصے سے قائم واٹس ایپ گروپ، جس میں وزیر اطلاعات، وفاقی وزراء، میڈیا ٹیم، مرکزی سیکرٹری اطلاعات، صوبائی صدور اور تقریباً 75 رپورٹرز شامل تھے، اب ختم ہوگیا ہے۔
رپورٹرز نے ن لیگ کی جانب سے کسی بھی خبر پر ردعمل دینے میں مسلسل عدم دستیابی اور اہم مواقع پر نظرانداز کیے جانے پر احتجاج کیا۔ اس دوران، کوئی بھی لیگی رہنما ان کے تحفظات دور کرنے یا جواب دینے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔
بشیر چوہدری نے بتایا کہ اس صورتحال کے بعد، تیس تیس سال سے مسلم لیگ ن کی سرگرمیوں کی کوریج کرنے والے رپورٹرز نے گروپ چھوڑ دیا۔ اس کے باوجود، پارٹی کے کسی رہنما نے ان کی شکایات کا نوٹس نہیں لیا۔ پھر، باقی رپورٹرز نے بھی گروپ چھوڑا اور ایڈمن صحافی دوست نے احتجاجاً باقی ارکان کو گروپ سے نکال کر اسے مکمل طور پر ختم کر دیا۔
انہوں نےلکھا کہ مسلم لیگ ن اسلام آباد کی سطح پر بطور بیٹ اپنا اثر و رسوخ کھو چکی ہے، اور اس کی تمام تر ذمہ داری وزیر اطلاعات پر عائد ہوتی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1923727342947463294 صحافیوں کی اس کارروائی پر صحافی برادری کا ردعمل بھی کافی سخت تھا۔ چوہدری سجاد حسین نے اس صورتحال کو انتہائی افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) خود ہی ایک بڑی سیاسی جماعت کے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1923744991458754619
فہیم اختر ملک نے ن لیگ کے سیاسی رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جماعت اقتدار میں آتے ہی مخالفین کے لیے سخت رویہ اختیار کرتی ہے، لیکن مشکلات میں اپنے حامیوں کو نظرانداز کر دیتی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1923728869586022659 صحافی ثاقب راجا نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ ن لیگ کے وزرا اور ترجمانوں نے مخصوص افراد کی ایک لسٹ بنا رکھی ہے، اور ان کے علاوہ کسی کی باتوں کا جواب دینا پسند نہیں کیا جاتا۔
https://twitter.com/x/status/1923796895324844452 اس حوالے سے شبیر ڈار نے کہا کہ یہ بالکل درست ہے کہ ن لیگ کی قیادت کو حکومت ملتے ہی ایک خاص رویہ اختیار کر لیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں میڈیا کے ساتھ تعلقات متاثر ہو جاتے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1923756426767294480
صحافی شاکر محمود اعوان نے کہا کہ میڈیا جب انگلیوں پرناچتا ہو تو پھر کون سے بیٹ رپورٹر کیا وضاحت، کیا تردید، کیا کسی کے سوال کا جواب دینا۔
https://twitter.com/x/status/1923737438586867807 یہ تمام ردعمل اس بات کا غماز ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے میڈیا تعلقات میں سنگین مسائل ہیں، اور اگر اس رویے کی اصلاح نہ کی گئی تو اس کا اثر جماعت کی ساکھ اور سیاست پر پڑ سکتا ہے۔ صحافیوں کا احتجاج اور ان کا گروپ چھوڑنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ن لیگ کو میڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔