میں نےن لیک کو کیسے سیاست کی بلندیوں پر چڑھتے دیکھا۔ضیاء دور کے بعد بھٹو کی پیپلز پارٹی عوام الناس میں مقبول جماعت تھی۔لیکن ضیاء کی باقیات کو پسند نہیں تھی۔باقیات کو بی بی بھٹو کے مقابلے میںضیاء نواز لیڈردرکار تھااور یہی وجہ تھی کہ نواز شیریف کولانچ کیا گیاجو لیڈرشپ کی کوئی کوالٹی نہیں رکھتا تھالیکن ضیاء نواز تھابھٹو کی پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو جمع کرکےایک گروپ بنا یا گیااور اسکا سردار نواز شریف۔
میاں نواز شریف کا پہلا عروجی واقعہ۔
میاں نواز شریف کار میں تشریف فرما تھے اور ان کے گرد ایک ہجوم تھاہجوم نے جوش جذبات میں آتے ہوئے میاں صاحب کی کار کو جنازے کی طرح اٹھا لیا اور اس لمحےکو پورے پاکستان نے دیکھا -کہ میاں صاحب شہرت اور پسندیدگی کی بلندی کی طرف اٹھ رہے ہیں۔اور پھر میاں صاحب نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
لوگوں کے ہجوم نے میاں صاحب کی کار کو اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا ایسے ہی ایک ہجوم کے سامنے میاں صاحب پر لہراتا بل کھاتا جوتاپڑاتو مجھے میری ٹائم مشین ماضی میں لےگئی جب میں دیکھ رہا تھا کہ لوگ میاں صاحب سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ جس کار میں وہ بیٹھے ہوں وہ بھی اپنے کاندھوں پر اٹھالیتے ہیں۔یہ شیر کے عروج کی پہلی چھلانگ تھی اور جب جوتا کھاتے ہوئے شیر کو ڈرتا سہمتا سمٹتا پیچھے ہٹتا دیکھا تو شاید یہ شیر کے زوال کی پہلی جھلک تھی۔عروج و زوال شہرت اور ذلت کا موازنہ آپ خود کرلیں۔
اسٹیبلشمنٹ جسے میاں صاحب خلائی مخلوق کا نام دیتے ہیںاگر میاں نواز شریف کو میںکسی شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دوں تو وہ ہے پی ایچ ڈی ان اسٹیبلیشمنٹ افئیرز،اب اگر پی ایچ ڈی میاں نواز شریف جو اسی ڈگری کی بدولت تین بار پرائم منسٹر کے عہدے پر براجمان ہوئےتوآپ سوچئے کہ ان سے زیادہ اسٹبلشمنٹ کے کھیل کو کون جانتا ہوگا اب صرف فرق یہ ہے کہ ان کو بار بار ناٹ آؤٹ دینے والی خلائی مخلوق نے کرکٹ بدل سیاست باؤلر کی ایک سیدھی گیند جو میاں صاحب کے پیڈ پر ٹکرائی تھی اسے ناٹ آؤٹ دینے کے بجائے تھرڈ نیوٹرل ایمپئائر کی طرف ریفر کردیا اور ان بہترین نیوٹرل ایمپائرز نے میرٹ پر فیصلہ کرتے ہوئے میاں صاحب کو آؤٹ قرار دے دیا۔ اسٹبلشمنٹ افیئرز کا بہترین کھلاڑی جب انتخابات کو پری پول دھاندلی کہنا شروع کردے تو ن ۔ لیک کے جیتنے کی توقع تو دم توڑنے لگتی ہےاپنے ایمپائر بھی بیگانے ہوگئے۔
سیانے بیگانے جانے مانے انجانے سیاست کے سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ بھٹو کے ستر اور ستتر کے بعدستتر کے الیکشنز کو بھی دھاندلی زدہ کہا جاتا ہے پاکستانی قوم نے دو بار کبھی ایک حکومت کوحکومت کرنے کا موقع نہیں دیا چاہے وہ جتنی بھی پاپولر کیوں نہ ہو۔سیاست کے سائنسدانوں کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ پاکستانی قوم زوال پذیر کے مقابلے میں عروج پذیرپارٹیوں کو فوقیت دیتی ہیں اور اپنا ووٹ اس بنیاد پر دیتی ہیں کہ حکومت کون بنانے جارہا ہے چہ جائیکہ یہ پرسیپشن کسی بھی پارٹی کے بارے میں ہو۔
ن لیک کے پی کے میں بہت کمزور پوزیشن میں ہے۔بلوچستان میں جو حشر ہوا سب کے سامنے ہے۔سندھ میں ایسی جیسی پی پی پنجاب میں اور پنجاب میں اب یکطرفہ مقابلہ نہیں وہاں انصاف کی تحریک کے مضبوط امیدوار کھڑے ہیں۔جنوبی پنجاب اب صوبہ کا اسٹیٹس چاہتا ہے اس لئے مشکل سے ن لیک کو ووٹ دے گا۔اور باقی پنجاب میں کانٹے کا مقابلہ۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تحریک انصاف واضح اکثریت سے جیت جائے گی لیکن میں یہ وثوق سے اوراپنے تئیں زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ ن لیک نہیں جیتے گی۔
میاں نواز شریف کا پہلا عروجی واقعہ۔
میاں نواز شریف کار میں تشریف فرما تھے اور ان کے گرد ایک ہجوم تھاہجوم نے جوش جذبات میں آتے ہوئے میاں صاحب کی کار کو جنازے کی طرح اٹھا لیا اور اس لمحےکو پورے پاکستان نے دیکھا -کہ میاں صاحب شہرت اور پسندیدگی کی بلندی کی طرف اٹھ رہے ہیں۔اور پھر میاں صاحب نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
لوگوں کے ہجوم نے میاں صاحب کی کار کو اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا ایسے ہی ایک ہجوم کے سامنے میاں صاحب پر لہراتا بل کھاتا جوتاپڑاتو مجھے میری ٹائم مشین ماضی میں لےگئی جب میں دیکھ رہا تھا کہ لوگ میاں صاحب سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ جس کار میں وہ بیٹھے ہوں وہ بھی اپنے کاندھوں پر اٹھالیتے ہیں۔یہ شیر کے عروج کی پہلی چھلانگ تھی اور جب جوتا کھاتے ہوئے شیر کو ڈرتا سہمتا سمٹتا پیچھے ہٹتا دیکھا تو شاید یہ شیر کے زوال کی پہلی جھلک تھی۔عروج و زوال شہرت اور ذلت کا موازنہ آپ خود کرلیں۔
اسٹیبلشمنٹ جسے میاں صاحب خلائی مخلوق کا نام دیتے ہیںاگر میاں نواز شریف کو میںکسی شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دوں تو وہ ہے پی ایچ ڈی ان اسٹیبلیشمنٹ افئیرز،اب اگر پی ایچ ڈی میاں نواز شریف جو اسی ڈگری کی بدولت تین بار پرائم منسٹر کے عہدے پر براجمان ہوئےتوآپ سوچئے کہ ان سے زیادہ اسٹبلشمنٹ کے کھیل کو کون جانتا ہوگا اب صرف فرق یہ ہے کہ ان کو بار بار ناٹ آؤٹ دینے والی خلائی مخلوق نے کرکٹ بدل سیاست باؤلر کی ایک سیدھی گیند جو میاں صاحب کے پیڈ پر ٹکرائی تھی اسے ناٹ آؤٹ دینے کے بجائے تھرڈ نیوٹرل ایمپئائر کی طرف ریفر کردیا اور ان بہترین نیوٹرل ایمپائرز نے میرٹ پر فیصلہ کرتے ہوئے میاں صاحب کو آؤٹ قرار دے دیا۔ اسٹبلشمنٹ افیئرز کا بہترین کھلاڑی جب انتخابات کو پری پول دھاندلی کہنا شروع کردے تو ن ۔ لیک کے جیتنے کی توقع تو دم توڑنے لگتی ہےاپنے ایمپائر بھی بیگانے ہوگئے۔
سیانے بیگانے جانے مانے انجانے سیاست کے سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ بھٹو کے ستر اور ستتر کے بعدستتر کے الیکشنز کو بھی دھاندلی زدہ کہا جاتا ہے پاکستانی قوم نے دو بار کبھی ایک حکومت کوحکومت کرنے کا موقع نہیں دیا چاہے وہ جتنی بھی پاپولر کیوں نہ ہو۔سیاست کے سائنسدانوں کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ پاکستانی قوم زوال پذیر کے مقابلے میں عروج پذیرپارٹیوں کو فوقیت دیتی ہیں اور اپنا ووٹ اس بنیاد پر دیتی ہیں کہ حکومت کون بنانے جارہا ہے چہ جائیکہ یہ پرسیپشن کسی بھی پارٹی کے بارے میں ہو۔
ن لیک کے پی کے میں بہت کمزور پوزیشن میں ہے۔بلوچستان میں جو حشر ہوا سب کے سامنے ہے۔سندھ میں ایسی جیسی پی پی پنجاب میں اور پنجاب میں اب یکطرفہ مقابلہ نہیں وہاں انصاف کی تحریک کے مضبوط امیدوار کھڑے ہیں۔جنوبی پنجاب اب صوبہ کا اسٹیٹس چاہتا ہے اس لئے مشکل سے ن لیک کو ووٹ دے گا۔اور باقی پنجاب میں کانٹے کا مقابلہ۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تحریک انصاف واضح اکثریت سے جیت جائے گی لیکن میں یہ وثوق سے اوراپنے تئیں زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ ن لیک نہیں جیتے گی۔